”شہبازشریف کا دورہ قطر“

”شہبازشریف کا دورہ قطر“
از۔۔۔۔ظہیرالدین بابر

وزیراعظم شہبازشریف کا دورہ قطر دراصل دونوں دوست مسلم ممالک کے تعلقات کو نئی بلندیوں سے سرفراز کرنے کی سنجیدہ اور مخلص کوشش قرار دی جاسکتی ہے،وزیر اعظم پاکستان کے دورے کا ایک اور اہم مقصد ترقی پذیر ممالک کے پانچواں اجلاس میں شرکت کرنا تھی ، دوحہ میں ہونے والی اس کانفرنس کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے بھی کیا جاسکتا ہے کہ یہ ترقی پذیر ممالک کو ترقی کی راہ پر لانے کے لیے وسیع اور قابل عمل منصوبہے کا حصہ سمجھی جارہی ہے ، 5 سے 9 مارچ تک ہونے والی اس کانفرنس میں ترقی پذیر ممالک میں پائیدار ترقی کے اسیے اقدامات اٹھانے پر غور کیا گیا جس کے نتیجے میں یہ ممالک ترقی ی راہ پر تیزی سے گامزن ہوسکتے ہیں، یقینا پاکستان ترقی پذیر ممالک کی آواز میں آواز ملانے کے لیے علاقائی ہی نہیں عالمی سطح پر اپنا بھرپور کردار ادا کررہا ہے ، 2022 کے دوران 77 گروپ اور چین کے چئیر کی حثیثت سے پاکستان نے ایل ڈی سی چیئر اور قطر کی کوششوں کی فعال طور پر حمایت کی تھی تاکہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں دوحہ پروگرام آف دی ایکشن فار دی لیسٹ ڈویلپیڈ ممالک کو نہ صرف اتفاق رائے سے اپنایا جائے بلکہ آگے بڑھ کر اس کی توثیق بھی کی جائے ، ماہرین کا خیال ہے کہ قطر کے درالحکومت دوحہ میں ہونے والی کانفرنس ترقی پذیر ممالک میں تعمیر وترقی کے سفر میں معاون بن سکتی ہے، کانفرنس میں وزیر اعظم شہبازشریف کی شرکت پاکستان کی جانب سے کم ترقی یافتہ ممالک میں بہتری کے لیے کی جانے والی کوششوں کی حمایت کا ثبوت ہے ،حقیقت یہ ہے کہ پاکستان اقوام متحدہ کے 2030 کے ترقیاتی ایجنڈے اور پائیدار ترقی کے اہداف کے حصول کے لیے عالمی شراکت کی حمایت کرتا ہے ، اس پس منظر میں وزیر اعظم شبہازشریف کی امیر قطر شیخ تمید بن حمد آل ثانی سے ملاقات میں دوطرفہ امور اور دونوں ممالک کے درمیان سرمایہ داری اور شراکت داری کو مضبوط بنانے پر مفید بات چیت ہوئی ، بتایا جارہا ہے کہ وزیر اعظم شبہازشریف کی جانب سے پاکستانی ہنرمندوں کو قطر برآمد کرنے پر بھی تبادلہ خیال کیا گیا ،حقیقت ہے کہ پاکستان ان دنوں جس معاشی بحران سے دوچار ہے اس کا بجا طور پر تقاضا ہے کہ ہم دوست ممالک کساتھ کاروباری شراکت داری کو مضبوط بنائیں ، وزیر اعظم شبہازشریف کی خواہش اور کوشش یہی ہے کہ پاکستان آئی ایم ایف اور عالمی بنک جیسے اداروں کے تعاون سے جلد ازجلد اپنے پاوں پر کھڑا ہوجائے ،

وزیر اعظم پاکستان ایک سے زائد مرتبہ اپنی اس خواہش کا اظہار کرچکے کہ اگر ہم نے قوموں کی صف میں اپنا مقام پیدا کرنا ہے تو اس کے لیے معاشی خودمختاری کی راہ پر گامزن ہوگا، وزیر اعظم شہبازشریف ایک سے زائد مرتبہ کہہ چکے کہ سیاسی جماعتوں کو میثاق معیشت کے لیے آگے بڑھنا ہوگا، اس ضمن میں شبہازشریف کے خلوص کا اندازہ اس امر سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ بطور قائد حزب اختلاف بھی وہ اس وقت کے وزیر اعظم عمران خان کو قومی اسمبلی میں کھڑے ہو کر تعاون کی پیشکش کرچکے ، اس حقیقت سے کسی طور پرصرف نظر نہیں کیا جاسکتا کہ وطن عزیز میں جب تک حکومت اور اپوزیشن معاشی خود مختاری کے منصوبے پر باہمی اتفاق ویکجہتی کا مظاہرہ نہیں کریں گے اس وقت تک ملکی مسائل پر قابو پانا ممکن نہیں، یہ افسوسناک ہے کہ ماضی کی طرح آج بھی عمران خان اہم قومی مسائل پر قومی سیاسی جماعتوں سے بات چیت کرنے پر آمادہ نہیں ہیں، اس پس منظر میں یہ سمجھنے کے لیے سقراط جیسی دانش کی ضرورت نہیں کہ اگر حکومت اور اپوزیشن معیشت کی بحالی کے لیے متفقہ اور مشترکہ کاوشیں نہیں کریں گی تو حالات کیونکر بہتر ہوسکتے ہیں،اس پس منظر میں یہ کہنا کسی طورپر مبالغہ آرائی نہ ہوگا کہ وزیر اعظم پاکستان شبہازشریف کی انتھک کاوشیں اسی وقت ہی بارآور ثابت ہوسکتی ہیں جب عمران خان میں نے مانو کی روش سے ملکی تعمیر وترقی کی خاطر تائب ہوجائیں ، ستم ظریفی یہ ہے کہ ماضی کو دیکھتے ہوئےیہ کہنا کسی طور پر آسان نہیں کہ پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ اپنے ذاتی اور گروہی مفاد سے تائب ہوکر پاکستان اور صرف پاکستان کا مفاد مقدم رکھ رکھیں گے ، ملکی معیشت کے حوالے سے پاکستان تحریک انصاف اور اس کی قیادت کی سنجیدگی کا اندازہ اگست 2022 میں اس کے سابق وزیر شوکت ترین کی پنجاب اور خبیر پختونخواہ کے وزرا خزانہ سے ٹیلی فون بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے جس میں شوکت ترین واضح طور پر محسن لغاری اور تمیور جھگڑا سے آئی ایم ایف سے کیے جانے والے وعدوں سے مکر جانے کی ہدایت دے رہے ہیں ، مثلا آڈیو لیک میں پی ٹی آئی کے سابق وفاقی وزیر خزانہ اپنی پارٹی کےبمحسن لغاری کو یہ کہتے ہوئے نظر آتے ہیں کہ آپ نے آئی ایم ایف کو کہنا ہے کہ” جو ہم نے 750 ارب کی کمٹمنٹ دی تھی وہ دراصل سیلاب سے پہلے دی تھی ، اب سیلاب کی وجہ سے ہمیں بہت سا پیسے خرچ کرنا پڑے گا،اب ہم یہ کمٹمنٹ پوری نہیں کرپائیں گے،شوکت ترین اپنی دونوں صوبائی وزرا خزانے سے یہ بھی کہتے ہیں کہ ہم چاہتے ہیں کہ ان پر دباو پڑے ، یہ ہمیں اندر کررہے ہیں اور ہم پر دہشتگری کے الزامات لگا رہے ہیں، یہ باکل سکاٹ فری جارہے ہیں یہ ہم نہیں ہونے دینا” افسوس سے یہ کہنا پڑتا ہے کہ عمران خان اور ان کی پارٹی کے لوگ ماضی کی طرح آج بھی صرف اور صرف اپنے ذاتی مفاد کو عزیز رکھے ہوئے ہیں،

اپنا تبصرہ بھیجیں