ذوالفقار علی بھٹو ایک عظیم شخصیت ۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 4 اپریل،ا 41 سال پہلے آج کے دن پاکستان کے منتخب وزیر اعظم اور پاکستان پیلز پارٹی کے بانی چیئرمین شھید ذوالفقار علی بھٹو کو تختہ دار پر چڑھا کر شھید کیا گیا،
اس دن دنیا کے اس عظیم لیڈر کا 41واں یوم شھادت ہے مگر پوری دنیا کرونا وائرس کا افراتفری پہیلا ہوا ہے جسکی وجہ یہ پہلا موقعہ ہوگا جو کرونا وائرس کی وجہ سے گڑھی خدا بخش بھٹو سمیت ملک کے کسی بھی حصے میں شہید بھٹو کی برسی کو اجتماعی طور نہیں منایا جا رہا ہے اور نہ ہی کوئی تقریبات ہو رہے ہیں. ماضی میں شہید ذوالفقار علی بھٹو کا برسی انتہائی عقیدت اور احترام سے منایا جاتا رہا جس میں پاکستان کے ہر کونے سے لاکھوں لوگ گڑھی خدا بخش بھٹو پہنچ کر اپنے عظیم لیڈر کو خراج عقیدت پیش کرتے تھے مگر اس بار کرونا وائرس کی وبا کی وجہ پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے تمام سیاسی اور سماجی سرگرمیاں معطل کر دی ہیں جسکی وجہ سے شہید بھٹو کا برسی پروگرام بھی منسوخ کر دیا گیا ہے۔ مگر ان حالات کے باوجود بھی شھید ذوالفقار علی بھٹو کو نہیں بھلایا جا سکتا آج کے دن پیپلز پارٹی سے تعلق رکھنے والے راہنما اور جیالے اپنے گھروں میں اپنے عظیم لیڈر کو دعائیہ کلمات اور قران خوانی کے ذریعے ضرور یاد رکھینگے اس مرتبہ پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری اور دیگر قیادت کرونا وائرس سے نمٹنے کے لیئے مصروف ہیں۔بہرحال آج کے دن شہید ذوالفقار علی بھٹو کے سیاسی زندگی پر کچھ نہ کچھ ضرور لکھنا پڑتا ہے شھید ذوالفقار علی بھٹو نے معاہدہ تاشقند کے بعد ایوب خان سے اختلافات کی وجہ سے وزیر خارجہ کے عہدے سے استعیفیٰ دے دیا اس نے ایوب شاہی کو چیلنج کرنے کے لیئے عملی سیاست میں آنے کا فیصلہ کیا اس طرح انہوں نے1967 میں پاکستان پیپلز پارٹی کا بنیاد ڈالا شھید بھٹو ایک زیرک اور مدبر سیاستدان تھے انہوں نے اصولوں پر کبھی بھی سودیبازی نہیں کی اور آخری دم تک سامراجی قوتوں سے لڑتے رہے۔آج قائد عوام ذوالفقار علی بھٹو کا 41واں یوم شھادت ہے اس موقعے پر انکی سیاسی زندگی کا جائزہ لینا ضروری ہے جب 1971 میں جنرل یحیٰ خان کی بد اعمالیوں اور غلطیوں کی وجہ سے ملک دو لخت ہوا تو باقی ماندہ پاکستان کا اقتدار ذوالفقار علی بھٹو کے حوالے کیا گیا جس وقت اقتدار شھید بھٹو کے حوالے کیا گیا اس وقت پاکستان اپنے بد ترین دور سے گذر رہا تھا اور پاکستان کا وجود چکنا چور ہو چکا تھا 1971 کے جنگ کے بعد فوج کا مورال بھی ختم ہو چکا تھا اس لیئے پاکستانی قوم کو ایک مسیحا کی ضرورت تھی اور عوام کی امیدیں فقط ذوالفقار علی بھٹو میں جمیں ہوئی تھیں۔ ذوالفقار علی بھٹو ایک مسیحا کے روپ میں سامنے آگئے انہوں نے اقتدار سنبھالتے ہی خارجہ پالیسی پر زیادہ توجہ دیا انکی ذھانت اور دور اندیشی کی وجہ سے عالمی دنیا کے اندر پاکستان کا کھویا ہوا ساکھ اور وقار دوبارہ بحال ہوا چین اور لبیا کے علاوہ دیگر عرب ممالک بھی پاکستان کے دوست بن گئے. ذوالفقار علی بھٹو نے اپنے قائدانہ صلاحیتوں اور سیاسی بصیرت کے بدولت شملہ معاہدے کے تحت ھندوستان سے نوے ھزار فوجی جوان اور پانچ ھزار مربع میل زمین آزاد کرواکر اہم کارنامہ سرانجام دیا ہے شہید بھٹو نے اپنے دور حکومت میں مختلف ترقیاتی منوصوبوں پر عمل شروع کیا ان میں 1973 کے متفقہ آئین کے علاوہ پاکستان سٹیل مل کا قیام، ٹیکسیلا میں ہیوی میکینیکل کامپلیکس، میٹرک تک تعلیم مفت، مزدورں کے بھلائی کے لیئے لیبر پالیسی، بے زمین ہاریوں میں مفت زمین کی تقسیم اور لاکھوں لوگوں بیرون ملک میں روزگار دلانے کے علاوہ بھت سارے منصوبے شامل ہیں اس کے علاوہ عالم اسلام کو ایک پلیٹ فارم پر کٹھا کرنے کے لیئے 1974 میں اسلامی سربراہی کانفرس کا انقعاد کروا نا شہید بھٹو کا بہت بڑا کارنامہ ہے۔ 1960 اور 1970 کے دھائی میں دنیا کے اندر بہت سارے اھم سیاسی لیڈر پیدا ہوئے جن میں سعودی عرب کے شاھ فیصل، شام کے صدر حافظ الاسد، ایران کے امام خمینی، مصر کے جمال عبد الناصر،انور سادات، اردن کے شاھ حسین، آمریکا کے صدر جان ایف کینیڈی، جنوبی افریکا کے نیلسن منڈیلا، انڈونیشیا کے سوئیکارنو، پی ایل او کے سربراہ یاسر عرفات، لبیا کے کرنل قذافی، ھندوستان کے مسز اندرا گاندھی، برطانیہ کے مارگریٹ تھیچر، ملائیشیا کے مھاتیر محمد اور الجزائر کے صدر بومدین شامل ہیں۔ لیکن سیاسی تاریخدانوں کا خیال ہے ذوالفقار علی بھٹو دنیا کے دس بڑے ملکوں کے علاوہ ایشیا کے سب سے بڑے لیڈر تھے۔ ذوالفقار علی بھٹو بیشمار صلاحیتوں کے مالک تھے انکی یاداشت بھت تیز اور حیران کرنے والا تھا انکو تمام پڑھے کتاب یاد رہتے تھے اور ٹیبل ٹاک کے بڑے ماہر تھے اور اپنی مخالفین کو شکست دینے کی صلاحیت رکھتے تھے اور عوامی جلسوں میں عوام کے دلوں کو جیتنے کا فن بھی رکھتے تھے ذوالفقار علی بھٹو انتہا درجے کے حاضر دماغ تھے انکی حاضر دماغی کے دو مثال پیش کرتا ہوں جب وہ 1963 میں بحیثیت وزیر خارجہ آمریکا کے دورے پر گئے تو انکی اس وقت کے امریکی صدر جان ایف کینیڈی سے ملاقت ہوئی صدر کینیڈی بھٹو صاحب کے ذہانت سے بہت متاثر تھے دوران گفتگو صدر کینیڈی نے کہا مسٹر بھٹو اگر آپ امریکی شہری ہوتے تو آپ یقینن امریکا کے وزیر ہوتے اس پر بھٹو صاحب نے جواب دیا مسٹر پریزیڈنٹ اگر میں آمریکا کا شہری ہوتا تو میں منسٹر نہیں آمریکا کا صدر ہوتا صدر کینیڈی پھر کہا مسٹر بھٹو آپ جانتے ہیں آج آپ دنیا کے پاور ھیڈ کوارٹر وائیٹ ھائوس میں کھڑے ہوئے ہیں اس پر بھٹو صاحب نے جواب دیا ہاں مجھے پتہ ہے آج وائیٹ ھائوس میرے قدموں کے نیچے ہے یہ تھی شہید بھٹو کی ذہانت اور حاضر دماغی کی مثالیں ذوالفقار علی بھٹو ایک بھادر اور بیباک لیڈر تھے انکو اپنے رفقاء مشورہ دیتے تھے کہ آپ امریکا سے مت ٹکراء کیونکہ امریکن انتقام لینے کے معاملے میں بڑے سنگدل ہوتے ہیں اس کے علاوہ سرمایہ داروں کے خلاف بھی مت بولو کیونکہ تاجر اور سرمایہ دار طبقہ آپ کے خلاف ہو جائینگے اور مذھبی جماعتوں کے خلاف بھی بات نہ کرو اور فوج کو بھی بیرکوں تک محدود نہ کرو ورنہ فوج اور مذھبی جماعتیں آپکا گھیراء تنگ کرینگے اس لیئے کچھ نرمی کریں تاکہ یہ سسٹم چلتا رہے اس پر بھٹو صاحب اپنے دوستوں کو جواب میں کہتے تھے میرا بھی دل کہتا ہے میں مصلحت سے کام لوں مگر کیا کروں جب میں لاڑکانہ، لاھور، پشاور اور بلوچستان کے شہروں اور پسماندہ علاقوں میں رہنے والے غریب مزدوروں اور بے سہارا لوگوں کی حالت دیکھتا ہوں تو میں اپنے آپ سے سوال کرتا ہوں کیا ذوالفقار تم بھی مصلحت سے کام لوگے؟ تو پھر غریب اور بے سہارا قوم کا تقدیر کون بدلیگا بھرحال شہید بھٹو کے خلاف سازشوں کا آغاز اس وقت شروع ہوا جب امریکا کے وزیر خارجہ ھینری کسنجر 1976 میں پاکستان کے دورے پر آیے تھے انھوں نے بھٹو صاحب سے اپنے ملاقات کے دوران پاکستان کو ایٹمی قوت بنانے پر اپنے تحفظات کا اظھار کیا شھید بھٹو نے ھینری کسنجر کا بات ماننے سے انکار کر دیا جب امریکی وزیر خارجہ واپسی کے وقت جھاز پر سوار ہو رہے تھے تو انہوں نے بھٹو صاحب کو مخاطب ہو کر کہا جب ٹرین سامنے سے آئے تو عقلمند انسان پٹڑی سے ہٹ جاتا ہے مگر تم یاد رکھو ہم تمہیں نشان عبرت بنائینگے بھرحال شہید بھٹو اپنے فیصلے پر ڈٹے رہے جسکی وجہ سے سامراجی قوتوں نے بھٹو صاحب کو ختم کرنے کا اصولی طور فیصلہ کر لیا. جب 1977 میں شہید بھٹو نے عام انتخابات کروائے تو اس وقت پاکستان پیپلز پارٹی بھاری اکثریت سے کامیاب ہوئی تھی مگر حذب اختلاف کے جماعتوں سے تعلق رکھنے والے قومی اتحاد نے دھاندلی کے الزام لگا کر نتائج کو ماننے سے انکار کر دیا اور بھٹو حکومت کے خلاف احتجاجی تحریک کا آغاز کیا،
اس طرح ملک کے اندر جلاء گھیراء کا دور شروع ہوا ان حالات کو دیکھ کر شہید بھٹو نے اپوزیشن سے بات چیت کا فیصلہ کیا شہید بھٹو کی سیاسی بصیرت اور تدبر کی وجہ سے قومی اتحاد راہنما مذاکرات اور بات چیت کے لیئے آمادہ ہوئے اس طرح قومی اتحاد کے لیڈروں کو مذاکرات کے ٹیبل پر لاکر شہید بھٹو نے اہم کارنامہ سر انجام دیا اس طرح مذاکرات اور بات چیت کے ذریعے پاکستان پیپلز پارٹی اور پاکستان قومی اتحاد کے درمیان ملک اندر دوبارہ الیکشن کروانے پر اتفاق ہو گیا اور 4 جولائی 1977 کو معاھدے کا ڈرافٹ بھی تیار ہو گیا تھا مگر بد قسمتی سے اس وقت کے چیف آف آرمی اسٹاف جو کہ پہلے سے ہی سامراجی قوتوں کے ساتھ گٹھ جوڑ کر کے قتدار پر قبضہ کرنے کا منصوبہ بنا چکا تھا جنرل ضیا اپنے سازشی منصوبے کے تحت 5 جولائی 1977 کو رات کے اندھیرے میں بھٹو صاحب کی منتخب حکومت کو ختم کر کے ملک کے اندر مارشل لاء نافظ کر دیا اور منتخب وزیر اعظم کو گرفتار کر کے مری منتقل کیا گیا اس طرح ملک کے اندر دوبارہ آمریت کے دور کا آغاز ہوا جنرل ضیاء کا آمریت پاکستان کے تاریخ کا طویل ترین آمریت ثابت ہوا اور ملک دوبارہ ایک دلدل میں پھنس گیا بہرحال جنرل ضیاء قائد عوام ذوالفقار علی بھٹو کا ذاتی دشمن بن چکا تھا اس لیئے انہوں نے شہید بھٹو کو جسمانی طور ختم کرنے کا فیصلہ کر لیا تھا اسی طرح جنرل ضیاء نے اپنے آقائوں کے کہنے پر بھٹو صاحب کو ایک جھوٹے قتل کے مقدمے میں ملوث کرکے آخرکار 4 اپریل 1979 پھانسی دیکر شیھید کیا۔ ذوالفقار علی بھٹو کو سامراجی قوتوں کی سازش سے جسمانی طور ضرور ہم سے جدا کیا گیا مگر شہید بھٹو آج بھی پاکستان سمیت پوری دنیا کے کروڑوں غریب اور طبقوں کے دلوں پر راج کررہا ہے آج بھی پاکستان میں سیاست کا محور شہید بھٹو کے حامی اورانکے مخالف گروپوں کے درمیان چل رہا ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو کا دور پاکستان کی تاریخ کا اہم اور سنہری دور تھا جسے ہمیشہ یاد رکھا جائیگا آج اگر پاکستان ایٹمی طاقت ہے تو شہید ذوالفقار علی بھٹو کی وجہ سے ہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی آج بھی پاکستان کی سب سے بڑی جماعت ہے پی پی پی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کو چاہیئے پارٹی کو مزید مضبوط کرنے کے لیئے پارٹی کے پرانے اور قربانی دینے والوں کو زیادہ اہمیت دیں جنہوں نے ہر آمر اور جابر کا ڈٹ کر مقابلا کیا اور پارٹی کے لیئے بے انتہا قربانیاں دی ہیں آخر میں ہم پی پی پی کے شریک چیئرمین جناب آصف علی زرداری کی صحتیابی کے لیئے دعاگو ہیں:
تحریر: گل محمد خان جکھرانی ممبر سندھ کونسل پاکستان پیپلز پارٹی Email gmjakhrani@hotmail.com موبائل/ واٹس ایپ نمبر: 03003514884