توشہ خانہ کیس کا فیصلہ سناتے ہوئے الیکشن کمیشن نے پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) کے چیئرمین اور سابق وزیرِ اعظم عمران خان کو نااہل قرار دے دیا۔
چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجہ کی سربراہی میں 5 رکنی بینچ نے توشہ خانہ کیس کا متفقہ فیصلہ سنایا۔
الیکشن کمیشن نے فیصلے میں کیا کہا؟
الیکشن کمیشن نے اپنے متفقہ فیصلے میں کہا ہے کہ ہماری رائے ہے کہ عمران خان نااہل ہیں۔الیکشن کمیشن کے فیصلے میں کہا گیا ہے کہ عمران خان اب رکنِ قومی اسمبلی نہیں رہے، ان کی نشست خالی قرار دی جاتی ہے۔الیکشن کمیشن کے فیصلے کے مطابق عمران خان کو آئین کے آرٹیکل 63 پی کے تحت نااہل قرار دیا گیا ہے۔
الیکشن کمیشن نے عمران خان کے خلاف قانونی کارروائی کا فیصلہ بھی کر لیا۔
توشہ خانہ کیس کے فیصلے کے موقع پر پی ٹی آئی رہنما شاہ محمود قریشی، فواد چوہدری، اسد عمر، فیصل جاوید، شیریں مزاری اور ملیکہ بخاری الیکشن کمیشن پہنچے۔اس موقع پر فواد چوہدری اور اسد عمر کو الیکشن کمیشن کے گیٹ پر روک لیا گیا۔
فواد چوہدری، اسد عمر اور اعجاز چوہدری گیٹ پھلانگ کر الیکشن کمیشن کے اندر داخل ہوئے۔
پی ٹی آئی کے کارکن بھی بڑی تعداد میں الیکشن کمیشن پہنچے تھے تاہم پولیس نے ان پر لاٹھی چارج کر کے انہیں واپس بھیج دیا۔فیصلے کے وقت ڈی آئی جی اسلام آباد خود بھی الیکشن کمیشن میں موجود تھے۔
پی ٹی آئی کا الیکشن کمیشن کا فیصلہ آج ہی چیلنج کرنے کا اعلان
توشہ خانہ ریفرنس کے فیصلے کے موقع پر الیکشن کمیشن کے اطراف ایس ایس پی کی نگرانی میں سخت سیکیورٹی تعینات کی گئی۔الیکشن کمیشن اور اس کے اطراف 1 ایس ایس پی، 5 ایس پیز، 6 ڈی ایس پیز سمیت ساڑھے 11 سو اہلکار تعینات کیے گئے۔ریڈ زون میں آج داخلہ محدود کیا گیا جبکہ الیکشن کمیشن میں غیر متعلقہ افراد کا داخلہ بند تھا۔
واضح رہے کہ اس حوالے سے الیکشن کمیشن نے اسلام آباد انتظامیہ سے فول پروف سیکیورٹی مانگی تھی۔الیکشن کمیشن کا کہنا تھا کہ فیصلے کے وقت پی ٹی آئی کے کارکنان کے جمع ہونے کا خدشہ ہے لہٰذا سیکیورٹی کے لیے رینجرز اور ایف سی اہلکار بھی تعینات کیے جائیں۔
“توشہ خانہ ریفرنس کیا ہے؟
پاکستان مسلم لیگ ن کے رہنما محسن رانجھا اور دیگر ایم این ایز نے چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کے خلاف توشہ خانہ ریفرنس 4 جولائی کو اسپیکر قومی اسمبلی کو جمع کروایا تھا، اسپیکر نے آرٹیکل 63 کے تحت یہ ریفرنس اگست میں الیکشن کمیشن کو ارسال کیا تھا۔ریفرنس میں مؤقف اختیار کیا گیا تھا کہ سابق وزیرِاعظم عمران خان نے دانستہ طور پر توشہ خانے سے وصول شدہ اور خریدے گئے تحائف کو چھپایا اور ان تحائف کو الیکشن کمیشن میں جمع کرائی گئی اثاثوں کی تفصیلات میں بھی ظاہر نہیں کیا تھا۔ریفرنس میں استدعا کی گئی تھی کہ عمران خان نے توشہ خانے سے وصول تحائف کو فروخت کیا اور گوشواروں میں ظاہر نہیں کیا تھا، جس پر انہیں آئین کے آرٹیکل 62 ون ایف کے تحت نااہل کیا جائے۔
“عمران خان کا جواب”
دوسری جانب عمران خان نے توشہ خانہ کیس کے جواب میں مؤقف اپنایا کہ درخواست گزار اور اسپیکر کا ریفرنس بدنیتی پر مبنی اور بے بنیاد ہے، اس کے سیاسی مقاصد ہیں، میں نے توشہ خانے کے تحائف کو اثاثوں میں نہیں چھپایا۔انہوں نے مؤقف اختیار کیا کہ جب میں وزیرِ اعظم تھا تو مجھے اور میری اہلیہ کو 58 تحائف دیے گئے، میں نے توشہ خانے سے تحائف کی خریداری کے لیے مشترکہ طور پر 3 کروڑ 80 لاکھ 76 ہزار روپے ادا کیے، یہ رقم بینک میں جمع کروائی، ان تحائف کی فروخت سے ہونے والی آمدن 5 کروڑ 80 لاکھ روپے کو انکم ٹیکس گوشواروں میں ظاہر کیا گیا تھا۔
“عمران خان کے مؤقف کا جواب”
عمران خان کے مؤقف کے جواب میں کہا گیا کہ 4 تحائف 30 جون 2019ء تک عمران خان کے پاس نہیں تھے، انہیں اس سے پہلے مالی سال کے دوران فروخت کر دیا گیا تھا، اس لیے اثاثوں میں ظاہر نہیں کیا گیا، تاہم ان کی فروخت کی رقم بینک میں وصول کی گئی۔
الیکشن کمیشن میں عمران خان کے وکیل علی ظفر نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ اگر کسی نے اثاثے ظاہر نہیں کیے تو اسپیکر ریفرنس نہیں بھیجتا، الیکشن کمیشن خود کارروائی کر سکتا ہے اور یہ کارروائی بھی 120 دن کے اندر کرنا ہوتی ہے، الیکشن کمیشن کے پاس کسی کو نااہل کرنے کا اختیار نہیں۔محسن رانجھا کے وکیل خالد اسحاق نے مؤقف اپنایا کہ عمران خان نے اثاثے فارم بی میں ظاہر نہیں کیے، وہ کرپٹ پریکٹس کے مرتکب ہوئے ہیں، الیکشن کمیشن عمران خان کو نااہل قرار دے۔الیکشن کمیشن نے توشہ خانہ ریفرنس کا فیصلہ 19 ستمبر کو محفوظ کیا تھا جو آج 21 اکتوبر کو سنایا گیا۔
دوسری طرف الیکشن کمشن کے فیصلے کے خلاف
پی ٹی آئی کی جانب سے ملگ گیر احتجاج شدت اختیار کر گیا”
تمام قومی شاہراہوں پر پاکستان تحریک انصاف کے کارکنوں کی طرف سےدھرنا جاری،