کرونا کے مشتبہ پاکستانی خاندان کی ایران سے براہ راست آمد،،،،،،
کرونا کی مشتبہ سوہنی خاتون کی صادق آباد کے اسپتال میں اچانک آمد سے ڈاکٹروں میں خوف کی علامت بن گیا جی ہاں یہ واقعہ صادق آباد کاہے جہاں کرونا وائرس کی مشتبہ ۳۶ سالہ خاتون مسمات سوہنی بلوچ کرونا وائرس کے مشتبہ اپنے دو بچوں سمیت تحصیل اسپتال صادق آباد پہنچ گئی جسے بعد میں قرنطینہ وارڈ میں منتقل کیا گیاہے،
بارہ لاکھ سے زائد نفوس پر مشتمل تحصیل صادق آباد سندھ پنجاب کے سنگم پر واقع جنوبی پنجاب کے ضلع رحیم یار خان میں واقع ہےاسکی مغرب میں سندھ کا آخری شہر اوباڑو اور جنوب میں کشمور اور شمال میں صحرائے چولستان اور بھارت کا علاقہ جیسلمیر واقع ہے.. مگر حال ہی میں تیزی سے دنیا بھر میں پھیلتے اور خوف کی علامت موزی اور خطرناک وبائی مرض کرونا وائرس نے نہ صرف لوگوں کو موت کی وادی میں دھکیل دیا ہے بلکہ دنیا کی معیشت کوبھی تباہی سے دوچار کردیا ہے اور یہ وائرس ابھی تک دنیا بھر میں دھشت کی علامت بنا ہوا ہے ,جس کی ابھی تک نہ تو ویکسین بنائی جاسکی یے اور ناہی اس وائرس کے خاتمے کی ادویات بن پائی ہے, جس سے عام و خاص سمیت اقوام عالم حیران و پریشان ہے اوردیگر ممالک کی طرح پاکستان بھی ایسی ہی صورتحال سے دوچار ہے کیونکہ پڑوسی ملک ایران میں یہ وائرس پھیل کر بھیانک صورتحال اختیار کرچکا ہے اس دوران پاکستانی حکام نے ایران سے پاکستانی زائرین کی واپسی پرانہیں تفتان پاکستان سرحد پر روک کر 15 دن کے لئے خیموں میں رکھے جانے کے بعد ملتان. بہاولپور اور سکھر قرنطینہ میں رکھا گیا ہے تاکہ اگر ان لوگوں میں کرونا وائرس کی تصدیق ہو تو اعلاج معالجہ کیا جائے اور دیگر لوگوں سے میل جول کےباعث پھیلنے سے روکا جاسکے ،
مگر تحصیل اسپتال صادق آباد میں اس وقت اچانک افراتفری پھیل گئی جب 36 سالہ خاتون سوہنی مائی اپنے دو بچوں 10 سالہ محمد سجاول 7 سالہ سانول، شوہر موج علی کے ساتھ تحصیل اسپتال صادق آباد کے استقبالیہ اورایمرجنسی بلاک میں پہنچ گئے اور بتایا کہ وہ براہ راست ایران سے آئے ہیں اورانہیں کرونا وائرس کا خدشہ ہے لہذا وہ ٹیسٹ کرانا چاہتے ہیں یہ سننا تھا کہ ڈیوٹی پر موجود ڈاکٹر فرخ نعمان حیران ہو گئے کہ اگر یہ لوگ واقعی کرونا وائرس میں مبتلا ہیں تو یہاں زیر اعلاج مریضوں میں پھیل سکتا ہے اور وہ خود بھی متاثر ہوسکتے ہیں جس پر انہوں نے فوری طور پر ویڈیو بنا کر اعلی حکام کو بھیجی اور بتایا کہ کرونا وائرس کی مشتبہ خاتون سوہنی مائی اور اسکا خاندان اسپتال میں گھوم پھررہے ہیں اور انہوں نے نہ تو ماسک پہنے ہوئے ہیں اور نہ ہی اپنے اور دوسروں کے بچاؤ کے لئے حفاطتی اقدامات کئے ہوئے ہیں جس سے یہاں داخل دیگر مریضوں کو بھی خطرات لاحق ہوگئے ہیں اور ڈاکٹروں کو بھی ابھی تک حفاطتی کٹس مہیا نہیں کی گئی ہیں….
اس صورتحال پر ڈاکٹر فرخ نعمان نے رابطہ کرنے پر بتایا کہ ویڈیو بنا کر اعلی حکام کو آگاہ کرنے کا مقصد یہ تھا کہ ایران سے یہاں تک لمبا فاصلہ طے کرنے والے کورونا کے مشتبہ مریض اچانک کیسے پہنچ گئے؟ جبکہ سندھ پنجاب سمیت ملک بھر میں سخت لاک ڈاؤن اورہر جگہ سخت چیکنگ اور پولیس کی چوکیاں قائیم ہیں اور ہنگامی صورتحال ہے جبکہ انہیں پاک ایران سرحد پر یا پاکستان کے داخلی یا ضلعی یا تحصیل سطح پرداخلی راستوں پر کیوں نہیں روکا گیا؟ جبکہ انہیں روک کر وہیں پر قرنطینہ میں رکھا جانا تھا تاکہ نہ صرف انکی زندگیوں کو محفوظ بنایا جاسکے اور دوسروں کو بھی ممکنہ موزی اور محلق مرض کرونا سے بچایا جاسکے تاہم انہوں نے اس خاندان کو تحصیل اسپتال صادق آباد کے قرنطینہ وارڈ میں منتقل کردیا یے جہاں انکی علامات کا معائنہ کیا جارہا ہے اگر کچھ ایسی علامات ظاہر ہوئیں تو باقاعدہ ٹیسٹ کیا جاسکے گا۔ ادھر اسی معاملے پر معلومات کی رسائی کے قانون ۲۰۱۳ کے تحت ڈپٹی کمشنر رحیم یار خان علی شہزاد سے معلومات حاصل کی گئیں تو انہوں نے بتایا
کہ ڈیوٹی ڈاکٹر نے غیر زمہ داری کا مظاہرہ کیا ہے ایسے مریضوں کے لئے تحصیل اسپتال میں پہلے ہی قرنطینہ وارڈ بنا دیئے گئے ہیں اور وہاں تربیت یافتہ عملہ موجود ہے مریضوں کو وہاں بھیجنے کی بجائے خوف و حراس پھیلانے کی کوشش کی گئی ہے جس کے متعلق ایک ڈی ایچ او غنضفر شفیق اور اسسٹنٹ کمشنر صادق آباد عامر افتخار کی سربراہی میں کمیٹی تشکیل دی گئی ہے جو معاملے کی تحقیقات کرے گی، جبکہ مجموعی صورتحال پر انہوں نے بتایا کہ مجموعی طور پر ضلع سے کتنے لوگ ایران یا دیگر ممالک میں لوگ گئے تھے انہیں بتانے کی اجازت نہیں ہے یہ صرف صوبائی حکومت ہی بتاسکتی ہے جبکہ اب تک ضلع بھر سے ۳۵۰۰ لوگوں کا ٹیسٹ معائنہ کرایا گیا ہے جس کے کچھ نتائیج ابھی تک موصول نہیں ہوئے ہیں اور باقی مریض صحت یاب ہیں.. چیف ایگزیکٹو آفیسر ہیلتھ ڈاکٹر سخاوت رندھاوا نے بتایا کہ انہیں اعلی حکام نے ڈیٹا شیئر کرنے سے منع کیا ہے جبکہ زائرین اور دیارغیر سے آنے والوں کی لسٹوں میں بھی اضافہ ہو رہا ہے کیونکہ بہت سے لوگ غیر قانونی طریقے سے بھی گئے ہوئے ہوتے ہیں جنکا ڈیٹا ملنا مشکل ہے لیکن جیسے لوگ آ رہے ہیں انہیں تلاش کیا جا رہا ہے جبکہ ڈاکٹروں کی ٹیمیں تشکیل دی ہوئی ہیں جو کہیں سے بھی دیگر ممالک سے آنے والے لوگوں کی اطلاع پر انکے گاؤں گھروں میں جاکر معائنہ کرتے ہیں.. مسماہ سوہنی اور اسکے شوہر موج علی بلوچ جس کا تعلق ایف ایف سی چوک بلوچ کالونی صادق آباد سے ہےانہوں نے بتایا کہ وہ ایران کے شہر فارسان میں تھے زیارت کے ساتھ محنت مزدوری کرتے تھے وہ 11 ماہ بعد گلومند سے کراچی اور پھر کراچی سے مسافر بس کے ذریعے صادق آباد پہنچے اور اسپتال آگئے راستے میں انہیں کسی نے نہیں روکا اور ناہی کسی قسم کی تدابیر بتائیں اور نا ہی کسی نے ماسک دیئے انہیں شبہ ہے کہ وہ ایران سے آئے ہیں اس لئے ممکن ہے کہیں وہ کرونا وائرس کا شکار نہ ہوگئے ہوںمسمات سوہنی کا کہنا تھا کہ ایران میں بس میں بلکہ ہر جگہ کرونا وائرس اور اموات کا تزکرہ چل رہا تھا پھر اسے بھی شک ہونے لگا کہ کہیں وہ لوگ بھی اسکا شکار تو نہیں ہوگئے اسی سوچ نے اسے اسپتال جانے کے لئے اکسایا اور وہ اہل خانہ کے ساتھ اسپتال پہنچ گئی اس نے بتایا کہ جب ڈاکٹر نے انہوں کی ویڈیو بنائی تو وہ لوگ سہم گئے کہ خدانخواستہ انجانے میں ان سے ایسی کونسی غلطی سرزد ہوگئ ہے جو اسپتال انتظامیہ کو ناگوار گذری ہے اور وہ گھبرا گئے سوچنے لگے کہ شاید اب انکے خلاف کوئی پولیس کی یا کسی بھی قسم کی کاروائی ہوگی مگر پھر ڈاکٹروں نے انہیں اسی اسپتال کے کڈنی وارڈ میں بنائے گئے قرنطینہ وارڈ میں ۱۴ دن کے لئے منتقل کردیا… سوہنی کے شوہر موج علی بلوچ نے بتایا کہ وہ بلوچ کالونی ایف ایف سی چوک کے رہائیشی ہیں اسکی دو شادیاں ہیں ایک بیوی سوہنی جس کی عمر 36 سال اور دوسری مائی حاجل جسکی عمر 52 سال ہے انہوں نے بتایا کہ وہ 11 ماہ سے ایران میں رہ رہے تھے اور محنت مزدوری کرکے گزربسر کررہے تھے اس وباء کے باعث وہاں سے نکل آئے وہاں کی صوتحال کے بارے میں انہوں نے بتایا کہ وہ دیہی اور سمندری علاقے فالس میں تھے اور وہ علاقہ گرم تھا شاید اسی وجہ سے وائرس ابھی اس علاقے تک نہیں پھیلا تھا جبکہ دیگر علاقوں میں ماروماری اور ہو کا عالم تھا لوگوں کی حالت خراب تھی سڑکوں پر لاشیں نظر آرہی تھی افراتفری کا عالم تھا پولیس لوگوں کو پکڑ رہی تھی وائرس کا خوف پھیل چکا تھا اس لئے وہ لوگ بھی اسی خوف کی وجہ سے نکل آئے انہوں نے یہ بھی بتایا کہ وہ غیر قانونی دشوار گذار راستوں سے گئے تھے اسی طرح براستہ بلوچستان آئے ہمارے پاس تو پاسپورٹ نہیں تھا البتہ کسی کو کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا کیا کیا جائے پاکستان میں بیماری نہیں تھی جس کی وجہ سے پاکستانی جوک درجوک نکلنا شروع ہوگئے اور ایرانیوں نے بھی نہی روکا کیوں جان بچانا ہر شخص کا حق ہے۔۔ میڈیکل سپریڈننٹٹ ٹی ایچ کیو صادق آباد ڈاکٹر لیاقت چوہان نے معلومات کی رسائی کے قانون کے تحت بتایا کہ اب تک کورونا کے شبہ میں ۲۸ افراد کو قرنطینہ میں رکھا گیا ہے جس میں اکثر کو ڈسچارج بھی کردیا گیا ہے یہاں زیادہ تر ان افراد کو رکھا گیا ہےجو سعودی عرب یا ایران سے سفر کرکے پاکستان اور پھر یہاں پہنچے تھے۔ مگر یہاں پر اس بات کا تزکرہ ضروری ہے کہ افغان ایران سرحد پر واقع تافتان سے بلوچستان چمن ، کوئٹہ، ڈیرہ موڑ، جیکب آباد، کشمور، سندھ پنجاب سرحد داؤوالا پنجاب پولیس چیک پوسٹ کے راستے سے صادق آباد چلنے والی مسافر بسوں میں آنے والے مسافروں اور زائرین کا نہ معائنہ ہوسکا ہے اور ناہی انکا ریکارڈ بنایا جاسکا ہے جس سے اس بات کا خدشہ ہے کہ ممکنہ طور پراگر کوئی بھی شخص جوکہ کرونا وائرس سے متاثرہ ہو وہ اپنے خاندان میں گھل مل گیا ہے اور کرونا وائرس کے پھیلاؤ کا باعث بن سکتا ہے
اس تناظر میں انتظامیہ کی مبینہ غفلت اور لاپرواہی کے مرتکب اہلکاروں کے خلاف کاروائی نا گزیر ہے اسی طرح سندھ کا جڑواں شہر اوباڑو میں بھی اسی راستے سے منسلک سندھ پولیس چیک پوسٹ کراس بند سے ممکن ہے ایسے لوگ بغیر اسکریننگ کے داخل ہوکر گھروں میں پہنچ گئے ہوں، اس سلسلے میں کرونا وائرس کے تحصیل اسپتال میں تعینات فوکل پر سن ڈاکٹر فاروق کا کہنا ہے کہ اعلی حکام کی جانب سے انہیں زائرین اور غیرملکی سفر سے آنے والے تحصیل اوباڑو کی سطح کے 36 افراد کی لسٹیں دی تھیں اور انہیں تلاش کر کے اسکریننگ کا ٹاسک دیا گیا تھا جن میں سے ابتک 22 افراد کو تلاش کر کے انکی ابتدائی علامات کی معلومات اعلی حکام کو بتا دی گئی ہیں ڈاکٹر فاروق کا کہنا تھا کہ اسکریننگ کے دوران بعض مقامات پر نہ صرف عجیب بلکہ دلچسپ صورتحال بھی پیدا ہوجاتی ہے اور اکثر غیر مصدقہ معلومات سے مشکلات کابھی سامنا ہوجاتا ہے جوکہ موقع پر پہنچ کر حقیقت کا اندازہ ہوتا ہے انہوں نے بتایا کہ رونتی کے علاقے میں کراچی سے آنے والے ایک شخص کو کرونا وائرس کے شبہ میں ٹیم کو طلب کیا گیا تو وہاں دلچسپ صورتحال یہ تھی کہ باسط نامی 22 سالہ نوجوان کا کہنا تھا کہ وہ ٹھیک ہے مگر اسکے اہل خانہ کا زور تھا کہ اسکا کرونا وائرس کا ٹیسٹ ضرور ہونا چاہئے تاہم ڈاکٹر کا کہنا تھا کہ انکے طریقہ کار کے تحت وہ ابتدائی معلومات لیکر 28 کلو میٹر دور ضلعی ہیڈکوارٹر ڈسٹرکٹ ہیلتھ آفیس میرپور ماتھیلو میں فزیشن ڈاکٹر ستی وان کو فراہم کرتے ہیں اسکے بعد اگر وہ سمجھتے ہیں کہ مشتبہ مریض میں کرونا وائرس کے اثرات موجود ہیں تو تقریباً 100 کلو میٹر دور ہیلتھ ٹیم سکھر کو آگاہ کر کے وہاں سے ٹیم طلب کرتے ہیں جہاں سے ای این ٹی اسپیشلٹ مشتبہ شخص کے نمونے لیکر کراچی بھجواتے ہیں ۔۔۔۔ تاہم ایران سے آنے والی سوہنی خاتون اس وقت اپنے خاندان سمیت قرنطینہ میں ہے اسکے کرونا وائرس کے متعلق نتائج کا انتظار ہے جبکہ تیزی سے پھیلتے ہوئے اس کرونا وائرس نے بین القوامی سطح پر جان و مال کو تہس نہس کر کے رکھ دیا ہے نہ صرف ملکی بلکہ دنیا کی معیشت کو تباہی کے دہانے پر پہنچا دیا ہے.. جسکا واحد حل اللہ پاک سے رجوع اور اس وبائی مرض سے نجات کی دعا ہے کیونکہ اب تک نہ تو اس موزی مرض کی ویکسین بنائی جاسکی ہے اور نہ ہی اعلاج۔
ملک محمد اسلم، سندھ پنجاب سرحد صادق آباد،
03003123700
Aslam.malik@hotmail.com