آبادی اور وسائل میں توازن ہی ترقی و خوشحالی کا ضامن“
بڑھتی آبادی ترقی پذیر ملکوں کے وسائل ہڑپ کر رہی ہے
محکمہ بہبود آبادی متوازن و خوشحال خاندان کیلئے سرگرم عمل
بڑھتی ہوئی آبادی ترقی پذیر ملکوں کے وسائل کو ہڑپ کرتی جا رہی ہے۔ آبادی اور وسائل میں عدم توازن کی وجہ سے معاشی، معاشرتی اور سماجی مسائل پیدا ہو رہے ہیں جس سے نہ صرف ملکی ترقی کا پہیہ رُک جاتا ہے بلکہ خاندان پر بھی دباﺅ بڑھ جاتا ہے۔ کم آمدنی والے خاندان اس کا شکار زیادہ ہوتے ہیں۔ آمدنی کم ہونے کی وجہ سے خاندانی جھگڑے، ڈپریشن، ذہنی دباﺅ اور ماں اور بچے کی صحت پر بھی بُرے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ پاکستان آبادی کے لحاظ سے دنیا کا پانچواں بڑا ملک ہے۔ پاپولیشن اینڈ گروتھ ریٹس آف یونائیٹڈ نیشن کے ڈیٹا کے مطابق چائنہ کی آبادی 1454ملین، انڈیا کی آبادی 1415ملین، یوایس اے کی آبادی 334ملین، انڈونیشیا کی آبادی 281ملین جبکہ پاکستان کی آبادی 241.5ملین ہوگئی ہے۔ نائیجیریاکی آبادی 219ملین، برازیل کی آبادی 216ملین اور بنگلہ دیش کی آبادی 169ملین ہے۔ ایک مخصوص جغرافیائی اکائی میں آبادی میں تبدیلی کو مقررکردہ دورانیے شرح پیدائش واموات اور ہجرت(مائیگریشن) کے ذریعے پرکھا جاتا ہے۔ آبادی میں اضافہ یا کمی کی صورت میں منفی یا مثبت دونوں طرح کی بڑھوتی ہوسکتی ہے۔
2023ءکی مردم شماری میں ملک بھر کی کل آبادی 241.5ملین ریکارڈ کی گئی۔ اس مردم شماری میں گلگت بلتستان اور آزادکشمیر شامل نہیں۔2017ءسے 2023ءتک پاکستان کی آبادی میں سالانہ 2.55فی صد اضافہ ہوا ہے۔ ادارہ شماریات کے مطابق پنجاب کی آبادی 12کروڑ 76لاکھ نفوس پر مشتمل ہے۔ سندھ کی آبادی 5کروڑ 56لاکھ 90ہزار، کے پی کے کی آبادی 4کروڑ سے زائد جبکہ بلوچستان کی آبادی ایک کروڑ 48لاکھ 90ہزار افراد پر مشتمل ہے۔ اسلام آباد کی آبادی 23لاکھ 60ہزار سے زیادہ ہے۔ اگر آبادی میں اضافہ اسی شرح سے ہوتا رہا تو 2030میں پاکستان کی آبادی 260ملین اور 2050ءمیں 330ملین تک پہنچ جائے گی جوکہ ایک تشویشناک امر ہے۔
تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی ہمارے ملک کا ایک سنگین مسئلہ ہے۔آبادی اور وسائل میں توازن ہی ہماری ترقی اور خوشحالی کا ضامن ہے اس کے ساتھ صحت مند معاشرہ کی بھی بنیاد ہے۔گرافک اینڈ ہیلتھ سروے آف پاکستان 2017-18کے مطابق صحت و تعلیم سمیت آبادیاتی اشاریوں جیسے امور میں پاکستان کی پیش رفت خاصی سست ہے پنجاب میں تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی کے باعث خوراک، تعلیم و صحت کی سہولیات سمیت ملازمتوں اور انفراسٹرکچر کی مانگ میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ شرح آبادی میں غیرمعمول اضافے کا ایک نتیجہ غذائیت میں کمی بھی ہے جس کی وجہ سے اکثر بچے وزن کی کمی کا شکار رہتے ہیں۔2فی صد سے زائد آبادی کے نتیجے میں 2040تک پنجاب میں ملازمت کے 66ملین مواقع، 3500نئے پرائمری سکول اور 7ملین مزید رہائش گاہوں کی ضرورت ہوگی۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ زچہ و بچہ کی اموات کی قابل تشویش شرح پر قابو پایا جائے اور سب کیلئے لازمی غذائیت اور تعلیم کی فراہمی نیز صاف پانی تک رسائی کے ساتھ ساتھ غربت کے خاتمے کے اقدامات کوبھی یقینی بنایاجائے۔ محکمہ بہبود آبادی پنجاب مختلف آگاہی پروگراموں، سیمینارز اور فیملی میڈیکل کیمپس کے ذریعے خاندانی منصوبہ بندی کی سہولیات گلی اور محلے کی سطح پر عوام کی دہلیز تک پہنچا رہا ہے۔ یونین کونسل، تحصیل اور ضلعی سطح پر تمام سٹیک ہولڈرز خصوصاً علمائے کرام اور صحافی برادری کے تعاون سے خاندانی منصوبہ بندی کا پیغام عام کیا جار ہا ہے۔ محکمہ بہبود آبادی کا بنیادی وژن خوشحال، صحت مند، تعلیم یافتہ اور نالج بیسڈ معاشرے کی تشکیل ہے جہاں پر ہر خاندان منصوبہ سازی کے مطابق قائم ہو، جس کے ارکان صحت مند ہوںاور تمام شہریوں کو اپنی زندگیوں میں بہتری لانے کیلئے چوائس اور مواقع فراہم کئے جائیں۔ صوبہ میں محکمہ بہبود آبادی کا فیملی پلاننگ کا ایک جامع اور مربوط نیٹ ورک کام کر رہا ہے محکمہ بہبودآبادی لوگوں کے رویوں میں تبدیلی لانے کیلئے مصروف عمل ہے۔ عوام الناس کے سماجی رویوں میں بہتری لانے کیلئے ماہرین خاندانی منصوبہ بندی جدید اور محفوظ طریقہ جات کے ذریعے زچہ و بچہ کی صحت، پیدائش میں مناسب وقفہ، ماں کے دودھ کی اہمیت، جنسی، ذہنی و جسمانی صحت کے حوالے سے مختلف ذرائع ابلاغ جن میں الیکٹرانک و پرنٹ میڈیا کے ساتھ ساتھ سوشل و ڈیجیٹل میڈیا پر کامیابی سے عوام کو آگاہی فراہم کر رہاہے۔ اس کے علاوہ محکمہ بہبود آبادی ضلعی سطح پر پتلی تماشوں اور ڈراموںکے ذریعے بھی عوام الناس میں شعور اجاگر کر رہا ہے۔ پتلی تماشوں کا انعقاد دیہی علاقوں میں کیا جا رہا ہے جس کے حوصلہ افزاءنتائج سامنے آئے ہیں۔مختلف علاقوں کے مکینوں کو خاندانی منصوبہ بندی کے بارے میں آگاہی فراہم کرنے کے لیے مقامی زبانوں جیساکہ پنجاب، سرائیکی، پوٹھوہاری، ہندکو وغیرہ میں بھی پیغامات کی تشہیر کو یقینی بنایاجا رہا ہے۔ محکمہ بہبودآبادی کا بنیادی مقصد مردوخواتین کیلئے منصوبہ بندی کے مستقل طریقوں کی فراہمی ، عوام میں خاندانی صحت اور فلاح و بہبود کا شعور اجاگر کرنا، بچوں کی پیدائش کے دوران صحت مند وقفہ کی ترغیب دینا، صحت مند ازدواجی زندگی کیلئے باہمی مشاورت کا کردار ادا کرنا، دوراورپسماندہ علاقوں میں ماں اور بچے کی صحت کے حوالے سے دستیاب سہولیات کی فراہمی ، مانع حمل ادویات اور اس سے متعلقہ سہولیات بہم پہنچانا اور خاندان کیلئے مرد کی ذمہ داری کو اجاگر کرنا شامل ہے۔
1300آئمہ کرام اور خطباءپنجاب کے 10اضلاع میں جمعہ کے خطبوں اور اجتماعات کے دوران چھوٹے خاندان اور وقفہ کی اہمیت اجاگر کرنے کیلئے مصروف عمل ہیں۔خاندانی منصوبہ بندی سے متعلق معلومات عام کرنے کیلئے ہیلپ لائن 1793کا قیام عمل میں لایاگیا جس سے 15,213شہری مستفید ہوئے۔ خاندان منصوبہ بندی کے کلائنٹس بالخصوص نوجوانوں کو نفسیاتی مسائل سے متعلق مشاورت کی فراہمی کیلئے 24یوتھ ہیلتھ سنٹرزاور خاندانی منصوبہ بندی کی سہولیات کی مردوخواتین کلائنٹس تک آسان رسائی ممکن بنانے کیلئے پنجاب بھر کے دیہی مراکز صحت اور بنیادی مراکز صحت پر 820فیملی پلاننگ کااﺅنٹرز کا قیام عمل میں لایاگیا۔ کلائنٹس کو خاندانی منصوبہ بندی کی تمام خدمات ایک ہی چھپ تلے فراہم کرنے کیلئے 9نئے ماڈل فیملی پلاننگ سنٹرز قائم کئے گئے۔ یونیورسٹیوں کے وائس چانسلرز کے ساتھ پنجاب کی آبادی سے متعلقہ نئی پالیسی کی تشکیل پرمشاورتی اجلاس کا انعقاد کیا جا رہا ہے۔4اضلاع میں پری میریٹل کونسلنگ کا آغاز کیاگیا اور مشاورت کے بعد 35,000 کلائنٹس کی شادیوں کا انعقاد کیاگیا۔ PESSI،PPIFاور NGOsFP کی جانب سے شادی شدہ جوڑوں کو مانع حمل ادویات سمیت خاندانی منصوبہ بندی کی خدمات مفت فراہم کی گئیں۔ اس کے علاوہ پرائمری اور سیکنڈری ہیلتھ ڈیپارٹمنٹ اور سپیشلائزڈ ہیلتھ کیئرڈیپارٹمنٹ کو مانع حمل ادویات کی طلب کے مطابق دی گئیں۔ حکومت سے منظوری حاصل کرنے کے بعد CSکیسز کیلئے مراعات/فنانسنگ اور IRCمیں اضافہ ہوا۔ صوبہ بھر کے تمام اضلاع میں آﺅٹ ریچ کارکنوں کو نئی یونیفارم مہیا کی گئی۔محکمہ بہبود آبادی نے سال 2023ءمیں 117موبائل یونٹس کے ذریعے دور دراز علاقوں میں 9,000کیمپس کا انعقاد کیا جس سے 5,25,000کلائنٹس مستفید ہوئے۔ 14یوتھ ہیلتھ سنٹرز کی جانب سے نوجوانوں کو خاندانی منصوبہ بندی کے بارے شعور فراہم کرنے کیلئے مختلف سکولوں اور کالجوں میں 800لیکچرز کا انعقاد کیاگیا۔ نفسیاتی مسائل میں مبتلا 1100نوجوان کلائنٹس کو اہم مشورہ جات اور تمام تربیتی مراکز میں 422افسران اور 9350پیرامیڈیکس کو ریفریشیر ٹریننگ دی گئی۔ خاندانی منصوبہ بندی اور معاشرے کی بہترانداز میں فلاح و بہبود ممکن بنانے کیلئے ڈاکٹروں کے ذریعہ میڈیکل اور نرسنگ کے طلباءکو 2000اورینٹیشن لیکچرز دیئے گئے۔ 129فیملی ہیلتھ کلینکس کے ذریعہ 50000مانع حمل سرجری کی گئی۔ 1,344,192نوبیاہتے جوڑوں کی آﺅٹ ریچ ورکرز کے ذریعے رجسٹریشن کی گئی۔ 6,483,152کلائنٹس کو خاندانی منصوبہ بندی سے متعلق مشورہ اور خدمات کی مفت فراہمی کے علاوہ 3,170,39عام کلائنٹس کو مفت ادویات دی گئیں۔ پائیدار ترقی کے اہداف کا حصول ممکن بنانے کیلئے FP2030کے تحت کنٹری انگیجمنٹ ورکنگ گروپس اور ٹیکنیکل ورکنگ گروپ کے اجلاس میں شرکت کی گئی۔ محکمہ بہبود آبادی کے گرافرز کیلئے پہلی ڈیموگرافی کانفرنس 2023کا لاہور میں انعقاد کیاگیا۔ PWTIلاہور ، ساہیوال ، فیصل آباد اور ملتان میں 1600افسران کی صلاحیتوں میں مزید نکھار لانے کیلئے ریفریشر ٹریننگ کا انعقاد اور محکمہ بہبود آبادی کے ماہر نفسیات کی جانب سے نوجوان نسل کی صحت اور ذہنی تناﺅ جیسے مسائل پر 800لیکچرز دیئے گئے۔ ماڈل فیملی ویلفیئر سنٹرز کی جانب سے متوازن غذا اور صحت کی اہمیت سے متعلق شعور اجاگر کرنے کیلئے 9اضلاع میں 9غذائی ماہرین کی تعیناتی کی گئی۔پنجاب پاپولیشن انوویشن فنڈ کی جانب سے خاندانی منصوبہ بندی سے متعلق آگاہی عام کرنے کیلئے ڈرامہ سیریز اور شارٹ ٹیلی فلمز کی تیاری پر کام جاری ہے۔ADPسکیم کے تحت ”اسٹرجٹک پلاننگ یونٹ“ قائم کیاگیا۔ 35,000کلائنٹس کی پری میریٹل کونسلنگ کی گئی۔2023ءمیں 4ڈیجیٹل کانفرنسز کا انعقادکیاگیا۔ محکمہ بہبود آبادی ، خاندانی منصوبہ بندی کے علاوہ عوام الناس کو مہلک بیماریوں سے متعلق شعور کی فراہمی کیلئے بھی قابل ذکر کردار ادا کر رہا ہے جس میں محکمہ بہبود آبادی صحت عامہ کے تحفظ کو یقینی بنانے کیلئے ڈینگی، نمونیا،وبائی امراض سے متعلق ویکسینیشن، متوازن غذا، ماں بچہ کی صحت سے متعلق اہم معلومات اور ماں کے دودھ کی اہمیت سمیت دیگر اہم مسائل سے آگاہی عام کی جا رہی ہے۔
محکمہ بہبود آبادی نے خاندانی منصوبہ بندی اور ماں اور بچے کی صحت سے متعلق آگاہی فراہم کرنے کیلئے کئی ای بکس بھی تیار کی ہیں جن میں ”بچے کیلئے ماں کا دودھ ایک نعمت“، ”ملک و قوم کی شان صحت مند نوجوان“ ، ”بانجھ پن“، ”فتاوی“ ، ”تنظیم خاندان اسلام کی نظر میں“ ، ”لڑکیوں میں نوعمری کے مختلف مراحل اور مسائل“ ، ”فیملی پلاننگ اور اسلام“ ، ”اسلام اور خاندانی منصوبہ بندی“ اور ”وسوسے اور حقیقتیں“ شامل ہیں ان سے نوجوان، خواتین اور بچیاں راہنمائی حاصل کرسکتی ہیں۔
اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ تعلیم معاشی ترقی میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے۔ پڑھے لکھے مرد اور خواتین بڑے خاندان کی مشکلات کا اندازہ اور بڑھتی ہوئی آبادی کے نتائج کو سمجھ سکتے ہیں۔ وہ چھوٹے خاندان کو اختیار کرسکتے ہیں خصوصاً پڑھی لکھی اور باروزگار خاتون اپنی صحت کے بارے میں زیادہ فکرمند ہوتی اور باربار حمل کے عمل سے گزرنے سے گریز کرتی ہیں جس سے برتھ ریٹ کو کم کرنے میں مدد ملتی ہے۔ بعض معاشروں میں بچیوں کی شادی کم عمری میں کر دی جاتی ہے اور خواتین کو صرف بچے پیدا کرنے کا ذریعہ سمجھا جاتا ہے۔ خواتین کو بااختیار بناکر ہی آبادی کی شرح میں کمی کی جاسکتی ہے۔ تمام ممالک کو چاہیے کہ وہ خواتین کو تعلیم، روزگار کی فراہمی اور صنفی تفاوت کو دور کرنے کیلئے اقدامات کریں۔
ڈائریکٹر جنرل بہبود آبادی پنجاب ثمن رائے نے جب سے یہ عہدہ سنبھالا ہے نے محکمہ کو ایک نئی جہت دی ہے اور اس کی کارکردگی سب کے سامنے ہے۔ انہوں نے محکمہ کو ایک نئی پہچان دی ہے پہلے یہ محکمہ روایتی انداز میں کام کر رہا تھا۔مگر آج ثمن رائے کی مدبرانہ سوچ اور متحرک قیادت کی بدولت محکمہ خوشحال معاشرے کے قیام میں ہراول دستے کا کردار ادا کر رہا ہے۔ انہوں نے خواتین کی ویلفیئر کیلئے کئی شاندار پروگرام تشکیل دیئے ہیں۔ صوبائی وزیر صحت و بہبود آبادی ڈاکٹر جمال ناصر کی ہدایات کی روشنی اور ویژن کے مطابق صحت عامہ کے تحفظ اور تولیدی صحت کی سہولیات کا دائرہ کار گراس روٹ لیول تک بڑھانے کیلئے ہرممکن اقدامات اٹھائے جا رہے ہیں۔ نگران وزیراعلیٰ محسن نقوی جہاں دوسرے شعبوں کی ترقی کیلئے اقدامات کر رہے ہیں وہ محکمہ بہبود آبادی کو تمام وسائل بھی فراہم کر رہے ہیں تاکہ آبادی کو وسائل کے مطابق رکھاجاسکے اور حقیقی معنوں میں ایک خوشحال معاشرہ تشکیل پاسکے جہاں تمام لوگوں کو ترقی اور آگے بڑھنے کے یکساں مواقع میسر ہوں۔ محسن نقوی نے کہا ہے کہ بلاشبہ تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی کرہ ارض پر انسانی بقاءکے لئے ناصرف خطرہ ہے بلکہ ماحولیات تبدیلیوں ، خوراک ، پانی اور فضا سمیت متعدد مسائل میں اضافہ کی وجہ بھی ہے۔اس امر میں کوئی دو رائے نہیں کہ وسائل کے مطابق کنبے کی تشکیل متوازن خاندان کی مضبوط بنیاد اور صحت مند معاشرے کیلئے متوازن خاندان انتہائی ضروری ہے اور یہی خوشحال پاکستان کے خواب کو عملی تعبیر دینے کیلئے بھی ناگزیر ہے,
تحریر: جاوید یونس