شدید مہنگائی اور سرکاری ملازمین کی مختلف الاؤنسز سے محرومی
درحقیقت گزشتہ چند برسوں سے ملک بھر میں مہنگائی کی بے تحاشہ بڑھتی ہوئی شرح نے عوام اور بالخصوص سرکاری ملازمین کی زندگی اجیرن کر رکھی ہے۔ اس صورتحال اور بدانتظامی نے بالآخر حکومت کو فارغ کر دیا اور ایک منتحب حکومت کو ملک کی سیاسی تاریخ میں پہلی بار اپوزیشن کے طور پر کام کرنے یا استعفیٰ دینے پر مجبور کر دیا۔ سرکاری ملازمین ہمیشہ اپنی تنخواہوں سے اخراجات کا انتظام کسی بھی صورتحال میں کرتے ہیں، وہ زندگی بھر اپنی تنخواہوں پر مکمل انحصار کرتے ہیں کیونکہ انہیں کوئی بھی سائیڈ بزنس چلانے کی اجازت نہیں ہے۔ بدقسمتی سے حکومت کے کمزور کنٹرول کی وجہ سے مارکیٹ میں روزانہ کی بنیاد پر تقریباً تمام اشیاء کی قیمتوں میں اضافہ کیا جا رہا ہے لیکن سرکاری ملازمین کو سال میں ایک بار بھی تنخواہوں میں اضافہ مشکل سے ہی کیا جاتا ہے۔ بدقسمتی سے، پچھلے چند سالوں سے تنخواہوں میں اضافہ “گبھرانا نہیں” سب ٹھیک ہو جائے گا اور بس انتظار کرو اور دیکھوپر مشروط تھا ۔ لہذا، 100-200٪ کی مہنگائ کی شرح کے مقابلے میں تنخواہوں میں کوئی خاطر خواہ اضافہ نہیں کیا گیا۔ ہر چیز کی قیمت تقریباً دگنی سے تین گنا یا اس سے زیادہ بڑھ گئ ہے۔ سابق حکومت نے خود ہی بالآخر احساس کیا اور ڈسپیرٹی ریڈکشن الاؤنس (DRA) کا تصور متعارف کرایا اور کم از کم سرکاری ملازمین کو زندہ رکھنے کے لیے پورے ملک اور صوبہ KP میں تنخواہوں میں کچھ اضافے کا اعلان کیا۔
18ویں ترمیم کے بعد، ہر صوبہ اپنے ملازمین کے لیے وفاقی حکومت کی ہدایات کے تحت الاؤنسز منظور کرنے کا مجاز ہے لیکن برابری کے آئینی اصولوں کی خلاف ورزی نہیں کی جا سکتی۔
اب آتے ہیں اصل موضوع کی طرف، سابق حکومت کے صرف ایک سال بعد 2019 میں ملک میں تمام ملازمین کی تنخواہوں میں 10 فیصد اضافہ کیا گیا تھا لیکن کے پی میں حکومت نے BPS-20 اور اس سے اوپر کے اضافے کی تردید کی اور یوں اس کی خلاف ورزی کی۔ ملازمین کے آئینی حقوق کی پامالی نے ان ملازمین کا جینا دوبھر کر دیا ہے کیونکہ وہ بھی ایک ہی ملک کےدوسرے صوبوں کی طرح شہری ہونے کے ناطے یکساں طرز پر ایک ہی بازار کے خریدارہے ۔
2020 میں تمام صوبوں اور وفاقی حکومت نے دوبارہ تنخواہوں میں 10% اضافہ کیا سوائے سندھ کے جس میں 15% اضافہ کیا گیا لیکن کے پی حکومت نے BPS 1-19 کے لیے 10 اور BPS-20 اور اس سے اوپر کے لیے صرف 5% کی منظوری دی اور پھر برابری آئین کے حقوق کی خلاف ورزی کی۔
خودمختار صوبائی مالیات کا مطلب ہر بار ملازمین کے ایک زمرے کے حقوق کی قربانی دینا نہیں ہے بلکہ وفاق کی طرف سےاعلان کردہ اضافے کے علاوہ مزید سہولیات کی ادائیگی ادا کرنا ہے اگر مزید وسائل دستیاب ہوں جیسا سندھ حکومت کیا کرتی ہے۔ وفاقی حکومت کی جانب سے بجٹ کے دوران تنخواہوں میں اضافے کے اعلان کو کم نہیں کیا جا سکتا کیونکہ ہر صوبے کو اس مقصد کے لیے اس حد تک ادائیگی یقینی کی جاتی ہے جس سے انکار نہیں کیا جا سکتا اور نہ ہی وہ رقم دیگر شعبوں میں استعمال کیا جا سکتا ہے۔ اگر ملازمین کے بنیادی مساوی حقوق کو قربان کرنے کی اجازت ہوتی تو کمزور صوبے بلوچستان کے صوبائی ملازمین کو قیام پاکستان کے بعد اور خاص طور پر 18ویں ترمیم کے بعد کوئی تنخواہ نہ ملتی۔ لہذا، اس مدت کے بقایا جات BPS-20 اور اس سے اوپر کے ملازمین کو اس کے مطابق منظور اور جاری کیے جائیں، بصورت دیگر، نظر انداز کیے گئے ملازمین انصاف کے حصول کے لیے کسی بھی عدالت سے رجوع کر سکتے ہیں جس کا فیصلہ آئین پاکستان کے حق میں کیا جائے گا۔
یہ انوکھے تجربات صرف کے پی حکومت میں کام کرنے والے ملازمین پر ہی کیوں کیے جاتے ہیں؟ کیا یہ ان کی ملک سے وفاداری کی سزا ہے یا کے پی حکومت سے وفاداری یا سادگی اور صبر؟
صوبائی حکومت کا امتیازی سلوک یہیں ختم نہیں ہوتا، موجودہ DRA الاؤنس نوٹیفکیشن FD/SO-SR-DI-I/2020/DRA مورخہ 12/04/2022 میں پھر BPS-20 کو شامل نہیں کیا گیا ہے۔
ان حالات میں اب بی پی ایس 19 اور 20 میں کیا فرق رہتا ہے؟ بی پی ایس 20 اور اس سے اوپر والے ملازمین کوایک گریڈ کیوں نہیں گھٹایا جاتا تاکہ ہمیشہ کے لیے قصہ ہی ختم ہو؟
ان سادہ سوالات کو تو چھوڑیں، بی پی ایس پر یونیورسٹی کے اساتذہ کے لیے حکومت کی مزید لاعلمی اور ظلم کی طرف آتے ہیں، وہ اس طرح کے تمام اضافے سے باہر ہیں کیونکہ کے پی کے حکومت عموماً یہ مزاحیہ بیان بھی شامل کرتی ہے کہ اگر خود مختار ادارے اور باڈیز منظوری دیں توان شرائط پر اضافہ کی اجازت ہوگی۔ اس کا مطلب ہے کہ یونیورسٹی کے اساتذہ کو سرکاری ملازمین میں شمار نہیں کیا جاتا جو کہ آئین پاکستان کی ایک اور خلاف ورزی ہے۔ اس طرح کی محرومیوں اور امتیازی سلوک کی کہانی یہیں ختم نہیں ہوتی، صرف یونیورسٹی کے بی پی ایس اساتذہ کو پروموشن کے بنیادی جائز حق سے بھی محروم رکھا گیا ہے جو کہ ایک اور خلاف ورزی ہے کیونکہ ان میں سے اکثر اساتذہ ترقی کے غیر قانونی پیچیدہ عمل کی وجہ سے عموماً ایک ہی سکیل پر ریٹائر ہو رہے ہیں کیونکہ بار بارغیر قانونی تقرری پر کارروائی میں دہائیاں لگتی ہیں۔
مصنف کے پی کے وزیراعلیٰ سے پرزور اپیل کرتاہے کہ ملازمین کے ان
محرومیوں کو فلفورحل کرےاور مذکورہ الاؤنسز کی اجرا کو بلا تفریق یقینی بنائے۔
مصنف مالاکنڈ یونیورسٹی میں بطور ایسوسی ایٹ پروفیسر کام کر رہے ہیں۔
تحریر: ڈاکٹر امتیاز احمد
iahmaad@hotmail.com