صدیقی کی بانسری” ڈی جی ریڈیو پاکستان کے تبادلہ پر ملازمین سراپا احتجاج، اصل کہانی ہے کیا؟

٭عمران خان کو تو ایک گوگی لے ڈوبی یہاں تو گوگیوں اور گوگوں کا جمعہ بازار لگا ہے
٭ایک اعلی سرکاری افسر کو بلیک میل کرنے اور سابق وفاقی وزیر فواد چوہدری کے خلاف بیان لینے کی کوشش کیوں کی گئی؟
٭ڈی جی ریڈیو پاکستان کا تبادلہ ملازمین سراپا اجتجاج اصل کہانی ہے کیا؟
٭قلم قبیلے کے بھانڈ اور لفظی مالش کے موجد کیوں آگ بگولہ ہوئے وہ سارے نظام کو اپنی انگلیوں پر کیسے نچا رہے ہیں
٭ڈان لیکس کے سارے کردار شام ڈھلے کس شیطانی فارم ہاؤس میں سر جوڑتے ہیں کیا منصوبہ ترتیب دیا جا رہا ہے

میرا آج کا کالم صدیقی کی بانسری ”

طاقت کی ایک ہی خرابی ہے کہ وہ بدمست ہاتھی جیسی ہوتی ہے ہر چیز کو اپنے قدموں تلے روند ڈالنا اپنا استحقاق سمجھتی ہے عرفان صدیقی حکمران جماعت کے سینیٹر ہیں وہ اپنے کسی چہیتے کا قواعد کے برعکس تبادلہ کے خواہش مند تھے ڈی جی ریڈیو عاصم کچھی کا انکار ان کو آگ بگولہ کر گیا چونکہ موجودہ حکمران جماعت میں یہ مقام پانے کیلئے انہوں نے کئی پاپڑ بیلے تھے اس لئیے وہ اپنا دکھ لے کر وفاقی دارالحکومت کے نواح میں واقع اس فارم ہاؤس میں پہنچے جہاں ماضی کے بدنام زمانہ ڈان لیکس کے سارے کردار اکھٹے ہوتے ہیں شرپسندوں کا یہ ٹولہ ہر روز کسی نئی شرارت کے تانے بانے بنتا ہے ان سب نے سر جوڑے اور اس نیک نام بیوروکریٹ کی دھجیاں اڑانے کا منصوبہ بنایا گیا اگلے ہی روز ریڈیو پاکستان کے درختوں کو اونے پونے بیچنے کا الزام عائد کرتے ہوئے عاصم کچھی کی کردار کشی شروع کر دی گئی اس بے بنیاد الزام کی خبروں کی نمایاں اشاعت کیلئے پرنسپل انفارمیشن آفیسر کو استعمال کیا گیا پرنسپل انفارمیشن آفیسر بھی ڈان لیکس کے ان کرداروں کے مقروض ہیں کیونکہ انہیں یہ پرکشش عہدہ اسی شیطانی فارم ہاؤس کی یاترا سے ملا ہے عاصم کچھی بہت ایماندار اور محنتی افسر ہیں ریڈیو پاکستان کے مخدوش مالی حالات کے باوجود انہوں نے عہدہ سنبھالتے ہی دن رات اس قومی ادارے کو اپنے قدموں پر کھڑا کرنے کیلئے محنت کی وینٹی لیٹر پر منتقل ہو جانے والے اس ادارے کے ملازمین کیلئے وہ ٹھنڈی ہوا کا جھونکا ثابت ہوئے ملازمین ان کے اقدامات سے بہت خوش تھے اپنے محبوب ڈی جی کے خلاف زہریلا پروپیگنڈہ ریڈیو کی سی بی اے یونین سے برداشت نہ ہوا وہ بھی میدان میں اتر آئی اور اس سیاست دان کے الزامات کو مسترد کرتے ہوئے قانونی چارہ جوئی کا اعلان کر دیا یہ ردعمل سب کیلئے غیر متوقع تھا چنانچہ وفاقی وزیر اطلاعات مریم اورنگزیب نے اس ڈی جی کو طلب کر لیا انہیں کہا گیا کہ وہ تحریری طور پر لکھ کر دیں کہ درختوں کی کٹائی اور اونے پونے فروخت کرنے کا حکم سابق وفاقی وزیر فواد چوہدری نے دیا تھا اس ایماندار بیورو کریٹ کے انکار نے غصے کی سلگتی آگ پر پٹرول بم گرا دیا انہیں ڈرانے دھمکانے کی ہر ممکن کوشش کی گئی مگر وہ اپنے موقف پر ڈٹے رہے عرفان صدیقی نے ان سے معافی کا مطالبہ کیا دھمکی دی کہ اگر وہ معافی نہیں مانگیں گے تو معاملہ استحقاق کمیٹی میں لے جاؤنگا ڈی جی ریڈیو نے ایسا کوئی بھی مطالبہ ماننے سے صاف انکار کر دیا نفرت اور بدلے کی آگ میں جھلسے اس ٹولے سے جب اور کچھ نہ بن پایا تو گزشتہ روز ان کا تبادلہ کر دیا گیا جس پر ریڈیو پاکستان کے ملازمین سراپا اجتجاج ہیں
اب آپ سوچ رہے ہونگے کہ یہ عرفان صدیقی کیا بلا ہے جس کے اشاروں پر سارا نظام ناچ رہا ہے یہ قلم قبیلے کا بھانڈ ہے جس نے خوشامد اور جی حضوری کی نئی تاریخ رقم کی ہے یہ لفظوں کی مالش کا موجد بھی ہے میاں نواز شریف جب وزیراعظم تھے تو اس کی لفظی مالش کے دلدادہ تھے اسی لئیے انہوں نے اسے اپنا معاون خصوصی مقرر کر دیا تھا ہماری جمہوریت کا یہ بھی حسن ہے کہ جو شخص کونسلر بننے کے قابل بھی نہ ہو وہ جی حضوری سے ایوان اقتدار تک با آسانی پہنچ جاتا ہے پرکشش عہدہ ملتے ہی اس شخص نے پر پرزے نکالنے شروع کر دئیے خود پیرا شوٹر تھا ان کارکنان کا حق مار کر اقتدار تک پہنچا تھا جنہوں نے پارٹی کیلئے بے پناہ قربانیاں دی تھیں اس لئیے میرٹ کا لفظ تو اس کی لغت میں دور نذدیک کہیں تھا ہی نہیں اب اس نے اپنے بے روزگار ٹبر کو پرکشش عہدوں پر کھپانا شروع کیا اپنے بھائی کو علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی کا وائس چانسلر تعنیات کرا دیا یہ سارے جی حضورئیے جو میاں نواز شریف کے دیالو پن کی چھتری تلے جمع ہوئے تھے انہوں نے پارٹی پر اپنے پنجے گاڑھنے کیلئے منتخب وزیر اعظم کو قومی سلامتی کے اداروں سے لڑا دیا شہباز شریف اور چند دوسرے پارٹی کے حقیقی خیر خواہوں نے میاں نواز شریف کو ان کے حصار سے نکالنے کی بہت کوشش کی مگر یہ مداری جیت گئے اور مخلص کارکنان کے حصہ میاں جی کی ناراضگی آئی اگرچہ بعد میں میاں نواز شریف اور ان کے خاندان نے اس بے مقصد محاذ آرائی کی بھاری قیمت ادا کی مگر یہ جعلی دانشور
اپنے ایجنڈے پر ڈٹے رہے

کہانی یہاں ختم ہو جاتی تو اسے شاید ایک موقعہ پرست کا کھیل سمجھ کر نظرانداز کیا جا سکتا تھا مگر یہ منصوبہ اتنا سادہ نہیں ہے اس شخص نے اپنے ایک رشتہ دار جج کو بھی اس کھیل کا حصہ دار بنا لیا اور یوں ایک طرف تو جی حضوری سے میاں نواز شریف کو قابو کیا گیا دوسری طرف پارٹی کو اپنی انگلیوں پر نچانے کیلئے ایک ایسی دلدل تخلیق کی گئی جس سے مسلم لیگ نون شاید ہی کبھی باہر نکل سکے موجودہ اتحادی حکومت کے بنتے ہی یہ مافیا پھر سرگرم ہوگیا اور اب یہ اگلے مقاصد کے حصول کیلئے دوڑ رہے ہیں عرفان صدیقی نے ریڈیو پاکستان کے ڈی جی کے ساتھ جو کھیل کھیلا وہ نشاندہی کر رہا ہے کہ آگے کیا ہونے جا رہا ہے

یہ سارے کردار گلبرگ کے ایک فارم ہاؤس میں شام ڈھلے سر جوڑ کر کیوں بیھٹتے ہیں ایماندار افسران کو نکڑے لگا کر کیا صف بندی کی جا رہی ہے؟ملک اس وقت شدید بحرانوں کا شکار ہے عام آدمی کی زندگی مشکل نہیں بدتر ہو گئی ہے لوگ نئی حکومت سے یہ توقع لگائے بیھٹے تھے کہ وہ مہنگائی،لاقانونیت اور اقربا پروری کی شعلوں میں گھرے اس دیس کو بچائے گی لیکن یہاں تو عرفان صدیقی جیسے نیرو جمع ہیں جو اپنی اپنی بانسری لئیے اپنی انا کی دھن بجا رہے ہیں عمران خان کو تو ایک گوگی لے ڈوبی یہاں تو گوگی اور گوگیوں کا جمعہ بازار لگا ہے,


صدیقی کی بانسری

جاویدملک/شب و روز

اپنا تبصرہ بھیجیں