اجتماعی شادیوں کا روجحان ایک مثبت عمل ،غریبوں کا بھرم
اسلام نے انسانی معاشرے کی اصلاح کا آغاز ہی تکریم نسواں سے کیا اور جب اسلام نے حرمت نسواں کی بات کی تو اس کے ظاہر اور باطن کی حفاظت کا سامان بھی فراہم کیا تاکہ وہ کسی طرح بھی شرف انسانی کے مقام سے نیچے نہ گرسکے۔ اسلام نے ایک عورت کی معاشرتی وسماجی تقدیس کو برقرار رکھنے لیے ارتکاء نسل انسانی کی غرض سے شادی جیسے مقدس فریضے کی ادائیگی کا حکم دیا۔ بیٹا نعمت اور بیٹی کو اللہ کی رحمت کہاجاتاہے مگر مہنگائی کے اس دورمیں جہاں غریبوں کے لیے ایک وقت کی روٹی کمانا مشکل تر ہوگیاہے وہاں یہ بیٹیاں زحمت تصورکی جاتی ہیں اور یہ دعاکی جاتی ہے کہ اللہ انہیں بڑھاپے کا سہاراعطاکرے مگر جب سہارے کی بجائے رحمت سے نوازا جاتاہے تو غریب فیملی کے لیے مشکلات کادور شروع ہوجاتاہے۔
پہلے بیٹی کی پرورش، پھر پڑھائی اور پھر اسکی شادی یہ تینوں ہی مرحلے محنت ،مزدور پیشہ افراد کے لیے نہایت کٹھن امتحانات ہیں اور جس غریب فیملی میں اللہ کی ’’رحمتوں‘‘ کی بے پناہ بارش ہوئی ہوتو ’’رحمتوں‘‘ کو پیاگھرسدھارنے کے لیے اتنی ہی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتاہے۔ ہمارے معاشرے کی ستم ظریفی ہے کہ اس میں بیٹی کی شادی جیسا مقدس فریضہ بھی والدین پر بوجھ بن چکاہے۔ لڑکے والے منہ مانگے جہیز کے منتظر ہیں جس کی وجہ سے والدین بیٹی کی پیدائش کے وقت سے ہی اسکے جہیز کی فکر میں لگ جاتے ہیں۔باپ اور بھائی سالوں محنت کرکے ایک بچی کے جہیز کے سامان کی بمشکل صورت بناسکتے ہیں ۔ہوتایوں ہے کہ والدین کی کل زندگی بچیوں کی رخصتی کی نذرہوجاتی ہے لیکن پھر بھی سب والدین کے لیے ایسا کرنا ممکن نہیں ہوتا۔ والدین اور بھائی انتہائی کوشش کے باوجود لڑکے والوں کی ضرورت کے مطابق جہیز تیارنہیں کرسکتے۔
یہ بات بھی دیکھنے میں آئی ہے کہ مایوس ہوکر والدین یا بھائی خود کشی کرلیتے ہیں اور بعض مرتبہ تو لڑکی خود کو خاندان پر بوجھ سمجھ کر خود کشی کرلیتی ہے اور معاشرہ بے حسی کا پیکر بنا ہوا اس برائی کے ہاتھوں پس رہاہے۔ایسے ہی حالات کے ستائے ہوئے لوگوں کے لیے مقامی این جی اوز اور ویلفیئر سوسائٹیز نے ملکر ایسے غریب خاندانوں کے آنسو پونچھے اور انکی بیٹیوں کے لیے شجر سایہ دار بن کر انہیں پیاگھرسدھارنے میں اہم کرداراداکیا۔ پچھلے چند سالوں میں اجتماعی شادیاں کی جانب روجحان میں تیزی سے اضافہ دیکھنے میں آیا ہے جس سے غریب خاندانوںمیں شادی کے انتظارمیں بیٹھی کئی بچیاں سروں میں چاندی اترنے سے قبل ہی پیاگھر سدھار گئیں ۔ رحیم یارخان میں بھی مقامی سطح پر ایسی کوششیں کرنے والی شخصیت شہر کے ایک معروف تاجر وایم پی اے چوہدری محمد شفیق نے بھی اجتماعی شادیوں کے اس سلسلہ کو شروع کررکھاہے ۔ چناب ویلفیئر سوسائٹی 2004 سے غریب خاندان کی بچیوں اور بچوں کی اجتماعی شادیوں میں اعلیٰ کردار اداکررہی ہے ۔ چوک بہادرپور میں چناب ویلفیئر سوسائٹیکے زیر اہتمام 70جوڑوں کی اجتماعی شادی کا اہتمام کیاگیاجس میں ضلعی انتظامیہ، پولیس انتظامیہ، تاجر حضرات اور شہریوں کی ایک بڑی تعداد شریک ہوئی۔ اجتماعی شادیوں کا یہ سلسلہ پہلے پہل چند ایک شہروں میں دیکھنے میں آتاتھا مگر اب پاکستان بھرکے کئی شہروں میں ایسی تقاریب منعقد کی جارہی ہیں۔
اسی طرح ضلع بھر میں 8800بیوائوں 1720یتیم بچوں کو ماہانہ 48لاکھ روپے کی امداد بھی یہی ویلفیئر تقسیم کررہی ہے جس کی تشہیر اس لیے نہیں کی جاتی کہ بیوائوں اور یتیم بچوں کو احساس محرومی پیدا نہ ہو۔ اجتماعی شادیوں میں چناب ویلفیئر سوسائٹی مقامی وسائل سے ایسی غریب اور نادار بچیاں جنکے والدین انکی رخصتی کے لیے جہیز کا سامان بنانے کی سکت نہیں رکھتے انکے لیے اجتماعی شادیوں کا سلسلہ شروع کیاہے جس میں دلہن کو گھر کی ضرورت کامکمل جہیز فراہم کیاجاتاہے، دلہن اور دولہا دونوں جانب سے 50,50مہمانوں کو کھانا فراہم کیاجاتاہے ۔دونوں طرف کے مہمانوں کی بھرپور آئوبھگت اور انکا شاندار استقبال کرکے انہیں یہ احساس ہی نہیں ہونے دیاجاتاکہ وہ کسی اور کے رحم و کرم پر ہیں یا انکی شادی کے انتظامات کہیں اور کیے گئے ہیں وہ ایساہی محسوس کرتے ہیں جیسے منعقد کی جانے والی شادی کے تمام انتظامات انکے اپنے ہوں اور انہی کے محلہ میں شادی کی جارہی ہو۔
باراتوں کا ڈھول کی تھاپ پر استقبال کیاجاتاہے اور باقاعدہ جھومر یا رقص بھی کھیلا جاتاہے اس بات کابھی خصوصی طورپر خیال رکھاجاتاہے کہ کسی بھی سطح پر دلہن یا دولہا یا انکے کسی رشتہ دار کو احساس محرومی نہ ہو اور وہ عزت کے ساتھ پروگرام میں شریک ہوں۔ اس موقع پر نوبیاہتے جوڑے کو برائیڈل گفٹ کے طورپر جائے نماز، قرآن پاک، سلائی مشین، ٹی سیٹ، کیٹلری سیٹ، ڈنرسیٹ، ڈبل بیڈ، بیڈشیٹ، رضائیاں، گیس والا چولہا، سوٹ کیس، بریف کیس، دولہا ،دلہن کے سوٹ، لوہے کی بڑی پیٹی، کرسیاں اور میز، واشنگ مشین، پیڈسٹل فین وغیرہ دیاجاتاہے اور اسکی مالیت2سے سوا2لاکھ روپے تک ہوتی ہے۔
فیاض محمود،رحیم یارخان
Load/Hide Comments