معاشرے میں خواتین پر تشدد اور ڈیجیٹیل پلیٹ فارم پر بڑھتے ہوئے حراسانی کے رجہان کا خاتمہ وقت کی اہم ضرورت ہے
ڈیجیٹل پلیٹ فارم پر خواتین کو حراساں کرنے کے بڑھتے ہوئے رجہان کے باعث خواتین کھل کر اپنی صلاحیتوں کے جوہر نہیں دیکھا پارہی ہیں اور اسی ناسور کی وجہ سے خواتین کے ورثاء بھی حوصلہ افزائی نہ کرنے پر مجبور ہیں شیخ زاید میڈیکل کالج و اسپتال رحیم یارخان کی محکمہ صحت کی ایک ملازمہ الف نواحی علاقے سے وین میں آتی تھیں اسی دوران وین ڈرائیور سے تعلقات استوار ہوگئے جب لڑکا رشتہ لینے گھر گیا تو والدین نے نامناسب رشتہ سمجھ کر انکار کردیا جس پر لڑکے نے مشتعل ہوکر لڑکی کی ویڈیو اسکے والدین کو بھجوا دی جس سے معاملہ اور بھی سنگین ہوگیا اسطرح ڈیجیٹل پلیٹ فارم ایک جدید ہتھیار کے طورپر استعمال کرنے کے رجہان کو سختی سے کچلنے کی ضرورت کیونکہ خواتین پر تشدد دنیا بھر میں کی جانے والی انسانی حقوق کی سنگین ترین خلاف ورزیوں میں سے ایک ہے۔ تشدد سےمتاثرہ خواتین کی زندگیوں اور صحت و سلامتی کو خطرات لاحق ہوجاتے ہیں۔ پاکستان میں 32 فیصد خواتین کو تشدد کا سامنا رہاہے ۔ ان میں سے نصف خواتین نے کبھی مدد نہیں مانگی اور نہ ہی کسی کو اپنے اوپر ہونے والے تشدد کے بارے میں آگاہ کیا ۔ اعداد و شمار خواتین پر گزرنے والی تکالیف اور نقصان کا احاطہ نہیں کرسکتے البتہ متاثرہ خواتئن پر رونما ہونے والے واقعات اس کی عکاسی کرتی ہیں۔
صنف کی بنیاد پر تشددحقیقی دنیا سے لے کر ڈیجیٹل پلیٹ فارمز تک، جسمانی، جنسی، نفسیاتی اور آن لائن تشدد سمیت مختلف خوفناک شکلوں میں ظاہر ہوتا ہے۔ ہر قسم کا تشدد متاثرہ خواتین کی جسمانی اور ذہنی صحت کو متاثر کرتا ہے، اور ان میں اضطراب ، افسردگی ، خودکش خیالات یا طرز عمل ، اور پوسٹ ٹرامیٹک اسٹریس ڈس آرڈر (پی ٹی ایس ڈی) کا سبب بن سکتا ہے۔ اس کے علاوہ تشد د سے متاثرہ خواتین اپنی انفرادیت ، وقار ، یا عزت ِ نفس کا احساس کھو سکتی ہیں۔موجودہ دور میں تشدد کی سب سے عام قسم ’ڈیجیٹل تشدد‘ یا خواتین اور لڑکیوں کا آن لائن دنیا میں ہونے والااستحصال ہے ۔ ڈیجیٹل تشدد میں آن لائن جنسی ہراسانی ، ڈرانا دھمکانا اور دوسروں کی تصاویر اور ویڈیو کا اُن کی رضامندی کے بغیر منفی استعمال شامل ہے۔ یونائیڈیڈ نیشن فنڈ کے مطابق عالمی سطح پر 85 فیصد خواتین نے ڈیجیٹل تشدد کا مشاہدہ کرنے کی اطلاع دی ہے، اور تقریبا 40 فیصد کو ذاتی طور پر اس کا تجربہ ہوا ہے۔ آن لائن پلیٹ فارمز پر خواتین سے نفرت انگیز اور توہین آمیز سلوک ان میں طویل مدتی نفسیاتی ، جذباتی اور جسمانی پریشانی اور اضطراب کا سبب بنتا ہے۔ عالمی اعداد و شمار کے مطابق دس میں سے نو عورتوں (92٪) کا کہنا تھا کہ آن لائن تشدد ان کی صحت و سلامتی کے احساس کو نقصان پہنچاتا ہے اور ایک تہائی سے زائد (35٪) عورتوں کو آن لائن تشدد کی وجہ سے ذہنی صحت کے مسائل کا سامنا رہا ۔ ڈیجیٹل تشدد پیشہ ورانہ امور اور روزگار کے لیے آن لائن اور سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر انحصار کرنے والی خواتین اور لڑکیوں کے کام پر بھی منفی اثر ڈالتا ہے۔جبکہ خواتین اور لڑکیاں چاہے جہاں کہیں بھی ہوں، تمام جگہوں پر تحفظ کا احساس ان کا حق ہے۔ خواتین پر تشدد کے خاتمے کے لئے صنفی بنیادوں پر تشدد کے خلاف اقدامات تو کئے جارہے جارہے ہیں مگر ناکافی ہیں اب وقت آگیا ہے کہ ہر زی شعور شخص اس بات پر غور کرے کہ صنفی بنیادوں پر ہونے والے تشدد کو کیسے ختم کیا جاسکتا ہے۔ اس مقصد کے لئے خواتین پر ہر قسم کے تشدد کے خلاف کام کرنے والے ادارے دیگر سیاسی سماجی اور میڈیا کے اداروں کے ساتھ مل کر صنفی بنیاد پر تشدد، کم عمری کی شادیوں اور دیگر نقصان دہ رویوں کے خاتمے کے لیے آگاہی کے فروغ، حمایت کے حصول اوردیگر عملی اقدامات کے ذریعے بھرپور اور مزید کوششیں کرنے کی ضرورت ہے ۔
یو این ایف پی اے 2030 تک صنفی بنیاد پر تشدد کے خاتمے کے لیے اقدامات کررہا ہے اس ادارے کی جانب سے خواتین اور لڑکیوں کو ان کی صحت اور حقوق کے بارے میں معلومات فراہم کی جا رہی ہیں اور صنفی تشدد کے نقصانات کو اجاگر کرتے ہوئے مردوں اور لڑکوں کے رویوں کو تبدیل کرنے لیے ان کے ساتھ مل کر کام کیا جارہاہے۔ اس کے علاوہ صنفی بنیادوں پر تشدد سے متاثرہ خواتین کو طبی نگہداشت ، قانونی تحفظ اور نفسیاتی مدد کی فراہمی میں معاونت اور ساتھ ہی تشدد سے متاثرہ خواتین کو مضبوط قانونی تحفظ مہیا کرنے کی حمایت کررہا ہے کیونکہ خواتین کے خلاف تشدد سب سے زیادہ ہے۔
اسی منظم ادارے سے ملنے والے اعداد شمارکے مطابق 32 فیصد خواتین کو پاکستان میں جسمانی تشدد کا سامنا کرنا پڑا ہے اور 40 فیصد ہمیشہ شادی شدہ خواتین کو کسی نہ کسی موقع پر ازدواجی زیادتی کا سامنا کرنا پڑا دو میں سے ایک پاکستانی خاتون جنہوں نے تشدد کا سامنا کیا ہے کبھی مدد نہیں مانگی اور نہ ہی اس کے بارے میں کسی کو بتایانوعمر لڑکیوں کے مرنے کا امکان بھی زیادہ ہوتا ہے۔بیشتر خواتین میں بچے کی پیدائش کے دوران پیچیدگیاں سامنے آتی ہیں مگر ایسی درد ناک روداد کو سامنے نہیں لایا جاتا اسی طرح صنف کی بنیاد پر تشدد آن لائن پلیٹ فارمز تک حقیقی دنیا میں بہت سی مکروہ شکلیں اختیار کرتی جارہی ہیں۔ نفسیاتی تشدد کوئی بھی نقصان دہ رویہ ہے جس میں زبانی بدسلوکی، دھمکی، ہیرا پھیری، تنزلی اور تذلیل شامل ہے۔ تعاقب، معاشی بدسلوکی جہاں ایک ساتھی دوسرے کی آمدنی یا ضروری اخراجات تک رسائی کو کنٹرول کرتا ہے، اور دوستوں یا خاندان سے الگ تھلگ رہنا کچھ نفسیاتی طور پر بدسلوکی کرنے والے رویے ہیں۔ڈیجیٹل تشدد میں آن لائن جنسی طور پر ہراساں کرنا، سائبر دھونس اور تصاویر اور ویڈیو کا غیر متفقہ استعمال شامل ہے صنفی بنیاد پر تشدد زندہ بچ جانے والوں کی جسمانی اور ذہنی صحت کو متاثر کرتا ہے…جس سے نفسیاتی تشدد اضطراب، ڈپریشن، خودکشی کے خیالات کا سبب بن سکتا ہے ۔ ڈیجیٹل تشدد کا استعمال کسی دوسرے شخص کو زبردستی کرنے، ڈنڈے مارنے یا ہراساں کرنے کے لیے کیا جاتا ہے۔ اس کے لئے ڈرنے یا خوفزدہ ہونے کی بجائے بھروسہ مند دوستوں اور اہل خانہ اور متعلقہ نجی و سرکاری اداروں سے بات ُکی جاسکتی ہے اس کے لئے خوف یا شرمندگی اپنے اوپر اثر انداز
نہ ہونے دیں اور اپنے آپکو تنہا محسوس نہ سمجھیں
خواتین کیلئے اپنے حقوق اور رپورٹ کا طریقہ کار موجود ہے اور لڑکوں اور لڑکیوں کو برابری اور حقوق کی تعلیم حاصل کرنی چاہیے۔خاموشی سے تکلیف سہنا بزدلی اور نا منناسب رویہ ہے
ملک اسلم
(گھوٹکی /رحیم یارخان )