چولستان میں مویشیوں کی ہلاکت بیوروکریسی کی غفلت کا نتیجہ ہے”
محکمہ موسمیات کی طرف سے درجہ حرارت بڑھنے اور موسم خشک رہنے کے الرٹ کے اجراء کے باوجود ڈویژن بہاولپور کی انتظامیہ اور چولستان ڈویلپمنٹ اتھارٹی سوئی رہی,بروقت اقدامات نہ اٹھائے جانے کی وجہ سے ہر ایک دو سال بعد چولستان میں قیمتی مویشی کی ہلاکت معلوم بن گئی ہے,
خشک سالی کے دنوں میں چولستان میں پانی کی فراہمی کے لیے کروڑوں روپے سے بچھائی جانے والی لائنوں کو خراب ظاہر کر دیا جاتا کہانی یہ ہے,
رحیم یار خان سمیت ڈویژن بہاولپور کے تینوں اضلاع سے ملحقہ 66 لاکھ ایکڑ پر محیط خطہ چولستان کی 2لاکھ سے زائد آبادی بدستور بنیادی سہولیات سے محروم ہے,خطہ چولستان کے باسیوں کا ذریعہ معاش مویشی پالنا ہے،چولستان میں زندگی کا انحصار بارشوں پر ہے،ابر ٹوٹ کر برسے تو چولستان میں بارش کے پانی کے ذخیرہ کے لیے کھودے گئے ٹوبھہ جات پانی سے بھر جاتے،چولستان کے قدرتی نخلستانوں چراگاہوں میں ذندگی کی بہاریں لوٹ آتی ہیں لیکن اگر موسم چپ سادھ لے بارشیں نہ ہوں تو چولستان میں خشک سالی کا راج بڑھنے لگتا ہے،
خشک سالی اور اوپر سے درجہ حرارت میں آضافہ چولستانیوں اور ان کے مویشیوں کے لیے خطرناک ثابت ہوتا ہے،بہت سے مویشی مر جاتے ہیں،
چولستانی گھر چھوڑ کر نکل مکانی پر مجبور ہو جاتے ہیں,
ہر سال مئی کا مہینہ چولستانیوں کے لیے قدرے مشکل ہوتا ہے،چولستان میں جنگلی جھاڑیوں کے بے دریغ کٹاؤم موسمی تغیر میں تبدیلیاں رونما ہونے سے خطہ چولستان میں موسم کی تلخی ہر سال بڑھ رہی ہے,
ہر ایک دو سال بعد چولستان میں سینکڑوں مویشی ہلاک ہو جاتے ہیں لیکن مجال ہے کہ ڈویزن بہاولپور کی انتظامیہ،چولستان ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے ذمہ داران موسم کے بدلتے تیوروں کو سمجھتے ہوئے چولستانیوں اور ان کے مویشیوں کو خشک سالی سے بچانے کے لیے بروقت بچانے کے لیے کوئی اقدامات اٹھائیں,
محکمہ موسمیات نے چند یوم قبل درجہ حرارت بڑھنے اور مئی میں بارشیں کم ہونے بارے پیش گوئی کی لیکن کوئی عملی اقدامات دیکھنے کو نہ ملے,
اس کے برعکس خلیجی ممالک کے صحرا کم زرخیز ہیں لیکن وہاں شدید خشک سالی میں بھی زندگی رواں دواں ہے جس کی بڑی وجہ پلانگ اور سخت موسمی حالات سے نمٹنے کی تیاری ہے
ہمارے چولستان میں مون سون سیزن کے دوران بارشیں ہوتی ہیں لیکن بارشوں کے پانی کو تادیر محفوظ بنانے کیلئے قدیمی طریقہ کھلے آسمان کے نیچے گڑھوں جنہیں ٹوبھہ جات کہا جاتا ہے میں سٹور کرنےکے سوا کوئی طریقہ نہیں، چولستان میں زیر زمین پانی موجود ہے لیکن کڑوا ہے جیسے کہ پاکستان کے بیشتر علاقوں میں زیر زمین پانی کڑوا ہے لیکن فرق یہ ہے اس دور جدید میں بھی اس کڑوے پانی کو میٹھا کرنے کے لیے واٹر فلٹریشن پلانٹ کی تنصیب کے حوالے سے حکومتی اور پرائیوٹ پبلک پارٹنرشپ کی سطح پر کوئی اقدامات نہیں,
انڈیا کے حصے میں آنے والے چولستان جسے راجھستان بھی کہتے ہیں میں نہری نظام موجود ہے,
لیکن ہمارے چولستان میں میدانی علاقوں سے ملحقہ آباد علاقوں میں نہری نظام موجود ہے لیکن خشک سالی کے دنوں میں ان نہروں میں پانی کی فراہمی کے بجائے بند کر دی جاتی ہیں,
چولستان میں پائپ لائنوں کے زریعے پانی کی فراہمی کے لیے بہاولپور کی حدود میں پائپ لائنز کے منصوبے کروڑوں روپے مالیت سے مکمل ہوئے لیکن فنڈز کی خرد برد اور کرپشن کی وجہ سے یہ پائپ لائنیں بھی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں,
چولستان جیپ ریلی کے دنوں میں یہی آفیسران ادھر بھنگڑے ڈال رہے ہوتے ہیں،اس وقت پانی والی پائپ لائن بھی چل جاتی ہیں لیکن گرمیوں میں جب یہ آفت آتا ہے,وزیر اعلیٰ نوٹس لیتا ہے
آفسیر بھاگتا ہے,
سادہ لوح چولستانیوں کو تسلیاں دیتے ہیں,
جو ایمرجنسی فنڈ آتا ہے,
اس پر ہاتھ صاف کرتے ہیں,
جون جولائی میں بارشیں ہو جاتی
سب اوکے کی رپورٹ دے کر
ڈکار مارتے ہیں,
تحریر
فاروق سندھو
Load/Hide Comments