” ضلع کریمنل عناصر کے شکنجہ میں”

رحیم یارخان ضلع کریمنل عناصر کے شکنجہ میں”


ضلع رحیم یارخان کاروباری حوالے سے خاص اہمیت کا حامل ہے جہاں شوگر ملز، ٹیکسٹال ملز، گھی مل، کاٹن فیکٹریز، سیڈ کارپوریشنز، فلور ملز اور دیگر کاروباری سرگرمیاں دیگر اضلاع سے زیادہ ہیں وہیں صادق آباد ٹرانسپورٹ کے سپیئر پارٹس کے حوالے سے حب مانا جاتا ہے، تین صوبوں سندھ، بلوچستان اور پنجاب کے سنگم پر واقع ضلع رحیم یارخان جو کہ صوبہ پنجاب کا آخری ضلع بھی ہے کاشتکاری کے لحاظ سے بھی انتہائی اہمیت کا حامل ہے، ضلع رحیم یارخان میں کپاس، گندم، گنا، آم سمیت دیگر زرعی اجناس کی کاشت نمایاں ہے، 60 لاکھ کے قریب آبادی پر محیط ضلع رحیم یارخان کی چار تحصیلیں رحیم یارخان ، خانپور، لیاقت پور اور صادق آباد شامل ہیں، ضلع رحیم یارخان میں امن وامان کے قیام کے لیے ضلعی پولیس کی 4 ہزار کے قریب نفری مختلف ڈیوٹیاں سراانجام دے رہی ہیں جو بڑھتی آبادی، کاروباری صورتحال کے باعث امن وامان کے قیام کیلیے ناکافی ہے، رحیم یارخان ضلع دریائی اور صحرائی پٹی پر واقع ہے اور دریائی علاقہ ہمیشہ جرائم پیشہ عناصر کی کمین گاہ رہا ہے، اغواء برائے تاوان، ڈکیتی، چوری، قتل، اقدام قتل کی وارداتوں میں حالیہ 2 سال کے دوران اضافہ ہوا ہے جبکہ رحیم یارخان میں گذشتہ سال کے دوران خودکشیوں کے واقعات میں بھی اضافہ دیکھنے کو ملا ہے یہی وجہ ہے کہ ضلع کے عوام پولیس کپتان اور نفری کی کاوشوں کے باوجود امن وامان برقرار نہ رکھ پانے کی وجہ سے نالاں ہے۔
ضلع رحیم یارخان کے 2 سابق ڈی پی اوز اسد سرفراز خان اور محمد علی ضیاء کو امن وامان کی بگڑتی صورتحال کی وجہ سے عوامی حلقوں میں خاص پذیرائی نہ مل سکی بلکہ ہر طبقے نے سابق پولیس کپتانوں کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا۔

پولیس کپتان کی بہتر کارکردگی تب ہی ممکن ہے جب ٹیم کپتان کا ساتھ دے، بدقسمتی سے ضلع رحیم یارخان میں یہ بات ہر ذبان زد عام ہے کہ سابقہ ڈی پی اوز پسند نا پسند پالیسی یا لالچ کی وجہ سے ایس ایچ اوز، چوکی انچارجز، تفتیشی افسران کی تعیناتیاں عمل میں لاتے رہے اور ٹیم ورک میں باہمی رضامندی نہ ہونے سے ضلعی پولیس کچہ اور پکہ دونوں جگہ امن وامان برقرار رکھنے میں ناکام رہی ہے، گذشتہ 6 ماہ کے دوران ضلع رحیم یارخان میں ڈکیتی و چوری بڑے بڑے گینگز پکڑنے کے باوجود نہ تھم سکی، اسی طرح اغواء کے واقعات میں بھی اضافہ ہوا ہے حالیہ دنوں میں بھی ایک سرکاری ٹی وی کے رپورٹر سمیت تین کے قریب افراد اغواء ہو چکے ہیں جو تاحال بازیاب نہیں ہوئے، بڑھتی وارداتوں کی وجہ سیاسی، سماجی، مذہبی، کاروباری، عوامی تمام حلقے شدید پریشانی میں مبتلا پائے جاتے ہیں۔
نئے پولیس کپتان اختر فاروق کی تعیناتی کے نوٹیفیکیشن کے ساتھ ہی سوشل میڈیا پر پوسٹوں کی بھرمار ہو گئی اور عوام نے سوشل میڈیا پوسٹوں کو اپنے رنگ میں ڈھال کر کرائم فائٹر، ایماندار، دبنگ افسر، دلیر افسر جیسے القابات سے نوازا جبکہ ضلع رحیم یارخان میں اختر فاروق کی ماضی میں کوئی تعیناتی نہیں رہی لیکن ان کی تعیناتی کا خیر مقدم عوام نے اس لیے کیاکہ شاید پولیس کے نئے کپتان اختر فاروق ضلع میں امن وامان کے قیام کے لیے مسیحا بن کے آئے ہوں جو آتے ہی ضلع میں کرائم کنٹرول کرنے کے لیے مؤثر پالیسی، بہترین پولیس ٹیم کا انتخاب، کرپشن مکائو مہم، کچہ کو ڈاکوئوں سے پاک کرنے سمیت دیگر ہنگامی اقدامات اٹھائے گے اور ڈی پی او سے احتساب کا آغاز کرتے ہوئے بلاتفریق تھانوں چوکیوں تک عوام کو انصاف کی فراہمی میں رکاوٹ بننے والے افسران و اہلکاروں کیخلاف عملی اقدامات اٹھا کر جہاں معاشرہ جرائم پیشہ عناصر سے پاک کریں گے وہیں محکمہ کو بھی عوام دشمن اور ڈیپارٹمنٹ دشمن افسران و ملازمین سے نجات دلائیں گے، ضلع رحیم یارخان کے عوام کی امیدیں اختر فاروق سے وابستہ ہو گئی ہیں اور عوام توقع کررہے ہیں کہ پولیس کپتان اگر ان کی امید پر تھوڑا سا بھی اتر آئے تو حقیقی معنوں میں ضلع امن کا گہوارہ بن جائے گا۔
ضلعی پولیس کپتان اختر فاروق کی جن اضلاع میں پوسٹنگ رہی وہاں سے معلومات کے مطابق وہ عوام دوست اور انصاف پسند شخصیت کے مالک ہیں جو اپنی تمام تر توجہ قانون کی بالادستی اور جرائم پیشہ عناصر کیخلاف بھرپور کارروائیوں پر مرکوز رکھتے ہیں ہم دعا گو ہیں کہ اختر فاروق کی تعیناتی ضلع میں امن وامان کی بحالی ثابت ہو اور اور وہ درپیش چیلنجز سے نمٹ کر اس زرخیز مٹی کے باسیوں کا امن کا خواب پورا کر دکھائیں۔

تحریر: محمد ثاقب
groupryk@gmail.com

اپنا تبصرہ بھیجیں