,,,,,,,,,ہم نہ بھولے تجھے,,,,,,,

,,,,,,,,,ہم نہ بھولے تجھے,,,,,,,
مستقل کالم. ارداس    

تحریر: ریاض بھٹی                  bhatticolumnist99@gmail.com
گذشتہ شب ہمارے ایک اور دیرینہ دوست رزقِ خاک ہوئے۔ اناللہ و اناالیہ راجعون۔مخدوم سید شرف حسین شاہ، مخدوم رشید کے باسی اور مخدوم جاوید ہاشمی کے قریبی عزیزوں میں سے تھے۔ ہمہ جہت شخصیت، جن کے پاس اللہ اور اللہ کے رسولؐ، رسول کے آلؓ، اور رسول کے اصحابؓ کی محبتوں، عقیدتوں کے خزانے تھے۔مختصر علالت کے بعد ربِ عظیم کے مہمان ہوئے۔ اللہ تعالیٰ انہیں غریقِ رحمت فرمائے۔ لواحقین کو صبرِ جمیل عطا فرمائے اور ہمیں دنیا و آخرت کی کامیابی سے سرفراز فرمائے۔ (آمین ثم آمین)
میرے بھائی نما دوست عباس بھٹی بھی اُن کے سفرِ آخرت کے افسوسناک منظر سے اشکبار تھے جہاں سینکڑوں افراد نے نمازِ جنازہ اور تدفین کی سنت ادا کرتے ہوئے دعاؤں کے نذرانے پیش کیے۔ آپ سوچ رہے ہوں گے کہ آج کا کالم محض موت پر ہی آگے بڑھ رہا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ زندگی کی سب سے بڑی سچائی ہی موت ہے۔ ایسے کافر،جو رب کے وجود کے بھی منکر ہیں، وہ بھی موت کے وجود سے انکار نہیں کرسکتے لیکن اندھا دھند جینے کے لیے موت کو ہر قدم پر نظر انداز کرتے رہتے ہیں۔
چلیے اللہ تعالیٰ انہیں ہدایت عطا فرمائیں کہ وہ جان لیں کہ شاعر نے جیسے کہا تھا کہ
کوئی تو ہے جو نظامِ ہستی چلا رہا ہے
وہی خدا ہے، وہی خدا ہے
اگر خدا ایک کی بجائے زیادہ ہوتے تو ان کے درمیان ہمیشہ اختلاف و نفاق رہتا۔ ایک کا اصرار ہوتا ہے کہ سورج مشرق سے طلوع ہواور دوسرا مغرب پر مُصر ہوتا۔یہی کہانی شب کی بھی ہوتی، جھگڑاچاند تاروں کا ہوتا۔ یہی ناراضگی جنگ میں بدل جاتی کہ دریاؤں کے رخ یوں موڑ دیں۔ سمندر یہاں نہ بناؤ، پہار وہاں کھڑا نہ ہو۔ بہار کا موسم خزاں میں ہو اور خزاں بہار کا منہ دیکھے۔
بچے عورتیں نہیں مرد پیدا کریں یا دونوں پیدا کریں۔ ماں دودھ نہ پلائے اور ممتاکی حقدار ٹھہرے۔ باپ، نان نفقہ اولاد سے غافل رہے اور رب کی نمائندگی کرے۔ اس جیسی بے شمار انہونی کہانیوں کو ہم اگر زندگی کا حصہ بنالیں تو زندگی پھر ایسے ہی ہوگی۔ لوگ رب سے تو ناراض رہتے ہیں، خود سے بھی ناراض رہیں گے۔ آؤ! لوٹ آؤ اُس رب کی طرف جو شہ رگ سے بھی زیادہ نزدیک ہے جو دلوں کے بھید خوب اچھی طرح جانتا ہے، جو روزِ محشر، روزِ جزا کا مالک ہے۔ باتیں بہت، آج ایک آمد نظم پر بات مختصر کرتے ہیں، پھر انشاء اللہ جلد رابطہ ہوگا۔
جو تم مایوس ہو جاؤ تو رب سے گفتگو کرنا
وفا کی آرزو کرنا سفر کی جستجو کرنا
یہ اکثر ہو بھی جاتا ہے کہ کوئی کھو بھی جاتا ہے
مقدر کو برا جانو گے تو یہ ہو بھی جاتا ہے
اگر تم حوصلہ رکھو وفا کا سلسلہ رکھو
تو میں دعوے سے کہتا ہوں کبھی ناکام نہ ہو گے
جو تم مایوس ہو جاؤ تو رب سے گفتگو کرنا
کبھی مایوس مت ہونا وہاں انصاف کی چکی
ذرا دھیرے سے چلتی ہے مگر چکی کے پاٹوں میں
بہت باریک پستا ہے تمہارے ایک کا بدلہ
وہاں ستر سے زیادہ ہے نیت تلتی ہے پلڑوں میں
عمل ناپے نہیں جاتے وہاں جو ہاتھ اٹھتے ہیں
کبھی خالی نہیں جاتے ذرا سی دیر لگتی ہے
مگر وہ دے کے رہتا ہے جو تم مایوس ہو جاؤ
تو رب سے گفتگو کرنا جو تم مایوس ہو جاؤ
تو رب سے گفتگو کرنا
رب کو نہ بھولیں وہ بھی ہمیں نہیں بھولے گا۔
٭٭٭

اپنا تبصرہ بھیجیں