کُلاچ سے کیلاش ایک قسط وار سفرنامہ ہے۔ کراچی سے وادی کیلاش تک کا یہ سفر ہمارے ساتھی شرجیل بلوچ نے چند منچلے خواتین و حضرات کے ساتھ طے کیا ہے۔ راستہ تو خوبصورت ہے ہی، مگر راہی بھی کم نہیں۔ یہ سفر نامہ ہر اتوار کو قسط وار شائع کیا جاتا ہے۔ پیش ہے اس سلسلے کی آخری قسط۔۔۔
مقامی لوگ اور سیاح گروپس کی شکل میں پہاڑ کے اوپر جا رہے ہیں۔ اوپر جاتی پتھریلی سیڑھیاں ہوں گی کوئی سو ڈیڑھ سو۔ چڑھتے چڑھتے جہاں سانس رکتی ہم آس پاس بنے کچے اور تاریک گھروں میں جھانکنے لگتے۔ ان کچے آنگنوں میں مٹی اور پلاسٹک کے بدنما کھلونوں سے کھیلتے ہوئے چھوٹے چھوٹے خوبصورت میلے کچیلے بچے ہمیں دیکھ کر پھرتی سے گھروں کے اندر گُھس جاتے۔
ان کا رویہ بالکل غاروں میں رہنے والوں جیسا تھا۔ اوپر پہاڑ پر سیمنٹ کا پلیٹ فارم تھا جس کی پکی چھت نے تیز دھوپ کو آنےسے روکا ہوا تھا۔ نیچے سو دو سو رنگ برنگ مرد عورتیں بچے بوڑھے لڑکے لڑکیاں اور انکے بیچ دو ڈھول والے۔ سندھ، پنجاب، بلوچستان اور پشتون علاقوں کے ڈھول کی تھاپ اور شہنائی کی دھن پر دل خود بخود رقص کرنے لگتا ہے۔ مگر اس ڈھول کی تھاپ کسی جنگلی قبیلے کی تھاپ جیسی تھی۔
ڈُمبک۔ ڈُمبک۔ ڈُمبک۔ ڈُمبک کی مسلسل آواز اور اس آواز میں مسلسل شور مچاتے ہوئے لڑکے لڑکیاں۔ تین تین چار چار کی قطاروں میں ایک دوسرے کے شانوں پر ہاتھ رکھے کندھے سے کندھا ملائے۔ نیم دائرے میں پہلے دائیں اور پھر واپس بائیں مڑتے اور پھر بکھر جاتے۔ شکاری ان کے اردگرد پوزیشنیں سنبھالے کھڑے تھے۔ ہرایک کی خواہش اور کوشش یہی تھی کہ کوئی بھی پری چہرہ ان کے نشانے سے بچ کر نہ جائے۔
بچے اور بچیاں ان ناچتی ہوئی پریوں کے درمیان بے خبر اپنی دنیا میں مست املی والی انگلیاں چاٹنے میں مگن تھیں۔ میرے اطراف ہر چہرہ پری چہرہ تھا۔ مگر بےگانہ اور بالکل لا تعلق۔ ان کی مسکراہٹیں ان کا رقص ان کی نگاہیں صرف ایک دوسرے کے لیے تھیں۔
اس میلے کا کیا نام ہے؟ ہمت کر کے میں نے ساتھ کھڑے نوجوانوں سے پوچھا۔ ان کی سفید چترالی ٹوپیوں میں لگے ہوئے خوبصورت پر دھوپ میں چمک رہے تھے۔آپ پہلا دفعہ آیا ہے؟ ایک نے سپاٹ لہجے میں پوچھا۔ جی۔ میں نے بات بڑھتے دیکھی۔ بس یہ امارہ عید ہے۔ اس نے اپنی اردو میں مجھے سمجھایا۔ اور منہ پھیر کر دوست کی طرف متوجہ ہوگیا۔ میں کچھ دیر اس کی توجہ کا منتظر رہا۔ پھر مڑ کر بھیڑ میں اپنے لوگوں کو ڈھونڈنے لگا۔ آدھے سے زیادہ لوگ جا چکے تھے باقی بھی آنکھوں ہی آنکھوں میں ایک دوسرے سے پوچھ رہے تھے کہ ہو گیا کام؟
میلہ چھوڑ کر پہاڑ کے اوپر جاتی ہوئی سیڑھیوں پر میرے آگے ایک ادھیڑ عمر سیاح ایک نوجوان سیاح کو یہاں کے رسوم ورواج بتاتا جا رہا تھا۔ چلتے چلتے ہم دائیں ہاتھ پر بنے ایک پتھریلے احاطے میں داخل ہوگئے۔ جہاں سے نیچے دور تک وادی میں پھیلے ہوئے لکڑی کے مکانات اور کھیت نظر آ رہے تھے۔ میرے سامنے ایک بڑے سے پتھر پر خون کے خشک چھینٹے پڑے تھے۔ سامنے چٹان کے اوپر کالی اور پرانی لکڑی کے بنے ہوئے چار خدا نیچے وادی میں جھانک رہے تھے۔ یہ ان کی عبادت گاہ تھی۔
لکڑی کے ان شہتیروں کو سامنے سے گھوڑوں کی شکل میں تراشا گیا تھا۔ وہاں رک کر میں نیچے وادی میں جھانکتا رہا۔اور پھر وحشت زدہ ہو کر کچھ لمحوں بعد باہرنکل آیا۔ ایک 14 پندرہ سالہ لڑکا سیڑھیاں چڑھتے ہوئے ہاتھ میں کالے بالوں والی کوئی چیز اٹھائے اوپر آ رہا تھا۔یوں لگا جیسے بکرے کا سر ہوگا۔ مگر وہ اتنا بڑا نہیں ہوتا۔ کوئی سینگ کوئی آنکھ، ناک، کان نظر نہیں آئے۔وہ بالوں بھری چیز بیل کے سر جتنی ہوگی۔ اس کا چمڑا کہیں کہیں خشک ہو کر پیلا ہو چکا تھا۔وہ کیا تھا کچھ سمجھ نہیں آیا۔
لڑکا میرے قریب سے گزر کر اس عبادت گاہ میں داخل ہو گیا۔اس نے ایک بار مڑ کرمجھے دیکھا۔ پھر بنا کچھ کہے۔ ان چوبی خداؤں کے پیچھے سے ایک لکڑی کے تختے کو ہٹایا۔ نیچے سیمنٹ کا ٹینک تھا۔اس نے نہایت ادب اور احتیاط سے وہ کالے بالوں والی چیز اس میں رکھ کر تختہ دوبارہ جمایا۔اور تیزی سے مڑ کر میرے قریب سے گزرنے لگا۔
یہ تم نے کیا کیا؟ میں نے مشکل سے مسکراتے ہوئے پوچھا۔ ہم نے اپنا دستور کیا۔ یہ کہہ کر وہ تیزی سے سیڑھیاں اترتا ہوا ۔نیچے رقص کرتے کیلاشوں میں گم ہوگیا۔ تجسس نے میری گردن پیچھے موڑی۔ مگراس بار ہمت ساتھ چھوڑ چکی تھی۔ لکڑی کے چاروں خدا مجھ پر طنزیہ مسکرا رہے تھے۔
چار بجے تک سب واپسی کے لیے تیار تھے۔ پیدل چلتے ہوئے ہم گاؤں کی سرحد سے دور ہوتے جا رہے تھے۔اور رمبور میں رکی ہوئی نخبت ہمیں جاتا دیکھ کر کہیں چھپ گئی تھی۔ وہ شاید اپنے آنسو چھپا رہی ہوگی۔ میلے کی واپسی ہمیشہ اداس اور تھکن زدہ ہوتی ہے۔ مگر عجیب سی بات تھی کہ گاؤں سے دور ہوتے ہوئے ہمارے اعصاب ہلکے ہوتے جا رہے تھے۔ جیپ چلاتے ہوئے ڈرائیور کے چہرے پر ایک طنزیہ سی مسکراہٹ تھی جیسے کہ رہا ہو ۔ دیکھ آئے میلہ ؟ ہوگئے خوش؟
اس بستی کا غیر معمولی بھاری اثر سب پر ہوا تھا میں دوران سفراس بھاری پن کی وجہ سوچتا رہا۔
اگرمیں یہ کہوں کہ کراچی ایک بھنور جیسا شہر ہے۔ لاہور ایک یار باش جگا ہے۔ ہرن مینار ایک بوڑھی دلہن ہے۔ کھیوڑہ سکندرِ اعظم کے تحفہ ھے۔ کٹاس راج ایک طلسم کدہ ہے۔ایبٹ آباد ایک لارڈ صاب ہے۔ دیر بالا جیسے کوئی خوبصورت پہاڑی دوشیزہ۔ تو رمبور ایک ایسا پرستان ہے۔ جہاں پریاں اور پری زاد صدیوں سے اپنے آپ میں خوش اور مگن ہیں انھیں آدم زادوں سےکوئی بیر نہیں۔ مگر ان کا بغیر اجازت پرستان میں گھس آنا۔ ان کو تعجب کی نظروں سے گھورنا۔ اور ان کی ذاتی زندگیوں میں دخل دراندازی کرنا۔ یہ سب ان پریوں کو بالکل پسند نہیں۔
یوں لگا جیسے آدم زاد بھی کافی وقتوں سے اس پرستان میں نقب لگا رہے ہیں۔ مگر اب پریاں اور پری زاد دونوں بہت محتاط ہو چکے ہیں۔ وہ آدم زادوں کی نیتوں کو اچھی طرح جان گئے ہیں۔ مگر مہذب اتنے ہیں کہ بنا کسی کو جھڑ کے۔ بنا ٹوکے۔اپنی شناخت اور خوبصورتی بچا رہے ہیں۔ وہ یہ راز جانتے ہیں کہ کیسے اپنے خاموش رویّے کے حصار اور لا تعلقی کو اپنی ڈھال بنا کر ان آدم زادوں کو اپنے آپ سے دُور رکھنا ہے ۔ ان کا سرد رویہ ہمارے اعصاب شل کرچکا تھا۔