تعلیمی اداروں کی بہتات مگر تعلیمی استعداد کا انحطاط

تعلیمی اداروں کی بہتات مگر تعلیمی استعداد کا انحطاط

تعلیم انسان میں شعور پیدا کرتی ہے تعلیم کی بدولت ہی انسان اچھے برے کی تمیز کر سکتا ہے یعنی تعلیم ہی مسائل کا حل اور بہترین شخصیت سازی کی ضمانت ہے لیکن ہمارا تعلیمی نظام نسل نو کی آبیاری اور بہترین شخصیت سازی کی بجائے مسائل بڑھا دیتا ہے۔ آپ خود جائزہ لے سکتے ہیں کہ پاکستان میں تین قسم کے تعلیمی نظام ہیں اور یہ تین طبقاتی تعلیمی نظام ہمارے ملک کی کوئی خدمت نہیں کر رہے بلکہ ہمارے ملک اور نوجوان نسل کے مستقبل کے ساتھ کھلواڑ کر رہے ہیںمختلف نظام تعلیم کی وجہ سے ہمارے طلبا کی ڈگریوں کو بیرون ملک خاص اہمیت نہیں دی جاتی اور انہیں دوبارہ سے اپ گریڈ ہونا پڑتا ہے بہت سی تنظیموں اور دانشوروں نے اس نظام کے خلاف آواز اٹھائی لیکن حکومت کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی شاید یہ ان کے نوٹس میں نہیں یا وہ لاپرواہ بیٹھے ہیں یا وہ اسے اتنا اہم مسئلہ نہیں سمجھتے۔

اردو میڈیم جو سرکاری سکولوں یا گلی محلوں کے سکولوں میں پڑھایا جاتا ہے۔ جس میں اردو مضامین اور اسلامیات کو اہمیت دی جاتی ہے اور ان سکولوں میں غریبوں کے بچے ہی پڑھ سکتے ہیں ان سکولوں کے طلبا کو رٹا سسٹم پر لگایا جاتا ہے جو ان کے مستقبل کے لئے کار آمد نہیں ہے۔ انگلش میڈیم جو بیکن ہائوس، دی ایجوکیٹرز، سٹی سکولز نمایاں ہیں ان سکولوں کی فیسیں زیادہ ہیں جس کی وجہ سے صرف امرا، جاگیرداروں، سرمایہ داروں کی اولادیں ہی پڑھ سکتی ہیں۔ کسی غریب آدمی کی اولاد مالی حالات کی وجہ سے یہاں نہیں پڑھ سکتی۔ ان سکولوں میں اسلامی مضامین، اردو کو زیادہ اہمیت نہیں دی جاتی۔ مد ارس جن میں اسلامی مضامین کو اہمیت دی جاتی ہے جبکہ انگلش، کمپیوٹرسائنس، سائنس کے مضامین کو یکسر نظر انداز کیا جاتا ہے جبکہ بعض مدرسے ارتقائی سوچ کو پروان چڑھانے اور دور جدید کے تقاضوں کے مطابق طلباکو زیور تعلیم سے آراستہ کرنے کی بجائے صرف دینی علوم پر ہی اکتفا کرتے ہیںاور مدرسے میں زیر تعلیم طالبعلموں کومعاشرے کا کارآمد شہری بنانے کی بجائے صرف یہی بتایا جاتا ہے کہ ان کو صرف مولوی بننا ہے نا کہ ڈاکٹر، سائنسدان، انجینئر وغیرہ بن کر معاشرے میں منفرد مقام کے حصول کے ساتھ ساتھ ملک و قوم کی تعمیر و ترقی میں اپنا کردار ادا کریں۔

ہمارے ملک میں کوئی تعلیمی نظام مکمل نہیں ہے تو پھرہماری نوجوان نسل میں شعور کیسے آئے گا۔ یہ سب تعلیمی نظام غریب طبقے میں احساس کمتری پیدا کرتے ہیں اردو میڈیم کے طالب علم جب تعلیم سے فارغ ہوتے ہیں تو ان کو ان کوکوئی اچھی نوکرییاذریعہ معاش حاصل نہیں ہوتا۔غریب طبقے اور اردو میڈیم تعلیمی اداروں سے بیچلریاماسٹرز کی ڈگری حاصل کرنے کے باوجود اچھی طرح انگلش نہیں بول سکتے اور ان میں اعتماد کی کمی ہوتی ہے جبکہ انگلش میڈیم کے اکثر طلبا اردوزبان پر عبور نہیں رکھتے اور اردو نہ تو ٹھیک طریقے سے لکھ پاتے ہیں اور نہ ہی پڑھ سکتے ہیں اور یہ طلبا اردو مضامین میں اکثر کمزور ہوتے ہیں. مدرسے سے فارغ التحصیل طلبا کا مسئلہ یہ ہے کہ انہوں نے صرف قرآن، فقہ، حدیث وغیرہ پر عبور حاصل کیا ہوتا ہے جبکہ وہ نہ تو کوئی کلیریکل نوکری کر سکتے ہیں نہ ہی سائنسدان، ڈاکٹر یا انجینئر بن سکتے ہیں زیادہ تر طلبا کسی مسجد میں امامت شروع کردیتے ہیں یا کسی مدرسے میں پڑھانا شروع کر دیتے ہیں یا پھر وہ حمد و نعت خوانی شروع کر دیتے ہیں۔ ایک یکساں تعلیمی نظام جوطلبا کی بہتر رہنمائی کرے اور اس تعلیمی نظام میں جہاں سائنس، ٹیکنالوجی، انگلش، کمپیوٹر کو اہمیت دی جائے وہاں اردو اور اسلامیات اور دیگر دینی علوم کو بھی خصوصی اہمیت دی جائے اور یہ تعلیمی نظام رٹا سسٹم کا سخت مخالف ہو پورے پاکستان کا تعلیمی نظام ایک ہی ہو تاکہ ہم نسلی اورصوبائی عصبیت سے نکل سکیں اور ہم قابل اور باصلاحیت افراد پیدا کر سکیںاس سلسلے میں حکومت کا کردار انتہائی اہمیت کا حامل ہے اگر حکومت پورے پاکستان میں یکساں نظام تعلیم رائج کرتیہے تو ہمارے بہت سے مسائل خود بخود حل ہوتے جائیں گے جن میں نوجوانوں میں اعتماد کی کمی، نوجوان نسل کے نفسیاتی مسائل، بہتر مواقع کا میسر نہ ہونا، باصلاحیت افراد کی کمی وغیرہ شامل ہیں۔

فیاض محمود، رحیم یارخان

اپنا تبصرہ بھیجیں