مشرقی وسطی میں کشیدگی کی لہر عالمی امن کیلئے خطرہ“
اسرائیل کے غزہ پر حملوں، مسجد اقصی کی بار بار بے حرمتی اور مقبوضہ مغربی کنارے میں یہودی آبادکاروں کی کارروائیوں کے خلاف عرب اسرائیل جنگ کی پچاسویں سالگرہ پر ہفتے کے روز علی الصبح حماس نے پہلی بار غزہ سے بیک وقت بری، بحری اور فضائی کارروائی کرکے پوری دنیا کو حیرت زدہ کردیا ۔ اسرائیل کے مضبوط دفاعی نظام کو توڑ کر اور خفیہ ایجنسیوں کو بے خبر رکھ کر طوفان الاقصی کے نام سے کی جانے والی یہ ہمہ پہلو کارروائی کیسے ممکن ہوئی، اسرائیلی حکومت اور اس کی حامی مغربی طاقتوں سمیت سب کیلئے یہ ایک معمہ ہے۔ اسرائیل میں حماس کے اچانک حملے نے صف ماتم بچھا دی ہے-ممتاز اسرائیلی اخبار ہارٹز کا کہنا ہے کہ اسرائیل کو اپنے قیام سے لے کر اب تک کسی جنگ میں یہ سب سے بڑا نقصان اٹھانا پڑا ہے- حماس کا حملہ مکمل سرپرائز ہے-یہ 1948 میں اسرائیل کے قیام سے لے کر اب تک صیہونی ریاست کے لئے سب سے بڑا نقصان او رایک ایسا وار ہے جس کا کسی اسرائیلی نے تصور تک نہیں کیا تھا-
صیہونی ماہرین کا کہنا ہے کہ 1973 میں بھی اسرائیل کو سرپرائز ملا تھا مگر اس وقت جنگ سویلینز سے بہت دور لڑی گئی تھی اس بار جنگ میں عام شہری بھی نشانے پر ہیں پہلی دفعہ اسرائیلیوں کو اتنی بڑی تعداد میں جنگی قیدری بنالیا گیا ہے لوگوں کے بیوی بچے لاپتہ ہیں یہ غیر معمولی خوفناک صورت حال ہے-اسرائیلیوں کو ایسے زخم لگے ہیں جنہیں برسوں مندمل نہیں کیا جاسکے گا-خبر رساں ادارے رائٹرز کے مطابق دھوکہ دہی کی ایک محتاط مہم نے اس بات کو یقینی بنایا کہ حماس کا حملہ نہ صرف اسرائیلی فوج کے لئے حیرت کا باعث بنا بلکہ ایسے وقت پر کیا گیا جب وہ اس کی توقع بھی نہیں کر رہے تھے- اسرائیل تسلیم کرچکا ہے کہ یہ حملہ ان کے لئے حیران کن تھا-اسرائیلی دفاعی افواج کے ترجمان میجر نیرو وینار کا کہنا ہے کہ یہ ہمارا نائن الیون ہے-انہوں نے ہمیں حیران کرکے رکھ دیا اور بہت تیزی سے مختلف مقامات سے آئے-
حماس نے اسرائیلی کے جنوبی شہروں میں فوجی اڈوں اور عسکری تنصیبات کو نشانہ بنایا۔ مجاہدین کی بڑی تعداد غزہ کی سرحد پر موجود باڑ ہٹاتے ہوئے زمینی راستے سے اسرائیل کے شہر اشکلون سمیت جنوبی شہروں میں داخل ہوئی جبکہ سمندری راستے اور پیراگلائیڈرز کی مددسے بھی متعدد حماس ارکان نے حملہ کیا۔ تادم تحریر دستیاب اطلاعات کے مطابق حماس کے اسرائیل پر حملوں میں ہلاک ہونے والے اسرائیلیوں کی تعداد 1000 ہوگئی ہے جبکہ 2600 سے زائد زخمی ہیں’9 امریکی شہریوں کی ہلاکت کی بھی تصدیق کی گئی ہے- دوسری جانب غزہ میں اسرائیلی حملوں میں687 افراد شہید اور 3900 زخمی ہوگئے ہیں شہداء میں 140 بچے اور 105 خواتین شامل ہیں-
اسرائیل نے غزہ کی سرحد پر ٹینک پہنچا دیئے ہیں جبکہ 3 لاکھ ریزرو فوجی بھی طلب کر لئے ہیں-صیہونی ریاست نے غزہ کی پٹی کا مکمل محاصرہ’ خوراک’ بجلی ‘ گیس اور پانی کی سپلائی بند کردی ہے-اسرائیل نے غزہ میں پناہ گزین کیمپوں سمیت 800 مقامات کو وحشیانہ بمباری کا نشانہ بنایا جس سے درجنوں عمارتیں ملبے کا ڈھیر بن گئیں’ غزہ کی فضا پر دھوئیں کے سیاہ بادل چھا گئے’ شہر میں دن بھر ہولناک دھماکوں کی آوازیں گونجتی رہیں- حماس نے دھمکی دی ہے کہ اگر حملے نہ رکے تو یرغمالی قتل کردیں گے- جنگ کے باعث بگڑتی صورت حال پر عالمی لیڈروں نے ایک دوسرے سے رابطے تیز کردیئے ہیں’ قطر اور مصر نے ثالثی کے لئے کوششیں شروع کردی ہیں-اقوام متحدہ کی ایجنسی( او سی ایچ) کا کہنا ہے کہ غزہ میں اب تک ایک لاکھ 23 ہزار 538 افراد بے گھر ہوچکے ہیں جس کی بڑی وجہ خوف’ عدم تحفظ اور گھروں کا تباہ ہونا ہے-
حماس کے سیاسی بیورو کے نائب سربراہ صالح العروری نے الجزیرہ سے بات چیت کرتے ہوئے کہاہے کہ ہم مار کربھاگیں گے نہیں، مکمل جنگ شروع کی ہے، توقع ہے کہ محاذ پھیلے گا، ہماری جہدو جہد کا مقصد زمین اور مقدس مقامات کی آزادی ہے،گرفتار شدگان میں زیادہ ترتعداد اسرائیلی فوجیوں کی ہے جتنے اسرائیلی ہمارے ہاتھ لگے ہیں اس کے بدلے میں اسرائیل ہمارے تمام فلسطینی قیدیوں کو رہا کرنے پر مجبور ہوگا۔ اس جنگ میں امریکہ ، برطانیہ، جرمنی، فرانس اور بھارت نے کھل کر اسرائیل کی حمایت کی ہے ، سعودی عرب، قطر اور کویت نے حماس کی کارروائی کو اسرائیلی مظالم کا ردعمل قرار دیا ہے اور ایران ، شام، یمن، افغانستان نے حماس کی کارروائی کا پرجوش خیر مقدم کیا ہے۔
ماسکو نے خبر دار کیا ہے کہ حماس ‘ اسرائیل لڑائی میں تیسرے فریق کے شامل ہونے کا خطرہ بڑھ گیا ہے’ ضروری ہے کہ جلد از جلد جنگ بندی کراکے مذاکرات کے عمل کی راہ نکالی جائے-روسی وزیر خارجہ سر گئی لاوروف کا کہنا ہے کہ آزاد اور خود مختار فلسطین ریاست کا قیام ہی مشرق وسطی میں امن کا ضامن ہے- اسرائیل’ فلسطین صورتحال پر برطانوی وزیر خارجہ جیمز کلیور لی کا کہنا ہے کہ کوئی بھی نہیں چاہتا اسرائیل فلسطین کشیدگی خطے کے دوسرے حصوں میں پھیلے- بین الا اقوامی فضائی کمپنیوں نے اسرائیل کی موجودہ صورت حال کے بعد تل ابیب جانے والی پروازوں کو معھل کردیا ہے-کمپنیوں کا موقف ہے کہ وہ سیکورٹی صورت حال بہتر ہونے کا انتظار کر رہی ہیں-
صیہونی ریاست کی مسلسل جارحیت اور کسی حل پر اتفاق نہ کرنے پر فلسطین کی مزاحمتی تحریک حماس کی جانب سے اسرائیل پر انتہائی حیران کن بڑے حملے کے بعد جنگ کی شدت روز بروز بڑھتی جارہی ہے اور کئی طرح کے خدشات نے دنیا کو اپنے نرغے میں لے لیا ہے- عالمی سطح پر کشیدگی کم کرنے کی کوششوں کے ناکام ہونے اور بات روایتی بیان بازی سے آگے نہ بڑھنے کی وجہ سے نہ صرف جانی نقصان کے خدشات بڑھتے جارہے ہیں بلکہ عالمی امن کو بھی شدید خطرات لاحق ہوچکے ہیں-
مزاحمت کرنا او راپنی آزادی کے لئے لڑنا فلسطینیوں کا بنیادی حق ہے-اسرائیل کی نہایت مضبوط اور جدید ہتھیاروں سے لیس فوج فلسطینی معصوم شہریوں’ عورتوں اور بچوں کے خلاف جارحیت کر رہی ہے اگرچہ اسرائیل اپنے ظلم اور جارحیت پر پردہ ڈالنے اور عالمی برادری کو دھوکا دینے کے لئے مسلسل یہ باور کرا رہا ہے کہ وہ فلسطینی حملوں کے خلاف فقط اپنا دفاع کر رہا ہے مگر پوری دنیا یہ بات جانتی ہے کہ تنازعہ فلسطین کا اصل شکار کون بن رہا ہے مگر بد قسمتی سے اسرائیل اور فلسطین کے معاملے میں عالمی برادری ہمیشہ دوہرا معیار اختیار کرتی ہے- اسرائیل کی بنیاد ظلم’ استحصال’ جھوٹ اور مکر پر رکھی گئی ہے اور انہی ستونوں پر کھڑی ہے-
مسئلہ فلسطین صرف سیاسی مسئلہ نہیں بلکہ یہ انسانوں کو پیش آنے والے بہت سے مسائل سے عبارت ہے۔ صبح و شام حقوق انسانی کا واویلا کرنے والوں کے سامنے لاکھوں مظلوموں کی آہ و بکاان کی جانبداری کے نفاق کا پردہ چاک کررہی ہے۔ نیو ورلڈ آرڈر کا ننگ چھپائے نہیں چھپ رہا۔ ترقی یافتہ ممالک کے سامنے جہاں حیوا نوںکے حقوق کی بات ہوتی ہے وہاں پچھلی نصف صدی سے ساٹھ لاکھ سے زائد انسانوں کا سوال ہے جن سے ان کا وطن بزورقوت چھین لیا گیا ہے۔ جن کی خیمہ بستیوں میں بھوک ہی بھوک افلاس امراض اور ناخواندگی ہے ۔وہ بے گھر انسان جن کی جھونپڑیوں کو جلا کر ان پر یہودیوں نے بلند و بالا عمارتیں کھڑی کرلی ہیں-
خطے میں پائیدار امن کا نسخہ دو ریاستی حل کی شکل میں موجود ہے۔ 1967 سے پہلے والے بارڈرز کے تحت خودمختار فلسطینی ریاست قائم ہونی چاہیے جس کا مرکز القدس شریف ہو۔ تنازع فلسطین کا یہی واحد قابل عمل حل ہے لیکن عشروں پہلے اس پر عالمی اتفاق رائے کے باوجود اب تک اس کا ٹلتے رہنا بعض بڑی طاقتوں کے منافقانہ رویوں کا نتیجہ ہے۔ امن پوری دنیا کی ضرورت ہے اور اس کیلئے تنازع فلسطین کا منصفانہ حل ناگزیر ہے -اب بھی وقت ہے عالمی برادری اپنا دوہرا معیار ختم کرکے انسانی بنیادوں پر مظلوم فلسطینی عوام کا قتل بند کروانے کے لئے آگے بڑھے اور فلسطینیوں کو ان کا حق آزادی دلوانے کے لئے اپنا کردار ادا کرے اسی میں انسانیت کی بھلائی اور عالمی امن کا راز پوشیدہ ہیں۔۔۔۔
Load/Hide Comments