کیا ہماری کوئی سوشل زندگی نہیں”

کیا ہماری کوئی سوشل زندگی نہیں
ایک بینک ملازم کا سوال

ایک بینکر کی زندگی باقی تمام دفاتر میں کام کرنے والوں کی نسبت خاصی مختلف اور مشکل ہوتی ہے۔ یوں تو بیرونی سطح سے بینکر ٹائی لگائےایک جنٹلمین معلوم ہوتا ہے مگر در حقیقت اس وائٹ کالر اور ٹائی کے پیچھے ایک بے چارہ انسان چھپا ہوتا ہے جسے بینک کھلنے سے قریب آدھا گھنٹہ پہلے اپنے دفتر پہنچنا ضروری ہوتا ہے تاکہ کسٹمرز کی آمد سے پہلے تمام ضروری اقدامات کر سکے۔ صرف یہی نہیں بلکہ بینکر 9 سے 5 لگاتار اپنے کسٹمرز کو ڈیل کرتا ہو وہ بھی بنا کسی وقفے کے اور اصل قیامت تو تب ڈھاتی ہے بینکر پر جب 5 بجے شام کو تمام حضرات اپنے دفاتر سے اپنے گھروں کے لئے نکل جاتے ہیں جبکہ بینکر اس وقت تک کسٹمرز کو ہی ڈیل کر رہا ہوتا ہے، تمام کسٹمرز سے فارغ ہونے کے بعد قریب 6 بجے وہ کلوزنگ کا آغاز کرتا ہے اور اپنا کام سمیٹتے، کیش بیلنس کرتے اور دفتر کو تالہ لگاتے روز اسے 8 سے 9 بج جاتے ہیں، بات یہاں بھی ختم نہیں ہوتی، بہت سے بینکر دوسرے قریب کے شہروں میں کام کر رہے ہوتے ہیں کیونکہ سٹیٹ بینک کی پالیسی کے مطابق کوئی بھی بینکر کسی ایک برانچ میں 3 سال سے زائد کام نہیں کر سکتا جس کی وجہ سے بینکرز کے تبادلے ہوتے رہتے ہیں اور یوں دور کسی برانچ میں کام کرنے والا بینکر روز رات کو 10 سے 11 بجے گھر پہنچتا ہے اور اکثر اوقات رات گئے اور چھٹی والے دن بھی اے ٹی ایم کی خرابی کے باعث یا اس میں کیش ڈالنے کیلئے اسے بینک جانا پڑتا ہے۔
ایک بینکر سارا دن کسٹمرز کو ڈیل کرتا ہے، ان کی فائننشل ٹرانزکشنز کرتا ہے، ان کے دیگر فائننشل مسائل حل کرتا ہے اور ذرا سی غلطی اس کا سکون برباد کر دیتی ہے۔ بینک کا کیشئر روز کروڑوں روپے لوگوں سے وصول کرتا اور ان کو دیتا ہے اور اگر اس بیچ ایک چھوٹی سے بھی غلطی سرزد ہو جائے تو کیشئر کو وہ پیسے اپنی جیب سے پورے کرنے پڑتے ہیں۔
بینکنگ نہ صرف سٹریس سے بھری نوکری ہے بلکہ اس سے بینکر کی سماجی زندگی بھی تباہ ہو جاتی ہے، یہی وجہ ہے کہ ہر دوسرا بینکر بلڈ پریشر، شوگر، دل اور بہت سے دیگر امراض میں مبتلا ہے۔ اور ایسے میں بینکر کی واحد خوشی ہفتہ کی چھٹی تھی جو ان ظالم حکمرانوں نے چھین لی، اگر ہم ایک محتاط اندازہ لگائیں تو ایک بینکر روز 8 گھنٹے کام کرنے کےکی بجائے 12 گھنٹے کام کرتا ہے اور وہ بھی بنا کسی اوور ٹائم کی اجرت لئے، یوں ایک بینکر 5 دنوں میں تقریباً 60 گھنٹے کام کرتا ہے جبکہ دیگر دفاتر میں کام کرنے والے ملازمین 6 دنوں میں صرف 48 گھنٹے ہی کام کرتے ہیں۔ اگر بینکرز سے ایک ہفتے میں 6 دن کام کروائیں تو 72 گھنٹے کی ڈیوٹی بنتی ہے جو کہ لیبر لا کے خلاف ہے۔
پس مطالبہ صرف اتنا ہے کہ ہفتہ کی چھٹی بحال کی جائے نیز بینکنگ ٹائم کو 3 بجے تک محدود کر دیا جائے تاکہ اگلے 2 گھنٹوں میں ہر بینکر اپنا کام سمیٹ کر گھر جا سکے اور ذہنی دباؤ اور بیماریوں سے بچ سکے۔

تحریر
محمد رواحہ سلیم

اپنا تبصرہ بھیجیں