ہماری نئی نسل میں حرام و حلال کی تمیز
———————————————–
پچھلے سال دسمبر کی بات ہے، میں عشاء کے فوراً بعد گھر سے نکلا،ہر طرف دھند چھائی ہوئی تھی، قریب ہی پیڑول پمپ پر گاڑی میں پیٹرول ڈلوانے کے لیے رکا، دیکھا تو ایک چھ سات سال کا بچہ تیز تیز چلتا ہوا قریب آکر شیشے پر دستک دینے لگا، اس پیڑول پمپ پر گارڈز بھکاریوں کو گھسنے نہیں دیتے اس لیے یہ طے تھا کہ یہ بھکاری نہیں ہے، شیشہ نیچے کیا تو وہ سردی میں بری طرح سے ٹھٹھر رہا تھا، میں نے کہا “کیا بات ہے بیٹا؟ ” بولا انکل آپ نےابلے ہوئے انڈے لینے ہیں”میں نے کہا نہیں بیٹا میں ابلے ہوئے انڈے نہیں کھاتا”
انکل! لے لو نا، میری مجبوری ہے!
میں نے کہا کیا مجبوری ہے ؟
بولا “میرا ابو رکشہ چلاتا تھا پچھلے سال اسے فالج ہو گیا، اب کمانے والا کوئی نہیں، امی ایک سکول میں جھاڑو دیتی ہے اور مجھے شام کو انڈے ابال کر کولر، میں ڈال دیتی ہے، میرا سکول بھی چھوٹ گیا ہے ۔
میں نے بٹوا نکالا اور اسےکچھ پیسے دیئے کہ یہ رکھ لو، انڈے کسی اور کو دے دینا،
اس کی آنکھوں میں نمی آگئی، کہنے لگا
“انکل! میں ایسے مفت میں پیسے نہیں لوں گا، میری ماں نے مجھے سمجھایا ہوا ہے کہ اگر مفت پیسے گھر لاؤ گے تو ابا ٹھیک نہیں ہو گا۔انکل آپ انڈے لے لیں نا، تاکہ میرا ابو ٹھیک ہو جائے اور میں بھی جلدی سے اس کے ساتھ رکشے میں بیٹھ کر سکول جایا کروں،
میں نے کہا لاؤ؛ وہ بھاگتا ہوا گیا اور دور رکھے ہوئے ایک کولر سے دی ہوئی رقم کے عوض انڈے نکال لایا اور میرے حوالے کر دیئے،
میں نے انڈے رکھ لیے اور سارا راستہ دعا کرتارہا ” الله کرے اب سب کی مائیں اپنے بچوں کو اسی طرح سمجھاتی رہیں تاکہ وہ مفت والے پیسے گھر نہ لائیں، نہ کسی کی نظر قومی خزانے پہ پڑے تاکہ ریاست کے پاس اتنے وسائل ہوں کہ وہ ایسے لوگوں کی کفالت کر سکےاگر کسی کے ابا کو فالج ہو بھی جائے تو اسے کم عمری میں انڈے نہ بیچنے پڑیں۔لیکن بد قسمتی سےآج ہم اس مصیبت کی گھڑی میں دیکھ رہے ہیں کہ بعض صاحب حیثیت لوگ “احساس” پروگرام کے تحت ملنے والی امداد پر ہاتھ صاف کرنے کے لیے کیسے کیسے حربے استعمال کررہے ہیں کہ کسی طرح بارہ ہزار ان کےہاتھ آجائیں اور اصل حقدار بھوک سے جان دے دیں قابلِ افسوس ہے۔
ڈاکٹر محمد رمضان طاہر
شعبہ اردو و اقبالیات دی اسلامیہ یونیورسٹی آف بہاولپور ۔
———————————————————