انتخابی مہم کے قوانین کی خلاف ورزی رپورٹ کرنا صحافیوں کے لیے جرم“

انتخابی مہم کے قوانین کی خلاف ورزی رپورٹ کرنا صحافیوں کے لیے جرم“

الیکشن کمیشن آف پاکستان نے انتخابی مہم کے قوانین تو تشکیل دئے ہیں لیکن اس حوالے سے انتخابات میں حصہ لینے والے سیاستدانوں کو مؤثر تربیت فراہم نہیں کی گئی۔ جس کے باعث انتخابی امیداوران انتخابی مہم کے قوانین سے واقف نہیں ہوتے اور قوانین کی خلاف ورزی رپورٹ کرنے پر صحافیوں کو تشدد کا نشانہ بنانے کے واقعات رونما ہوتے ہیں۔ اور انتخابی مہم کے دوران متعقلہ قوانین کی خلاف ورزی کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔ جبکہ سیاسی منطرنامے کا جائزہ لیا جائے تو ملک میں ضمنی انتخابات اور کسی بھی وقت نئے انتخابات ہوسکتے ہیں لیکن اس حوالے سے تاحال کوئی مؤثر اقدامات نہیں کئے گئے ہیں۔
ضلع مظفرگڑھ کے علاقے رنگپور کی یونین کونسل چک فرازی کے منتخب چیئرمین سردار عاشق بخاری وائس چیئرمین منیر مصطفائی نے امیدوار ایم پی اے مرتضی رحیم کھر کی انتخابی مہم چلائی۔
الیکشن کمیشن کا قانون ہے کہ ہے کوئی بھی منتخب چیئرمین یا وائس چیئرمین اپنی سیٹ سے استعفی دئیے بغیر کسی بھی ممبر صوبائی یا قومی اسمبلی کے امیداور کی انتخابی مہم میں شامل نہیں ہوسکتا ہے۔
2018 کے عام انتخابات میں یونین کونسل رنگپور کے چیئرمین کی جانب سے انتخابی مہم کی خلاف ورزی کی خبر
اے آر وائی نیوز کے لیے رپورٹ کی تو چیئرمین کے حامیوں کی جانب سے دوران کوریج میرا کیمرہ توڑا گیا اور
تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔
جس کے بعد پریس کلب رنگ پور کی جانب سے احتجاجی مظاہرہ بھی کیا گیا اور پولیس نے معاملے کی حساسیت کو سمجھتے ہوئےمقدمہ تھانہ رنگ پور مظفرگڑھ میں درج کرلیا۔ جس کے باعث فریقین کے مابین صلح صفائی کروانے کی کوشش کرتے ہوئے کیمرہ خرید کردیا گیا اور مقدمہ خارج کردیا گیا۔
اگر اسی تںاظر میں حالیہ ضمنی انتخابات کا جائزہ لیں تو صورتحال جوں کی توں ہے، لاھور میں اے آر وائی نیوز کے رپوٹرحسن حفیظ کو الیکشن کوریج کے دوران سیکورٹی کے حوالے سے سوال کرنے پرپولیس کی جانب سے کوریج سے روک دیا گیا اور تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔
پنجاب یونین آف جرنلسٹس کے صدر شہزاد حسین بٹ اورجنرل سیکرٹری محمد شاہد چوہدری و ایگزیکٹو کونسل نے واقع کی شدید مذمت کی اور پریس کلب لاہور نے بھی احتجاجی مظاہرہ کرتے ہوئے صحافیوں کی معیاری صحافت میں انکی حفاظت کے حوالے سے شدید تحفظات کا اظہار کیا۔

تشدد کا شکار ہونے والے رپورٹر حسن حفیظ کا کہنا تھا کہ انہیں الیکشن کمیشن کی جانب سے جاری شدہ کارڈ ھونے کے باوجود کوریج سے روکا گیا تھا ۔جس پر سی پی او کی جانب سے بعد میں معذرت کی گئی۔ لیکن اس حوالے سے تمام اسٹیک ہولڈرز کی تربیت کرنے کی اشد ضرورت ہےبصورت دیگر یہ معاملہ جوں کا توں رہے گا۔
مذکورہ مسئلے کی حساسیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ پاکستان پریس فاؤنڈیشن کے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق 2018 کے انتخابی سال کے دوران صحافیوں کے ساتھ دوران کوریج مختلف نوعیت کے تشدد، اقدام قتل، گرفتاری، ہراسانی، جسمانی تشدد، گھر پر حملہ، زبانی دھمکیاں، سینسر شپ اور قانونی مقدمات کے 25 واقعات رپورٹ ہوئے تھے۔
کوٹ ادو میں بھی روہی نیوز کے رپوٹر تیمور اطہر کو الیکشن کمیشن کے انتخابی مہم کے قوانین کی خلاف ورزی کی خبررپورٹ کرنے پرتشدد کا سامنا کرنا پڑا۔ خبر میں نشاندہی کی گئی تھی الیکشن کمیشن کے انتخابی مہم کے قوانین کے مطابق امیداور آتش بازی فائرنگ وغیرہ نہیں کرسکتا جس کی خلاف ورزی کئ گئی تھی۔ جس کی خلاف ورزی کرنے والے امیدوار کے خلاف متعلقہ تھانہ کوٹ ادو میں مقدمہ بھی درج ھوا۔ اس حوالے سے تیمور اطہر کا مؤقف ہے کہ اس مقدمے کے میرٹ پر تفشیش نہیں ھوئی اور مقدمہ خارج کردیا گیا۔ مقدمہ خرج ھونے پر کوٹ ادو پریس کلب کی جانب سے احتجاج بھی کیا گیا۔ اس معاملے میں روہی نیوز کی جانب سے تیمور کا بھرپور ساتھ دیا گیا اور معاملے کو میڈیا کی مدد سے بھرپور کوریج دی گئی جو بے سود گئی۔
ضمنی انتخابات 2022 میں خرم شھزاد نمائندہ اے آر وائی نیوز کبیروالہ کو کچاکھوہ میں کوریج سے روک دیا گیا۔ پولنگ اسٹیشن پر عملے کا کہنا تھا آپکے پاس الیکشن کمیشن کارڈ تو موجود ھے لیکن آپکا نام لسٹ میں شامل نہیں ھے۔ خرم شہزاد کا کہنا تھا کہ اے آر وائی نیوز کی جانب سے باقاعدہ آواز اٹھائی گئی۔ تمام تر ریکارڈ چیک کرنے کے تین گھنٹے بعد انہیں کوریج کی اجازت دی گئی۔

ڈسٹرکٹ پولیس آفسر مظفرگڑھ کے ترجمان وسیم خان گوپانگ کا کہنا ھے کہ 2018 میں الیکشن رولز کی خلاف ورزی کی خبر نشر کرنے پرصحافیوں پر تشدد کے تین مقدمات رپوٹ ھوئے۔ جن میں دو کوٹ ادو اورایک رنگ پور میں درج ھوا۔ ڈی پی او مظفرگڑھ فیصل شھزاد کی جانب سے تمام تر مقدمات کی میرٹ پر تفیش ہوئی اور بعد ازاں انہیں خارج کردیا گیا۔
الیکشن کے دوران کوریج کے حوالے سے سابق ممبر صوبائی اسمبلی عون حمید کا کہنا ہے کہ بیشتر امیدارواں کوالیکشن کمیشن کے رولز کا پتہ نہیں ھوتا جس کی وجہ سے انکی جانب سے خلاف ورزی ہو جاتی ھے۔
اس حوالے سے یہ الیکشن کمیشن کے ساتھ ساتھ میڈیا کی بھی اخلاقی ذمہ داری بنتی ہے کہ انتخابی مہم میں حصہ لینے والے ہر ایک سٹیک ہولڈر کی تربیت کی ایک جامع مہم چلائے۔ جبکہ ایسے واقعات سے نمٹنے کے لئے صحافتی ادارے اپنے آؤٹ اسٹیشن رپورٹر کو بھی وہی تحفظ فراہم کریں جس کا حقدار ایک مستقل ملازم ہوتا ہے۔ جبکہ سیاسی مہم چلانے والے امیداروان کو بھی انکی کوریج کرنے والے صحافیوں کو ہر لحاظ سے تحفظ فراہم کرنا انکی ذمہ داری بنتی ہے کہ ان کی ریلی میں شامل لوگ صحافیوں کو کسی بھی وجہ سے تشدد کا نشانہ نا بنائیں۔
صحافیوں کو اپنے تئیں اپنی حفاظت یقینی بنانے کے لئے کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹ ایک حفاظتی راہنمائی فراہم کرتی ہے جس کے مطابق کسی بھی ریلی کی کوریج کے دوران صحافی کو مکمل چارجنگ کے ساتھ موبائل لیجانا چاہئے جس میں انٹرنیٹ اور لیکشن فعال ہو لیکن وہ مشکل پاس ورڈ کا متحمل ہو، صحافی کو اپنے آلات گاڑی میں نہیں چھوڑنے چاہئے، اس کو بھیڑ سے تھوڑا الگ، کسی ساتھی کے ساتھ کسی اونچے مقام یا ایسی جگہ ہونا چاہئے جہاں سے وہ کسی بھی مشکل صورتحال میں باآسانی آگے پیچھے ہوسکے۔ جبکہ اسی راہنمائی میں دیگر معاملات میں اپنی حفاظت کو یقینی بنانے کے حوالے سے بھی راہنمائی فراہم کی گئی ہے۔
جبکہ صحافیوں کو فنی تربیت فراہم کرنے والے ادارے پاکستان پریس فاؤنڈیشن نے اس معاملے کا ادراک کرتے ہوئے 2018 کے انتخابات کے دوران ایک سروس کا آغاز کیا تھا جس میں انتخابی مہم کے قوانین خلاف ورزی کی رپورٹنگ کے دوران ہونے والے حملوں کی اطلاع دی جاسکتی تھی۔ ان تمام واقعات کی رپورٹ الیکشن کمیشن آف پاکستان کے متعلقہ وفاقی، صوبائی اور مقامی حکام کے نوٹس میں لائی گئی۔
اس حوالے سے صحافی تنظیم ریجنل یونین آف جرنلسٹس کے جنرل سیکرٹری سردار معظم ڈوگر (آر یو جے) کا کہنا ھے کہ ڈسڑکٹ میں صحافیوں کو سیلف ڈیفنس کی ٹریننگ اور رپورٹنگ کے دوران اپنے آپ کو محفوظ رکھنے کی تربیت حاصل کرنے کی بھی ضرورت ھے۔
ایڈووکیٹ ہائیکورٹ اسد منیر سمجھتے ہیں کہ بیشتر صحافی مالی طور پر کمزور ھونے اور سست عدالتی نظام کے باعث بھی ایسے مقدمات کو جاری نہیں رکھ پاتے، اگر ادارے انکے ساتھ تعاون کریں تو ایسے واقعات میں کمی ہوسکتی ہے۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ میڈیا مالکان کو آؤٹ اسٹیشن رپورٹرز کو انتخابی مہم کے دوران مکمل تحفظ کے ساتھ ساتھ اپنے مواد کی غیر جانبداری پر بھی نظرثانی کی ضرورت ہے کیونکہ عمومی طور پر صحافیوں کو اسی بنیاد پر نشانہ بنایا جاتا ہے۔ جبکہ الیکشن کمیشن کو اس حوالے سے سخت ایکشن لینے کی ضرورت ہے کہ وہ ایسے صحافیوں کا ساتھ دے جو انکی نگرانی مہم میں معاون ثابت ہوتے ہیں۔ جبکہ صحافیوں کو زمینی حقائق کو سامنے رکھتے ہوئے اس بات کا ادراک کرنا ضروری ہے کہ حقائق کے ساتھ ساتھ اپنی حفاظت بھی ضروری ہے

تحریر
:نوید فریاد ڈوگر

اپنا تبصرہ بھیجیں