“ہمارا پاکستان ‘ اہم ہیں نوجوان“

“ہمارا پاکستان ‘ اہم ہیں نوجوان“

پاکستان خوش قسمت ملک ہے جہاں نوجوانوں کی شرح ساٹھ فیصد ہے مگر بد قسمتی سے آج تک ہم ان کی صلاحیتوں سے استفادہ حاصل کرنے میں ناکام رہے ہیں پاکستان خوش قسمت ملک ہے کہ اوسط عمر کے حساب سے نوجوانوں کی تعداد دنیا کے تمام ممالک سے زیادہ ہے اور ان کی صلاحیتوں سے فائدہ اٹھانا وقت کی اہم ضرورت ہے کسی بھی ملک کی ترقی ومستقبل کا دارومدار اسکے نوجوانوں پر ہوتا ہے آئیے نوجوانوں کی آوازوں اور امنگوں کو مضبوط کرنے کاعہد کریں نوجوانوں کو انکے منفرد صلاحیتوں کے مطابق مواقع فراہم کرنےکی اشد ضرورت ہے کیونکہ آج کے نوجوان ہی کل کے لیڈر ہیں پاکستان سے بیروزگاری کا خاتمہ کرنا ہو گا فنی تعلیم کے مواقع پیدا کرنے ہوں گے ہمارے اکثر نوجوان سفارش کلچر کی وجہ سے دلبرداشتہ ہو جاتے ہیں اور اپنا رجحان منفی سرگرمیوں کی طرف موڑ لیتے ہیں اس لیے ہمیں انصاف پر مبنی معاشرے کی بنیاد رکھنا ہو گی تاکہ نوجوان ملک کا مستقبل تابناک بنا سکیں انشاءلله یہ نوجوان پاکستان کی تعمیر و ترقی میں اپنا بھربور کردار ادا کریں گے اور پاکستان کو مسائل کی دلدل سے نکالیں گے اور ہمیں اج کے نوجوانوں کو ایسی تربیت دینے کی ضرورت ہے جو انہیں آزادی کی فکر و اہمیت سے متعارف کرواکر مسائل کو سسٹم کے تناظر میں سمجھائے کیونکہ ایک فیصد اشرافیہ ہی ستر سال سے نظام پر حاوی ہو کر ووٹرز کے استحصال میں مصروف ہے جس سے صرف طاقتور اور بااثر طبقہ جمہوری نظام پر قابض ہے اس لیے نوجوانوں کو آگے آنا ہو گا اور وطن عزیز کی ترقی کے لے جمہوری عمل میں اپنا کردار ادا کرنا ہو گا تاکہ ملک کو مخلص قیادت میسر آ سکے نوجوانوں کا سیاست میں کردار بڑی اہمیت کا حامل ہے جبکہ کہ ہم نے ان کو دور رکھا ہوا ہے عام نوجوانوں کی صلاحیتوں کو زنگ لگ رہا ہے جبکہ چند اشرافیہ کے بچے وسائل پر قابض ہو جاتے انہیں کے پہلے باپ دادا ہی حکمران رہے ہوتے جبکہ ہم پر حکومت یہ بھی اپنا فرض جانتے ہیں آپ جانتے ہیں پچلھے دو سال سے کرونا کی وجہ سے طلباء طالبات کے فیل ہونے کے ریکارڈ بن رہے یعنی مزید پیچھے چلے گئے ہیں اب بھارت سمیت دنیا بھر میں نوجوانوں کی تعلیم اور ان کے ہنر سیکھنے سکھانے پر خاص توجہ دی جانے لگی یے ہمارے ملک میں نوجوانوں کو اپنے اپنے مفاد میں نکما کرنے اور ان کا وقت جتنا ضائع ہو اتنا کم ہے ورنہ یہاں مثبت چیزیں نوجوانوں کو سیکھانے کا رجحان انتہائی قلیل ہے اس پر توجہ دینے کی اشد ضرورت ہے اب تو دنیا ساری فنی تعلیم کی جانب راغب ہو رہی ہے پچلھے سال اقوام متحدہ نے تعلیم کے عالمی دن کو بھی فنی تعلیم کے نام کر کے یہ دن منایا اور دنیا کی حکومتوں کو ووکیشنل ٹریننگ پروگراموں کے اجرا پر زور دلانے کے مختلف امدادی پروگراموں کا اعلان کیاہے تاریخ نے نوجوانوں کو قوموں کا ہیرو قرار دیا ہے اس لئے اگر تاریخ کا بغور مطالعہ کیا جائے تو جوانوں نے اپنے جواں جذبوں کے سہارے قوموں کی تقدیر بدلنے میں اہم کردار ادا کیا ہے ہمیں نوجوانوں کے لیے راستہ نکالنا ہو گا تاکہ یہ اپنی خدمات ملکی ترقی کیلئے بجا لائیں تاکہ گئے اور ضایع کئے گئے وقت کا ازالہ کیا جاسکے اس وقت معاشرہ انتہائی زبوں حالی کا شکار ہے حالانکہ قدرت نے ہمیں معدنیات کے حوالے سے پورا پاکستان گل گلزاردیا ہوا ہےا لیکن بے کار قیادت کی وجہ سے اج ہم انتہائی خستہ حالی کا شکار ہیں نوجوانوں کو انسانیت کی خدمت کا درس دیں کیونک انسان چلا جاتا ہے اور انکی حسن یادیں دنیا والوں کے پاس بطور امانت رہ جاتی ہیں اجھی یادیں سرمایہ زندگی ہوا کرتی ہے قوم اب باشعور ہونا ہو گا انہیں مزید رنگین نعروں سے ورغلایا نہیں جاسکے گا اس لیے اب گفتار کے بجائے ہمیں کردار کا سہارا لینا ہوگا ورنہ دنیا بھول جانے میں کافی مہارتیں رکھنے والی زہین قوم ہیں کسی بھی قوم کی ترقی میں سب سے اہم کردار نوجوان ادا کرتے ہیں وہ ترقی معاشی ہو یاشعور کی نوخیز کا کردار ہمیشہ خاص رہا ہے ، خوش قسمتی سے ارض پاک نوجوانوں کے حوالے سے بڑی ذرخیز مٹی ہے اس حوالے سے گزشتہ روز خواجہ فرید پوسٹ گریجویٹ کالج میں ایک سمینار و مقالمے میں بھی شرکت ہے جس سے پروفیسر ڈاکٹر خالد ، عاصم صدیق ، شمسہ کنول ایڈووکیٹ، ڈاکٹر بسمہ اختر شہباز نئیر، فرحان عامر ، عمران کمار نے طالب علموں تک اچھی باتیں بتائیں اور ان کے کردار سازی اور ان کی اہمیت کو ملکی اہمیت کے حوالے سے اجاگر کیا ایسے سمینار و مقالموں کا مقصد نوجوانوں کی کردار سازی و ان کو درپیش مسائل اور ان کے حل کی طرف توجہ مبذول کروائی جا سکے کیونکہ پاکستان ان 15 ممالک میں شامل ہے جس کی نصف سے زیادہ آبادی نوجوانوں پر مشتمل ہے اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے برائے تعمیر و ترقی کے مطابق ملک میں مجموعی آبادی کا کل 64 فیصد حصہ 30 برس سے کم عمر نوجوانوں پر مشتمل ہے جبکہ ان میں 29 فیصد آبادی 15 سے 29 برس کے نوجوانوں پر مشتمل ہے ہر سال 40 لاکھ نوخیز روزگار کی عمر میں داخل ہو جاتے ہیں نوجوانوں کی قدر و اہمیت کا اندازہ ان ممالک کا معاشرتی جائزہ لے کر ہوسکتا ہے جس میں نوجوانوں کی شرح کم اور بچوں اور بوڑھوں کی زیادہ ہے جس میں افریقہ سر فہرست ہے ، ایسے علاقوں میں معاشی صورت حال گھمبیر ہوجاتی ہے ،غربت میں اضافہ اور دیگر بہت سے مسائل میں اضافہ ہو جاتا ہے مگر ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہمارے پاس نوجوانوں کی بہت بڑی تعداد مستقبل کے حوالے سے مایوس ہے انہیں اپنا مستقبل تاریک نظر آتا ہے ان کے روزگار کے حوالے سے ہر غروب ہوتا سورج انہیں مزید پریشانیوں اور دشواریوں میں دھکیل دیتا ہے ہر روز اپنے روزگار کی تلاش میں نکلتنے ہیں ، اور سارے دن کی دھکے کھانے کے بعد مایوس واپس لوٹتے ہیں اس میں افسوس ناک بات یہ ہے کہ تعلیم یافتہ طبقہ بہت زیادہ متاثر ہورہا ہے جو اپنی ڈگریاں لیے در بدر کی تھوکریں کھاتے ہیں ، دفتر کے کلرک اور دیگر ملازمین کے ہتک آمیز رویوں کا سامنا کرتے ہیں اپنے لوگوں کی باتیں سنتے ہیں یہی وجہ ہے کہ ایک سروے کے مطابق پاکستان کا زیادہ تر تعلیم یافتہ طبقہ ملک چھوڑ کسی بھی دوسرے ملک میں کام کرنا چاہتا ہے ۔اور اس بات کا اندازہ 2022 کے اعداد وشمار سے لگایا جاسکتا ہے ، کہ صرف ایک سال میں سات لاکھ پینسٹھ ہزار تعلیم یافتہ نوجوان ملک کو چھوڑ کے پردیس کی مشکلات کو برداشت کرنے پر راضی ہوگیا ہے یہ وہ تعداد ہے جو قانونی طور پر ملک کو الوداع کہہ گئے ہیں ، ڈنکی لگا کرجانے والوں کی تعداد اس کے علاوہ ہے یہی وجہ ہے کہ نوجوان بروزگاری کی وجہ سے فرسٹریشن کا شکار ہو جاتے ہیں اور مختلف غیر قانونی سرگرمیوں میں ملوث ہوجاتے ہیں ، اس بات کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ پہلے اسٹریٹ کرائمز صرف کراچی تک ہی محدود تھے اب اسلام آباد ، لاہور اور راولپنڈی , بہاواپور ، رحیم یار خان سمیت چھوٹے شہروں میں بھی موجود ہیں اور اس کی شرح میں بہت زیادہ اضافہ ہورہا ہے جن میں ملوث اکثریت نوجوانوں کی شامل ہوتی ہے اب وقت آ گیا ان کے کچھ کیا جاۓ ان کی اتنی تعداد سے کچھ فائدہ اٹھا جاۓ گزشتہ دنوں رحیم یار خان میں ہندو برادری کی جانب سے اپنے مسلمان بھائیوں کے اعزاز افطار پارٹی ایک منفرد تقریب تھی مذاہب کے درمیان محبت کا پیغام دیا گیا اس پر مفصل تحریر لکھیں کیا خوبصورت پروگرام اور بیغام گیا معاشرے میں اس طرح کی بھائی چارے امن اور یکجہتی کی ضرورت ہے پاکستان آئیں سب مل کر اس کی تعمیر و ترقی کا عزم کریں برابری کا معاشرہ قائم کریں انصاف کا معاشرہ قائم کریں,

تحریر :
فرحان عامر

اپنا تبصرہ بھیجیں