ذخیرہ اندوزی چھوڑو اور توبہ کرو،،،،،،،
ہم سے پہلے قومیں اس لیے برباد ہوئی وہ ناپ تول میں کمی کرتی تھیں۔وہ ذخیرہ اندوذی کرتی تھیں۔ وہ ہم جنس پرستی جیسے گھناؤنے افعال میں ملوث تھیں۔
ذخیرہ اندوزی کی ممانعت نبی کریم ﷺ کی ایک سے زائد احادیث کی صورت میں موجود ہے۔
جیسا کہ حضرت عمر ؓ سے روایت ہے کہ جناب نبی کریمﷺنے فرمایا: جو شخص کھانے پینے کی چیزوں میں ذخیرہ اندوزی کرکے مسلمانوں پر مہنگائی کرتا ہے تو اﷲتعالیٰ اسے کوڑھ کے مرض میں مبتلاء کر دیتے ہیں (رواہ ابن ماجہ)
ایک اور حدیث حضرت امامہ ؓ سے روایت ہے کہ جناب نبی کریم ﷺنے فرمایا:جو شخص چالیس دن تک غلہ مہنگائی کے لحاظ سے ذخیرہ کرے پھر غلطی کا احساس ہونے پر وہ تمام غلہ صدقہ کر دے پھر بھی اس کی غلطی کا کفارہ ادا نہیں ہوتا۔
ایک اور روایت میں آتا ہے
حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا’’ نفع کمانے والے کو رزق دیا جاتا ہے اور ذخیرہ اندوزی کرنے والے پر لعنت ہوتی ہے‘‘ (رواہ ابن ماجہ والدارمی)
اس سے ثابت ہوا کہ ذخیرہ اندوزی کرنا صرف اور صرف اللہ تعالی کی لعنت کو خریدنا ہے۔
اب آتے ہیں ناپ تول میں کمی کرنے والوں کی طرف تو حضرت شعیب ع کی قوم پر عذاب الہی صرف اس وجہ سے آیا کیونکہ وہ ناپ تول میں کمی کرتی تھی آپ علیہ سلام کے سمجھانے کے باوجود وہ نہ مانی اور آپ نے ان کے لیے بد دعا فرمائی۔
اچھا اے میری قوم کے لوگو! تم کرتے رہو، جو کرنا چاہتے ہو اور میں اپنا فیصلہ اللہ تعالیٰ پر چھوڑ تا ہوں ۔جلد پتاچل جائے گا کہ کون سچّا ہے اور کون جھوٹا ؟اور کس پر رُسوا کن عذاب نازل ہوتا ہے ؟حضرت شعیب ؑ نے ہاتھ اُٹھا ئے اور دُعا مانگی: ’’ اے میرے رَبّ! میرے اور میری قوم کے درمیان فیصلہ فرمادے، اے اللہ !تُو ہی بہترین فیصلہ کرنے والا ہے۔‘‘
اللہ تعالیٰ نے حضرت شعیب ؑ کی دُعا قبول فرمائی اور اس قوم پر تین طرح کے عذاب نازل ہوئے۔
1۔ صیحہ(چیخ)،
2۔ رجفہ(زلزلہ)،
3۔عذاب یوم الظلّہ (سائے والے دن کا عذاب)۔
ان پر عذاب کی یہ صورت تھی کہ اوّل اس بستی میں سخت گرمی پڑی، جس سے سب لوگ بلبلا اُٹھے ،پھر ان کے قریب جنگل میں ایک گہرا بادل چھا گیا۔جس سے جنگل میں سایہ ہوگیا، یہ دیکھ کر تمام بستی والے اس سائے کے نیچے جمع ہوگئے ،اس طرح یہ خُدائی مجرم خود ہی اپنی ہلاکت کی جگہ پہنچ گئے،جب تمام لوگ جمع ہوگئے توان پر پہلے بادل سے آگ برسنے لگی جس سے زمین میں زلزلہ برپاہونے لگا۔ بادل سے آگ کے برستے ہی سخت چنگھاڑ کی آوازبھی آئی، جس سے تمام افراد ہلاک ہو گئے۔
قوم لوط کا واقعہ بھی کسی سے ڈھکا چھپا نہیں کہ اللہ تعالی نے ان کی قوم کے اوپر اس وجہ سے عذاب نازل کیا کیونکہ وہ ہم جنس پرستی جیسے غلط افعال میں مشغول تھے اور حضرت لوط علیہ سلام کے منع کرنے کے باوجود آپ علیہ سلام کے حکم کو جھٹلایا تو اللہ تعالی کی پکڑ میں آئے اور اللہ تعالی نے پوری قوم کو غرق کر دیا۔
اب ہمارے معاشرے میں یہ تینوں بیماریاں سرایت کر چکے ہیں۔ جب صبح راشن کا سامان لینے جاتے ہیں تو آٹا کا تھیلا جو عام دنوں میں 8 سو کا ہو وہ 1200 کا ملتا ہے۔ دالیں چینی مہنگی ہو چکی ہے ناپ تول میں کمی عام ہے۔ لواطت بڑے فخریہ انداز میں کی جا رہی ہے۔ہم اس قدر اپنی اخلاقی اقدار کھو چکے ہیں کہ ہمیں اگر پتہ چلے کہ کل قیامت ہے تو آج ہی جائے نماز مہنگے ہو جائیں گے اور کورونا کی وجہ سے کفن تو پہلے ہی مہنگے ہو چکے ہیں۔ ہمارے ہاں زیادہ تر کریانے اور جنرل سٹور کے نام مکہ اور مدینہ سے شروع ہوتے ہیں اور انھی ناموں کے بینرز کے نیچے زخیرہ اندوزی ہو رہی ہے اور اسی زخیرہ اندوزی کے پیسوں سے لوگ حج و عمرہ پہ جائیں گے۔ تو بھائی اس قوم پر کورونا کی شکل میں عذاب نہیں آئے گا تو کیا آئے گا۔
اللہ تعالی قرآن پاک میں فرماتے ہیں۔
وَمَا كَانَ اللَّهُ لِيُعَذِّبَهُمْ وَأَنتَ فِيهِمْ ۚ وَمَا كَانَ اللَّهُ مُعَذِّبَهُمْ وَهُمْ يَسْتَغْفِرُونَ (الانفال :33)
حالانکہ ( اے رسول !) جب تک آپ ان میں ہیں اللہ انہیں سزا نہیں دے گا اور نیز جب جب تک یہ استغفار کرتے ہیں اللہ انہیں سزا نہیں دے گا۔
ہم روزانہ مسجد اور گھروں کی چھتوں پر اذانیں تو دے رہے ہیں۔ پر ایک بات بتاؤں یہ وباء ازان دینے سے نہیں اعمال درست کر کے نماز پڑھنے سے ٹلے گی۔ ہمیں درود پاک اور استغفار کا زکر زیادہ سے زیادہ کرنا ہو گا۔ اور دس کی چیز دس میں بیچنی ہوگی۔ اور دونوں جہاں کے مالک کو راضی کرنا ہو گا۔
بقلم: سید سبطین علی