اچانک شوگر ملز میں فنی خرابیوں کا میسج جاری, 25نومبر کو کرشنگ شروع کرنے سے معذرت”

رحیم یار خان ( ) چینی کی ایکسپورٹ کی اجازت ملنے کے حوالے سے شوگر ملز اور حکومت کے درمیان ڈید لاک برقرار ،رحیم یار خان سمیت پنجاب کی شوگر ملوں نے کرشنگ سیزن 2022-23شروع کرنے کے لیے پرمٹ اجراء کے بعد اچانک شوگر ملز میں فنی خرابیوں کا میسج جاری کرکے 25نومبر کو کرشنگ شروع کرنے سے معذرت کرلی،حکومت پنجاب کی طرف سے 25نومبر سے کرشنگ سیزن کے نوٹیفکیشن کے اجراء کے بعد گنے کی کٹائی کرنے والے ہزاروں کاشت کار پریشان ہو کر رہ گئے ,

حکومت چینی کے ملکی ضرورت کے لحاظ سے چینی کے سٹاک کو محفوظ بنانے کے لیے ٹریڈ کارپوریشن آف پاکستان (ٹی سی پی) کے ذریعے خریداری کرے،وافر چینی کی ایکسپورٹ سے کثیر زرمبادلہ حاصل گا شوگر ملز گنے کے کاشتکاروں کو بروقت ادائیگیاں یقینی بنا سکتے ہیں ۔تفصیل کے مطابق حکومت پنجاب کی طرف سے شوگر کرشنگ سیزن 2022-23کے لیے گنے کی امدادی قیمت 300روپے فی من مقرر کئے جانے کے ساتھ ہی شوگر ملز نے کرشنگ 25نومبر سے شروع کرنے کے اعلان کرتے ہوئے کاشتکاروں کو پرمٹ کا اجراء کرنا شروع کر دیا ،15نومبر کے بجائے 25نومبر کو10دن تاخیر سے شوگر شروع کئے جانے کے باوجود تشویش میں مبتلا گنے کے کاشتکاروں نے سکھ کا سانس لیا اور شوگر ملز کو گنے کی سپلائی کے لیے دھڑا دھڑ کٹائی شروع کر دی ،تاہم گزشتہ سے پیوستہ شپ اچانک شوگر ملز نے پلٹہ کھاتے ہوئے شوشل میڈیا پیغامات میں شوگر ملز میں فنی خرابیوں کا بہانہ بناتے ہوئے شوگر کرشنگ سیزن 25نومبر کو شروع کرنے سے معذرت کر لی ،اس صورتحال سے گنے کے کاشت کار ایک بار پھر شدید اذیت میں مبتلا ہو کر رہ گئے ہیں ،گندم کی بروقت کاشت کے لیے کھیت خالی کرنے کے چکروں میں ہزاروں ایکڑ پر گنے کی کٹائی ہو چکی تھی ،زرائع کے مطابق پاکستان شوگر ملز ایسوسی ایشن نے شوگر ملوں کو چینی کی ایکسپورٹ کی حتمی اجازت نہ ملنے تک کرشنگ سیزن شروع نہ کرنے کی ہدایت کر دی ہے ،اس سے پہلے شوگر ایڈوائزری بورڈ کے چیئرمین جو آج کل وفاقی وزیر فوڈ سیکیورٹی اینڈ ریسرچ طارق بشیر چیمہ ہیں اسمبلی کے فلور پر شوگر ملز کی طرف سے وافر چینی کا واویلا کرکے ماضی میں ملک سے چینی سستے دامو ایکسپورٹ اور مہنگے داموں امپورٹ والے معاملے کو جواز بناتے ہوئے یہ کہ چکے ہیں کہ ملکی ضرورت کے سٹاک کو محفوظ کئے بغیر وافر چینی کے ایکسپورٹ کی اجازت نہیں دے سکتے،اب شوگر ملز ایسوسی ایشن وزیراعظم پاکستان اور وزیر خزانہ اسحاق ڈار سے چینی ایکسپورٹ کے معاملے پر مذاکرات کے میز پر بیٹھ رہے ہیں لیکن اس ساری صورتحال اور تاخیر کا خمیازہ کاشت کار بھگت رہے ہیں ،کاشت کار تنظیموں کے مطابق گنے کے نرخ اورشوگر کرشنگ سیزن میں تاخیر کے بعد اب ایک بار پھر معاملات کو الجھایا جارہا ہے , غیر جانبدار ذرائع سے حاصل ہونے والی رپورٹس کے مطابق گنے کی پنجاب اور سندھ میں کاشت کے اضلاع بہاولپور اور سکھر ڈویژن ٹوٹل گنے کی کاشت اور پیداوار کا 62فیصد ہیں ،سندھ اور پنجاب میں گنے کی کاشت کے حامل اضلاع میں حالیہ سیلاب اور بارشوں سے گنے کی فصل کو ذیادہ نقصان نہیں پہنچا ہے البتہ اندرون سندھ کے اضلاع میں کاشت گنے کی فصل کو نقصان کا اندازہ 10سے12فیصد ہےمختلف رپورٹس کے مطابق 2022-23 کے لیے 1.32 ملین ہیکٹر کے رقبے سے گنے کی پیداوار کا تخمینہ 81.64 ملین ٹن لگایا گیا ہے جو مقرر کردہ اہداف کے مقابلے بالترتیب رقبہ اور پیداوار میں 12.44% اور 6.23% اضافہ دکھاتا ہے،ہم پیداواری علاقوں میں حالیہ سیلاب کے اثرات کی وجہ سے سبز چارہ ختم ہوا ،سبز چارے کے متبادل گنے کی کٹائی ہوئی ہے، 2022/23 کی گنے کی چینی کی پیداوار کی پیشن گوئی 7 ملین ٹن تک کم ظاہر کی جا رہی ہے۔ متوقع پیداوار میں معمولی کمی کے باوجود، اب بھی قابل برآمد فاضل چینی کا سٹاک موجود ہے،میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے جنرل سیکرٹری سندھ چیمبر آف ایگریکلچر ذاہد بھرگڑی نے کہا ہے کہ وفاقی وزیر فوڈ سیکیورٹی اینڈ ریسرچ طارق بشیر چیمہ صرف چینی کی ایکسپورٹ پر پریشان کیوں ہیں،ان کے دور میں ہی اشیاء خوردونوش گھی،تیل گندم آٹا پیاز کھاد بجلی ڈیزل و دیگر کی قیمتوں میں ہو شربا آضافہ ہوا ہے جبکہ چینی کی قیمت پچھلے کرشنگ سیزن سے اب تک مستحکم ہے

ملک میں چینی کی پیداوار اور سٹاک ملکی ضرورت سے وافر ہے اس بارے حکومتی رپورٹ موجود ہیں،مزید مختلف وفاقی اور صوبائی اداروں سے چینی کی سٹاک بارے رپورٹ حاصل کی جاسکتی ہے ،شوگر ملز ایسوسی ایشن تحریری طور پر بھی گارنٹی دینے کو تیار ہیں ،انہوں نے کہا کہ چینی کا گھریلوں صارفین کے استعمال کے مقابلے میں کمرشل استعمال 70سے80فیصد ہے،چینی کا ذیادہ خریدار گھریلوں صارف نہیں کمرشل سیکٹر ہے، مشروبات ساز کمپنیاں ،ٹافی،چاکلیٹ،بیکری ایٹم تیار کرنے والے کارخانے چینی کی قیمت کم ہونے کے باوجود مشروبات ،چاکلیٹ ،ٹافیوں ،بیکری ایٹم خصوصا مٹھائیوں کی قیمتوں میں بتدریج آضافہ کر چکے ان کو مصنوعی مہنگائی پیدا کرنے پر کیوں نہیں روکا گیا ،اب گنے کا سیزن سر پر ہے ان کو مسئلہ بنا ہوا ہے ،26کے قریب ادارے جو اشیاء خوردونوش کی قیمتوں کے تعین اور سٹاک پر نظر رکھتے ییں خامخواہ کیوں پالے ہوئے ہیں ،آسان حل یہ ہے کہ حکومت ملکی ضرورت کو مدنظر رکھتے ہوئے سالہا سال سے بیکار بیٹھے ادارے ٹریڈ کارپوریشن آف پاکستان ( ٹی سی پی) کے ذریعے ملکی ضرورت کے لحاظ سے چینی کا سٹاک حاصل کر کے وافر چینی برآمد کروا سکتی ہے،چینی کی عالمی منڈی میں بہتر نرخ سے پاکستان کو زرمبادلہ حاصل ہو گا،وفاقی حکومت ٹی سی پی کے ذریعے ملکی ضرورت کے سٹاک خرید کرے اور وافر چینی کی ایکسپورٹ کی اجازت دے تاکہ شوگر ملز کاشتکاروں کو گنے کی ادائیگیاں کر سکیں گنے کی فصل مکمل تیار ہے،کسان بچاؤ تحریک کے چیئرمین چوہدری محمد یاسین نے کہا کہ چھوٹے بڑے کاشت کار گنے کے فصل جلد از جلد کاٹ کر گندم کی کاشت چاہتے ہیں سندھ میں بھی رقبہ گندم کاشت کے لیے سیلابی پانی کی وجہ سے کم ہے ،بروقت فیصلے نہ لیے گئے تو آٹا گندم بحران پیدا ہو سکتا ہے ،اگر یہی صورتحال برقرار رکھی گئی تو آئندہ سال گنے کی کاشت شدید کم ہو گی جس کی وجہ سے چینی بھی کثیر زرمبادلہ خرچ کرکے امپورٹ کرنی پڑے گی ، انہوں نے کہا کہ پاکستان کی حکومتیں ملک میں زرعی اجناس کی پیداوار بڑھانے کے بجائے امپورٹ اور غیر ملک دوروں پر خوش ہوتے ہیں

اپنا تبصرہ بھیجیں