……….یوم آزادی ڈائمنڈ جوبلی تقریبات ; قائد اعظم محمد علی جناح کا پیغام …۔۔۔۔۔۔
کالم نگار،اصغر علی …………………
پاکستان کو آزاد ہوئے 75 برس مکمل ہو چکے ہیں, 14اگست پر یوم آزادی ڈائمنڈ جوبلی تقریبات منانے کی تیاریاں عروج پر ہیں,گلگت بلتستان , آزادجموں وکشمیر سمیت ملک بھر میں یوم آزادی ڈائمنڈ جوبلی تقریبات منانے کی تیاریوں کی مناسبت سے عمارتوں کوقومی پرچموں ، جھنڈیوں ، برقی قمقموں اورروشنیوں سے سجایاجارہا ہے 75 ویں یوم آزادی تقریبات کا آغاز وفاقی دارالحکومت میں 31 اور صوبائی دارالحکومتوں میں اکیس اکیس توپوں کی سلامی سے ہوگا۔ سب سے بڑی تقریب اسلام آباد میں ایوانِ صدر میں منعقد ہوگی۔ قائد اعظم محمد علی جناح اور شاعر مشرق علامہ محمد اقبال کے مزارات پر گارڈز کی تبدیلی کی روایتی تقریبات بھی منعقد ہوں گی۔ پاکستان رمضان کی 27ویں شب کو آزاد ہوا جس دن پاکستان آزاد ہوا اس دن جمعتہ الوداع کا مبارک دن تھا ,اگر ہم اپنے ماضی، حال اور مستقبل کا جائزہ لیں تو ہماری سمت کا پتہ چلتا ہے، ماضی میں ہم پر تین جنگیں مسلط کی گئیں اور خطے میں اسلحہ کی دوڑ جاری ہے، پاکستان کو اسلحہ کی اس دوڑ میں پھنسایا گیا ماضی میں جب افغانستان کے حالات خراب ہوئے تو اس کا اثر پاکستان پربھی پڑا اور پاکستان نے دہشت گردی کا کامیابی سے مقابلہ کیا، اگر آج مغربی اور مشرق وسطیٰ کے ممالک میں دیکھیں تو بڑی تباہی ہوئی لیکن پاکستان نے ایک لاکھ جانوں کی قربانی اور قومی معیشت کو پہنچنے والے 150 ارب ڈالر کے نقصان کو برداشت کرکے دہشت گردی کا مقابلہ کیا اور اس پر قابو پایا، ہماری مسلح افواج کی قربانیوں اور جدوجہد کے نتیجے میں ہم نے یہ کامیابیاں حاصل کی ہیں۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ پاکستان زرعی سے صنعتی اور انفارمیشن ٹیکنالوجی کا ملک بنا پاکستان اپنی ذہانت کی وجہ سے دنیا کے ممالک میں اہم مقام رکھتا ہے۔ پاکستان نے اپنی ذہانت اور محنت سے بڑے بڑے کارہائے نمایاں سرانجام دیئے , 1974 میں جب بھارت نے ایٹم بم کا دھماکا کیا تو صرف 7 سال کے قلیل عرصے میں پاکستان نے اپنی محنت اور ذہانت سے یہ منزل حاصل کرلی جو بہت بڑی کامیابی ہےپاکستان نے آزمائشوں کا کامیابی سے مقابلہ کیا اور ان پر سبقت حاصل کرکے قوم نے ثابت کیا کہ ہم مشکل اور آزمائش پر پورا اتر سکتے ہیں چاہے وہ 2005 کا زلزلہ، 2010 اور 2022 کا سیلاب, کووڈ-19 کی وبا میں مل کر مشکلات کا مقابلہ کیا۔75 سالہ سفر کے دوران پاکستان نے بہت سے چیلنجز کا سامنا کیا، مگر ہم اپنی محنت، قربانیوں اور قوم کے تعاون سے ان چیلنجز میں سرخرو ہوئے مقبوضہ کشمیرمسئلے کی وجہ سے ہم پر تین جنگیں مسلط کی گئیں، اب بھارت نے آرٹیکل 35 ‘اے’ کو ختم کرکے ہمارے کشمیری بھائیوں کو مزید مشکل میں ڈالا اور نئی ڈومیسائل پالیسی سے آبادی کا تناسب بدلنے کی کوششیں کر رہا ہے، لیکن پاکستان اور کشمیری برادری اس میں رکاوٹ ہیں۔ مقبوضہ کشمیر میں ہی نہیں بلکہ پورے بھارت میں اقلیتوں پر مظالم جاری ہیں بھارت اقلیتوں کی نسل کشی کر رہا ہے اور اب وقت آگیا ہے کہ عالمی برادری بھارت کی قیادت کے خلاف ہندوتوا اور آر ایس ایس کی سوچ کے تسلط پر آواز بلند کرے۔وطن عزیز کے قیام سے لے کر آج تک ایک طویل عرصہ گزرا ہے اور اس تمام مدت میں نامساعد حالات اور محدود وسائل کے باوجود اﷲتعالیٰ کے فضل و کرم سے یہ ملک ترقی کی راہ پر گامزن ہے۔ پاکستان بننا آسان نہ تھا۔ اس کے حصول کے لئے برصغیر کے مسلمانوں نے تاریخی جدوجہد کی۔ بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح کی بے لوث قیادت میں غیرمنقسم ہندوستان کے مسلمانوں نے اپنے لئے علیحدہ وطن کی جو تحریک شروع کی تھی اس کے لئے انہیں بے انتہا مصائب جھیلنا پڑے۔
بلوائیوں کے حملے‘ گھر بار کا اجڑنااور جلنا‘ یہاں تک کہ اپنے پیاروں کو اپنے سامنے شہید ہوتے دیکھنا‘ ان سب مشکلات کے باوجود مسلمانوں کے حوصلے پست نہ ہوئے اور لاکھوں جانوں کا نذرانہ دینے کے بعد بالآخر 14اگست 1947کو مملکت خداداد پاکستان کی شکل میں انہوں نے اپنے خوابوں کی تعبیر پالی۔یہ وہ واحد ریاست ہے جو اسلام کے نام پر ریاست مدینہ کے بعد معرض وجود میں آئی۔ جس کا مطلب ہی لا الہ الا اللہ ہے۔ قائد اعظم نے واشگاف الفاظ میں کہا:ہمارے پیش نظر ایک ایسی آزاد اور خود مختار ریاست کا قیام ہے جس میں مسلمان اپنے دین کے اصولوں کے مطابق زندگی گزار سکیں پھر خطابات تقاریر میں واضح پیغام دیا کہ ملک کا آئین و دستور قرآن و سنت کے تابع ہوگا جب قائد اعظم سے دستور و آئین کے متعلقہ استفسار کیا گیا تو سنہری حروف سے لکھے جانے والے الفاظ میں جواب دیا: ہمارا دستور وہی ہے جو قرآن کی شکل میں اللہ تعالیٰ نے چودہ سو سال قبل ہمیں عطا فرمایا‘ یہ ایک زمین کا ٹکڑا نہیں بلکہ اسلامی تجربہ گاہ ہے ’جہاں ہم اسلام کو نظام زندگی کے طور پر اپنا سکیں گے اور اپنی زندگیاں قرآن و سنت کے مطابق گزاریں گے۔مسلمانوں کے لیے ایک علیحدہ ملک پاکستان جو رمضان المبارک کی 27 ویں کو معرض وجود میں آیا۔ قائداعظم نے 13 اگست 1947 ء کو کراچی میں لارڈ ماؤنٹ بیٹن کے اعزاز میں ضیافت کے موقع پر تقریر میں فرمایا ” ہندوستان کے لوگوں کو مکمل اقتدار منتقل ہونے والا ہے اور دو آزاد اور خودمختار مملکتیں پاکستان اور ہندوستان معرض وجود میں آ جائیں گی“قائداعظم نے اپنے 13 اگست 1947 ء کے خطاب میں فرمایا ”اب ہمارے سامنے ایک نئے باب کا آغاز ہو رہا ہے۔ ہماری کوشش یہ ہوگی ہم برطانیہ اور ہمسایہ مملکت ہندوستان اور دیگر برادر اقوام کے ساتھ بھی خیر سگالی اور دوستی کے تعلقات استوار کریں اور انہیں برقرار رکھیں تاکہ ہم سب مل کر امن، امن عالم اور دنیا کی خوشحالی کے لیے اپنا عظیم ترین کردار ادا کرسکیں“ قائداعظم نے 14 اگست 1947 ء کو مجلس دستور ساز پاکستان کے افتتاح کے موقع پر اپنے خطاب میں فرمایا ”ہماری پیہم کوشش یہ ہوگی کہ ہم پاکستان میں آباد تمام گروہوں کی فلاح و بہبود کے لیے کام کریں اور مجھے توقع ہے کہ ہر شخص خدمت خلق کے تصور سے سرشار ہوگا۔قائداعظم نے اپنے اسی خطاب میں فرمایا“ عظیم شہنشاہ اکبر نے تمام غیر مسلموں کے ساتھ رواداری اور حسن سلوک کا مظاہرہ کیا۔ یہ کوئی نئی بات نہ تھی اس کی ابتداء آج سے تیرہ سو برس پہلے بھی ہمارے پیغمبرﷺ نے کردی تھی۔ آپﷺ نے زبان سے ہی نہیں بلکہ عمل سے یہود و نصاریٰ پر فتح حاصل کرنے کے بعد نہایت اچھا سلوک کیا ان کے ساتھ رواداری برتی اور ان کے عقائد کا احترام کیا ”۔ قائداعظم نے خود حضور اکرمﷺ کے اسوہ حسنہ (امانت ’دیانت‘ صداقت اور شجاعت) پر عمل کر دکھایا۔ پاکستان براڈ کاسٹنگ سروس کی افتتاحی تقریب پر قوم کے نام ایک پیغام میں فرمایا ”نئی مملکت کی تخلیق کی وجہ سے پاکستان کے شہریوں پر زبردست ذمے داری آن پڑی ہے انہیں یہ موقع ملا ہے کہ وہ دنیا کو دکھا سکیں کہ ایک قوم جو بہت سے عناصر پر مشتمل ہے کس طرح امن و آشتی کے ساتھ رہ سکتی ہے اور ذات ’پات اور عقیدے کی تمیز کے بغیر سارے شہریوں کی بہتری کے لیے کام کر سکتی ہے“ ۔ قائداعظم نے مزید فرمایا ”امن اندرون ملک اور امن بیرون ملک ہمارا مقصد ہونا چاہیے۔ہم پر امن رہنا چاہتے ہیں اور اپنے نزدیکی ہمسایوں اور ساری دنیا سے مخلصانہ اور دوستانہ تعلقات رکھنے چاہتے ہیں۔ ہم کسی کے خلاف جارحانہ عزائم نہیں کر رکھتے۔ ہم اقوام متحدہ کے منشور کے حامی ہیں اور امن عالم اور اس کی خوشحالی کے لئے اپنا پورا کردار ادا کریں گے“ ہم آزادی کی روح سے انحراف کر کے مسلسل بھٹک رہے ہیں۔ ہمارا چالاک اور مکار ہمسایہ بھی ہمارے لیے مصائب پیدا کر رہا ہے۔ قائداعظم نے اپنے اسی پیغام میں فرمایا ”اے میرے ہم وطنو آخر میں آپ سے کہنا چاہتا ہوں کہ پاکستان بیش بہا وسائل کی سرزمین ہے لیکن اس کو ایک مسلم قوم کے شایان شان ملک بنانے کے لئے ہمیں اپنی تمام توانائیوں کی ضرورت ہوگی پاکستان کا قیام دو قومی نظریے کا مرہون منت تھا۔ کسی زمانے میں ہندو مسلم اتحاد کا سفیر رہے محمد علی جناح نے زندگی کی آخری دہائی یہ ثابت کرنے میں گزار دی کہ ہندو اور مسلمان دو الگ قوموں کے باشندے ہیں جو ایک ریاستی بندوبست میں جڑ کر نہیں رہ سکتے۔ ہندوستان کے جمہور مسلمانوں نے جناح کو قائد اعظم کا درجہ دیا، آنکھیں بند کر کے ان کی کہے کی صداقت پر یقین کیا، اور سر جھکا کر ان کے فیصلوں پر عملدرآمد کیا۔ تحریک کی توانا لہر نے جلد ہی پاکستان حاصل کر لیا۔ تحریک پاکستان کے تمام عرصہ کے دوران قائد اعظم ان تصورات کا پرچار کرتے رہے کہ ”مسلمانوں کی قومیت کی بنیاد وطن اور نسل نہیں بلکہ کلمہ توحید ہے ؛ ہندوستان کا جب پہلا فرد مسلمان ہوا تھا تو وہ ایک الگ قوم کا فرد بن گیا تھا؛ اور پاکستان کے مطالبے کا جذبہ محرکہ نہ ہندوؤں کی تنگ نظری ہے، نہ انگریزوں کی چال، بلکہ یہ اسلام کا بنیادی مطالبہ ہے“ ۔ 1940 کے بعد سے جناح کا تمام وقت اور قوت اس مقصد کے لیے وقف تھے کہ وہ برصغیر میں مسلمانوں کی آزاد قومی ریاست کے قیام کو ناگزیر ثابت کر سکیں۔ انہوں نے دو قومی نظریہ کی وضاحت ایسی تفصیل اور صراحت کے ساتھ کی کہ زیادہ تر مسلمان اور حتی کہ بہت سے ہندو بھی اس کو سچ سمجھنے لگے۔
لیکن آزاد پاکستان کی دستور ساز اسمبلی کی صدارت کرتے ہوئے اپنے پہلے خطاب کے دوران قائد اعظم کا موقف ان کے اس بیانیے سے یکسر مختلف نظر آیا جسے آپ گزشتہ سات برسوں سے متواتر دہرا رہے تھے۔ 11 اگست کی تقریر جناح کے الگ مسلم قومیت کے تصور سے بظاہر مطابقت نہیں رکھتی تھی۔ ”آپ کا تعلق کسی بھی مذہب یا ذات یا عقیدے سے ہو سکتا ہے، مگر کاروبار ریاست کو اس سے کوئی سروکار نہیں۔ آپ دیکھیں گے کہ وقت گزرنے کے ساتھ ہندو، ہندو نہیں رہے گا اور مسلمان، مسلمان نہیں رہے گا؛ مذہبی لحاظ سے نہیں کیونکہ یہ فرد کے ذاتی اعتقاد کا معاملہ ہے، بلکہ سیاسی معنوں میں ایک ریاست کے شہری کے طور پر۔ ہم ایک ہی ریاست کے یکساں حیثیت رکھنے والے شہری ہیں ”۔ قائد اعظم کے اقوال کے حوالے سے مسلم اراکین کے ریفرنس قائد کے ان ارشادات تک محدود رہے جن کا اظہار وہ تحریک پاکستان کے دوران تواتر سے کرتے رہے تھے اور جن کا لب لباب یہ تھا کہ مسلمان ہندوؤں سے الگ قوم ہیں اور وہ اپنی الگ ریاست اس لیے حاصل کرنا چاہتے ہیں تاکہ وہ اپنی زندگیاں اسلام کے مطابق گزار سکیں ؛ اور اسلام کے مطابق سیاست کو مذہب سے جدا کیا ہی نہیں جا سکتا۔ اسی موقف کا اعادہ وزیراعظم لیاقت علی خان نے قرارداد پاکستان کی تحریک اسمبلی میں پیش کرتے ہوئے اپنی افتتاحی تقریر میں کچھ اس طرح کیا: ”قائد اعظم اور مسلم لیگ کے دیگر رہنماؤں نے واضح الفاظ میں بارہا کہا ہے کہ مسلمان پاکستان کا مطالبہ اس حقیقت کی بنیاد پر کرتے ہیں کہ مسلمانوں کا زندگی گزارنے کا اپنا طریقہ اور ضابطۂ کار ہے۔ انہوں نے اس حقیقت کو بھی بارہا دہرایا ہے کہ اسلام محض خدا اور بندے کا ایسا انفرادی تعلق نہیں ہے جسے ریاست کے معاملات سے کچھ لینا دینا نہیں ہو“ ۔ اس موقف کی تائید میں سردار عبدالرب نشتر کا کہنا تھا کہ ”ہم مسلمانوں کے سب سے عظیم رہنما قائد اعظم ہزار ہا پلیٹ فارم سے اس بات کا اعلان کر چکے ہیں کہ زندگی کے بارے میں ہمارا نکتہ نظر ہمارے دوستوں کے نکتہ نظر سے قدرے مختلف ہے۔ ہمارا ماننا ہے کہ ہمارا مذہب نہ صرف خدا سے تعلق میں بلکہ زندگی کے ہر دائرے میں ہماری رہنمائی کرتا ہے“ ۔ قائد بارہا اسی نوعیت کے اسلامی ریاستی تصورات کا اظہار کرتے رہے ہیں اور اس غیر مبہم اور متواتر اظہاریہ کے پیش نظر یہ کہنا درست نہیں ہے کہ مذہب کا سیاست سے کوئی واسطہ نہیں ہے اور یہ کہ اگر قائد اعظم حیات ہوتے تو قرارداد مقاصد اس ایوان میں پیش نہ کی جا سکتی ”۔ ، قائد اعظم کا 11 اگست کا خطاب ان کی تاریخ شناسی اور وسعت نظر کا آئینہ دار تھا۔ قائد اعظم جانتے تھے کہ عظیم تحاریک کی کامیابی کے استحکام اور دیرپائی کے لیے مفاہمت درکار ہوتی ہے قرارداد پاکستان منظور ہوئی، اور پاکستان کے شہریوں کو مذہب کی بنیاد پر اکثریت اور اقلیت میں تقسیم کر دیا گیا ۔علامہ اقبال کے خواب کی تعبیر قائد اعظم محمد علی جناح اور کارکنان تحریک پاکستان نے پوری کی۔ قائد اعظم محمد علی جناح بانی پاکستان نے اپنی پوری زندگی برصغیر کے مسلمانوں کے لئے وقف کردی۔1928 میں چودہ نکات پیش کئے۔پہلی گول میز کانفرنس میں مسلمانوں کی موثر نمائندگی کی۔1934 سے مسلم لیگ کے پلیٹ فارم سے بھرپور مہم کا آغاز کیا اور مسلم لیگ مسلمانوں کی سب سے بڑی جماعت بن گئ۔18 جولائی 1947 کو آزادی ہند کا قانون نافذ ہوا۔14 اگست کی درمیانی شب ہندوستان تقسیم ہوگیا اور قائد اعظم پاکستان کے پہلے گورنر جنرل منتخب ہوئے ۔ تحریک پاکستان کے کارکنان اور اکابرین کی وجہ سے ہمیں آزادی جیسی نعمت ملی ہمیں اس کی قدر کرنا چاہیے۔لوگوں نے اپنی زندگیاں اور جانیں اس وطن عزیز کے لئے قربان کردی ڈائمنڈ جوبلی کے پُر مسرت موقع پرہم پھر سے اس بات کا اعادہ کردینا چاہتے ہیں کہ ہم باہمی اتفاق واتحاداوریکجہتی جیسی بہت بڑی خوبی کو ختم نہیں ہونے دیں گے یوم آزادی کا پیغام یہ ہے کہ نوجوان قائداعظم کی اساسی تعلیمات اور آزادی کی روح کے مطابق پاکستان کی تشکیل نو کی جدوجہد کا آغاز کریں ….