مقدمہ بہاولپور:
پاکستان کی قومی اسمبلی نے قادیانیوں کو 7 ستمبر 1974 ء کو غیر مسلم قرار دیا تھا ، لیکن اسلامی فلاحی ریاست بہاولپور نے تو 1935 ء میں ہی قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دے دیا تھا …… پڑھئے مقدمہ بہاولپور کی مختصر روداد ـ
ریاست بہاولپور کی عدالت نے 1935ء میں ہی مرزائیوں کو غیر مسلم قرار دے دیا تھا ـ
تحصیل احمد پور شرقیہ ریاست بہاولپور میں ایک شخص مسمی عبدالرزاق مرزائی ہو کر مرتد ہوگیا اس کی منکوحہ غلام عائشہ بنت مولوی الٰہی بخش نے سن بلوغ کو پہنچ کر 24جولائی 1926ء کو فسخ نکاح کا دعویٰ احمد پور شرقیہ کی مقامی عدالت میں دائر کردیا جو 1931ء تک ابتدائی مراحل طے کر کے پھر 1932ء میں ڈسٹرکٹ جج بہاول پور کی عدالت میں بغرض شرعی تحقیق واپس ہوا۔ آخر کار 7 فروری 1935ء کو فیصلہ بحق مدعیہ صادر ہوا۔ بہاولپور ایک اسلامی ریاست تھی، اس کے والی نواب جناب صادق محمد خاں خامس عباسی مرحوم ایک سچے مسلمان اور عاشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم تھے۔ خواجہ غلام فرید رحمۃ اللہ علیہ بہاولپور کے معروف بزرگ کے عقیدت مند تھے۔ خواجہ غلام فرید رحمۃ اللہ علیہ کے تمام خلفاء کو اس مقدمہ میں گہری دلچسپی تھی۔ اس وقت جامعہ عباسیہ بہاولپور کے شیخ الجامعہ مولانا غلا م محمد گھوٹوی مرحوم تھے جو حضرت پیر مہر علی شاہ گولڑوی رحمۃ اللہ علیہ کے ارادت مند تھے۔ لیکن اس مقدمہ کی پیروی اور امت محمدیہ کی طرف سے نمائندگی کے لئے سب کی نگاہ انتخاب دیو بند کے فرزند شیخ الاسلام حضرت مولانا انور شاہ کشمیری رحمۃ اللہ علیہ پر پڑی، مولانا غلام محمد صاحب کی دعوت پر اپنے تمام تر پروگرام منسوخ کر کے مولانا محمد انور شاہ کشمیری رحمۃ اللہ علیہ بہاولپور تشریف لائے تو فرمایا کہ جب یہاں سے بلاوا آیا تو میں ڈابھیل کے لے بارکاب تھا مگر میں یہ سوچ کر یہاں چلا آیا کہ ہمارا نامہ اعمال تو سیاہ ہے ہی شاید یہی بات مغفرت کا سبب بن جائے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا جانبدار بن کر بہاولپور آیا تھا، اگر ہم ختم نبوت کی حفاظت کا کام نہ کریں تو گلی کا کتا بھی ہم سے اچھا ہے۔ ان کے تشریف لانے سے پورے ہندوستان کی توجہ اس مقدمہ کی طرف مبذول ہوگئی، بہاولپور میں علم کی موسم بہار شروع ہوگئی۔ اس سے مرزائیت کو بڑی پریشانی لاحق ہوئی۔
انہوں نے بھی ان حضرات علماء کی آ ہنی گرفت اور احتسابی شکنجے سے بچنے کیلئے ہزاروں جتن کئے۔ مولانا غلام محمد گھوٹوی، مولانا محمد حسین کولوتارڑوی، مولانا مفتی محمد شفیع، مولانا مرتضیٰ حسن چاند پوری، مولانا نجم الدین، مولانا ابو الوفاشاہ جہان پوری اور مولانا محمد انور شاہ کشمیری رحمہم اللہ تعالیٰ علیہم و شکراللہ سعیہم کے ایمان افروز اور کفر شکن بیانات ہوئے۔ مرزائیت بوکھلا اٹھی۔ ان دنوں مولانا سید محمد انور شاہ کشمیری رحمۃ اللہ علیہ پر اللہ رب العزت کے جلال اور حضور سرور کائنات صلی اللہ تعالیٰ علیہ و علیٰ آلہ واصحابہ وبارک وسلم کے جمال کا خاص پر تو تھا۔ وہ جلال و جمال کا حسین امتزاج تھے، جمال میں آکر قرآن و سنت کے دلائل دیتے تو عدالت کے درودیوارجھوم اٹھتے اور جلال میں آکر مرزائیت کو للکارتے تو کفر کے ا یوانوں میں زلزلہ طاری ہوجاتا، مولانا ابوالوفا شاہ جہان پوری نے اس مقدمہ میں مختار مدعیہ کے طور پر کام کیا۔ایک دن عدالت میں مولانا محمد انور شاہ کشمیری رحمۃ اللہ علیہ نے جلال الدین شمس مرزائی کو للکار کر فرمایا کہ اگر چاہو تو میں عدالت میں یہیں کھڑے ہو کر دکھاسکتا ہوں کہ مرزا قادیانی جہنم میں جل رہا ہے مرزائی کانپ اٹھے۔ مسلمانوں کے چہروں پر بشاشت چھاگئی اور اہل دل نے گواہی دی کہ عدالت میں انور شاہ کشمیری رحمۃ اللہ علیہ نہیں بلکہ حضور سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کا وکیل اور نمائندہ بول رہا ہے۔
علمائے کرام کے بیانات مکمل ہوئے، نواب صاحب مرحوم پر گورنمنٹ برطانیہ کا دباؤ بڑھا۔ اس سلسلہ میں مجاہد ملت مولانا محمد علی جالندھری مرحوم نے راقم الحروف سے بیان کیا کہ خضرحیات ٹوانہ کے والد نواب سر عمر حیات ٹوانہ لندن گئے ہوئے تھے۔ نواب آف بہاولپور مرحوم بھی گرمیاں اکثر لندن گزارا کرتے تھے۔ نواب مرحوم سر عمر حیات ٹوانہ لندن میں ملے اور مشورہ طلب کیا کہ انگریز گورنمنٹ کا مجھ پر دباؤ ہے کہ ریاست بہاولپور سے اس مقدمہ کو ختم کرادیں تو اب مجھے کیا کرنا چاہیے۔ سر عمر حیات ٹوانہ نے کہا کہ ہم انگریز کے وفادار ضرور ہیں مگر اپنا دین، ایمان اور عشق رسالت مآب کا توان سے سودا نہیں کیا، آپ ڈٹ جائیں اور ان سے کہیں کہ عدالت جو چاہے فیصلہ کرے میں حق و انصاف کے سلسلہ میں اس پر دباؤ نہیں ڈالنا چاہتا۔ چنانچہ مولانا محمد علی جالندھری نے یہ واقعہ بیان کر کے ارشاد فرمایا کہ ان دونوں کی نجات کے لئے اتنی بات کافی ہے۔ جناب محمد اکبر جج مرحوم کو ترغیب و تحریص کے دام تزویر میں پھنسانے کی مرزائیوں نے کوشش کی لیکن ان کی تمام تدابیر غلط ثابت ہوئیں، مولانا سید محمد انور شاہ کشمیر ی رحمۃ اللہ علیہ اس فیصلہ کے لیے اتنے بے تاب تھے کہ بیانات کی تکمیل کے بعد جب بہاولپور سے جانے لگے تو مولانا محمد صادق مرحوم سے فرمایا کہ اگر زندہ رہا تو فیصلہ خود سن لوں گا اور اگر فوت ہوجاؤں تو میری قبر پر آکر یہ فیصلہ سنا دیا جائے۔ چنانچہ مولانا محمد صادق نے آپ کی وصیت کو پورا کیا۔ آپ نے آخری ایام علالت میں دارالعلوم دیوبند کے اساتذہ و طلبہ اور دیگر بہت سے علماء کے مجمع میں تقریر فرمائی تھی، جس میں نہایت درد مندی و دل سوزی سے فرمایا تھا۔ وہ تمام حضرات جن کو مجھ سے بلا واسطہ یا بالواسطہ تلمذ کا تعلق ہے اور جن پر میرا حق ہے کہ میں ان کو خصوصی وصیت اور تاکید کرتا ہوں کہ وہ عقیدہ ختم نبوت کی حفاظت و پاسبانی اورفتنہ قادیانیت کے قلع قمع کو اپنا خصوصی کام بنائیں اور جو لوگ یہ چاہتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ان کی شفاعت فرمائیں، ان کو لازم ہے کہ ختم نبوت کی پاسبانی کا کام کریں۔
یہ مقدمہ حق و باطل کا عظیم معرکہ تھا۔ جب7 فروری 1935ء کو فیصلہ صادر ہوا تو مرزائیت کے صحیح خدوخال آشکارا ہوگئے۔ بلاشبہ پوری امت جناب محمدا کبر خان جج صاحب مرحوم کی مرہون منت ہے کہ انہوں نے کمال عدل و انصاف محنت و عرق ریزی سے ایسافیصلہ لکھا کہ اس کا ایک ایک حرف قادیانیت کے تابوت میں کیل ثابت ہوا۔ قادیانیوں نے اپنے نام نہاد خلیفہ مرزا بشیر کی سربراہی میں سرظفراللہ مرتد سمیت جمع ہو کر اس فیصلہ کے خلاف اپیل کرنے کی سوچ و بچار کی لیکن آخر کار اس نتیجہ پر پہنچے کہ فیصلہ اتنی مضبوط اور ٹھوس بنیادوں پر صادر ہوا کہ اپیل بھی ہمارے خلاف جائے گی۔ اللہ رب العزت کی قدرت کے قربان جائیں، کفر ہار گیا، اسلام جیت گیا۔ ایک دفعہ پھرجاء الحق وزھق الباطل کی عملی تفسیر اس فیصلہ کی شکل میں امت کے سامنے آگئی اور مرزائی فبھت الذی کفر کا مصداق ہوگئے، اس تاریخ سازفیصلہ نے چار دانگ عالم میں تہلکہ مچا دیا۔مرزائیوں کی ساکھ روز بروز گرنا شروع ہوگئی۔
Load/Hide Comments