کراچی() پاکستان میں صحافیوں ، میڈیا کارکنوں اور میڈیا اداروں کو انتہائی ناسازگار صورت حال کا سامنا ہے۔ ایسی صورت حال آزادی صحافت کے جمہوری نظام کے لیے شدید خطرات کا باعث بن سکتا ہے ۔
ان خیالات کا اظہارسی پی این ای کے زیر اہتمام میڈیا فریڈم رائونڈ ٹیبل کانفرنس میں کیا گیا۔ جس میں صحافیوں اور میڈیا کی تنظیموں کے نمائندوں نے کثیر تعداد میں شرکت کی ۔ کانفرنس میں میڈیا کی آزادی کے تحفظ، استحکام اور فروغ کے لیے مشترکہ طور پر جدوجہد کرنے کے عزم کا اظہار کرتے ہوئے ہر قسم کے میڈیا مخالف رجحانات ، واقعات اور اقدامات کا ڈٹ کر مقابلہ کرنے کا عہد کیا گیا۔ اس کانفرنس میں ایمنڈ، پی ایف یو جے، کراچی پریس کلب، کے یو جے (دستور)، کے یو جے (برنا) ، سی ای جے، پی پی ایف اور سول سوسائٹی کے نمائندگان اور سینئر صحافیوں اور مدیران نے شرکت کی۔کانفرنس سے اظہر عباس، مظہر عباس، سعید سربازی، لالہ اسد پٹھان، جی ایم جمالی، فہیم صدیقی، اے ایچ خانزدہ، راشد عزیز، حسن عباس، عاجز جمالی، محترمہ امبر رحیم شمسی، اویس اسلم علی، ڈاکٹر توصیف احمد خان، ڈاکٹر جبار خٹک، مقصود یوسفی، انور ساجدی، عبدالخالق مارشل اور عامر محمود نے خطاب کیا۔ اس موقع پر مقررین نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں آزادی صحافت کوہردور میں مشکلات کا سامنا رہا ہے لیکن اب صورت حال انتہائی خطرناک ہوچکی ہے۔ صحافیوں کے لیے زمین تنگ کردیگئی ہے اور بیرون ملک بھی انہیں تحفظ نہیں ملتا۔ مقتول صحافی ارشد شریف کو قتل کرنا حق اور سچ لکھنے پر عبرت کا نشان بنایا گیا ۔ اسی طرح عماد یوسف کے خلاف بغاوت کا مقدمہ چلا کر پیغام دیا جارہا کہ صحافیوںکو سزائے موت اور عمر قید جیسی سزائوں والے مقدمات میں ملوث کیا جاسکتا ہے۔ ان حالات میں تمام صحافتی تنظیموں کا مشترکہ طور پر چیلنجز کا سامنا کرنا ہوگا اور سی پی این ای کو تمام صحافتی تنظیموں کے اشتراک سے میڈیا فریڈم ڈیسک تشکیل دی جائے تاکہ صحافیوں پر حملوں اور تشدد کا مقابلہ کیا جائے ، ان واقعات کا ریکارڈ مربوط انداز میں رکھ کر تاریخی دستاویز مرتب کی جاسکے۔کانفرنس کے شرکاء نے سندھ میں بنائے گئے جرنلسٹ پروٹیکشن کمیشن کو فوری طور پر فعال بنانے کی ضرورت پر بھی زور دیا۔ انہوں نے مزید کہاکہ صحافیوں کے موبائل فون اور لیپ ٹاپ ضبط کرنا بھی غیر قانونی ہے۔
علاوہ ازیں کانفرنس میں سی پی این ای کی جاری کردہ میڈیا فریڈم رپورٹ کی رونمائی بھی کی گئی جبکہ کانفرنس کے آغاز میں شہید ارشد شریف کی بیوہ جویریہ ارشد نے کہا کہ 2022 میں ارشد شریف کے قتل سے پہلے 2017 میں بھی ہماری فیملی نے اس طرح کی صورت حال کا سامنا کیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ نے سوموٹو نوٹس لے کر نئی جے آئی ٹی تشکیل دے دی ہے لیکن قتل کے واقعہ کو 100 دن گزرنے کے بعد بھی ارشد شریف کے خلاف 16 مقدمات درج کروانے اور ان کے چینل کو بند کروانے والے عناصر کو تاحال کٹہرے میں نہیں لایا گیا ہے۔ جو ہمارے ملک میں انصاف دینے والے اداروں کی کارکردگی پر سوالیہ نشان ہے۔ اطہر متین کے بھائی طارق متین نے کہا کہ اطہر متین کے قتل کو ایک سال ہورہا ہے لیکن اس کے قاتل گرفتار ہونے کے باوجود مقدمہ کی شنوائی نہیں کی گئی۔
جاری کردہ :
کونسل آف پاکستان نیوزپیپر ایڈیٹرز