سعید قیصر کی موت اور آسمانی عدالتوں کے فیصلے

سعید قیصر کی موت اور آسمانی عدالتوں کے فیصلے

پاکستان کے صوبہ پنجاب کے علاقہ پھول نگر سے تعلق رکھنے والے صحافی سعید قیصر کی خودکشی کی خبر سن کر اس وقت سے دل بہت بے چین ھے ۔پھول نگر کے مقامی صحافی دوست راے عزیز انور سے تفصیل جاننا چاہی تو تفصیل سن کر دل لرز اٹھا ۔سعید قیصر کو مالی مشکلات کا سامنا تھا اور وہ اس سلسلے میں بڑا پریشان تھا۔بھوک وافلاس نے اسے یہ قدم اٹھانے پر مجبور کر دیا۔یہ کیسی ریاست مدینہ ھے جس کے اندر بھوکے رہنے والوں کیلیے رزق کا انتظام کرنے کی بجاے ان پر زندگی کا داٸرہ اس قدر تنگ کر دیا جاے کہ لوگ خود کشی کرنے پر مجبور ھو جاٸیں۔تاریخ اٹھا کر دیکھیں تو ریاست مدینہ کے ایسے دعویدار بھی گزرے ہیں جن کی ریاستوں میں بادشاہ سلامت کے کتے تو اٸیر کنڈیشنڈ کمروں میں آرام فرماتے ھوے وافر مقدار میں دستیاب دودھ بچا کر سوجایا کرتے تھے ۔مگراسی ریاست کے بادشاہ سلامت کے محل کے قریب جھونپڑی میں پڑی ایک غربت زدہ زندگی دیگچی میں پتھر ڈال کر آگ سلگا تی رہی اور بھوک سے بلکتے بچوں کے روٹی مانگنے پر اپنے پھٹے پرانے دوپٹے سے آنسو پونچھ کر یہ دلاسہ دیکر انھیں مزید کچھ دیر کیلیے چپ کرادیتی کہ میرے لال بس تھوڑی سی تو دیر ھے ۔یہ دیکھو نا چولھے پہ کھانا پک رھا ھے دو چار منٹ اور گزار لو ابھی دیتی ھوں ۔اور پھر کچھ ہی دیر بعد رزق کا انتظار کرنے والوں کو موت اپنا رزق بنا لیتی ھے ۔

ریاست مدینہ کے دعویدار محترم وزیر اعظم عمران خان صاحب! حضرت عمر نے دریا کنارے پیاس سے مرنے والے کتے کی موت کا زمہ دار خود کوقرار دیا تھا اور آپ کی ریاست میں سفید پوش طبقہ خو د کشی کرنے پر مجبورھے ۔سعید قیصر کے ضمیر نے اسےتب بھی کسی کے آگے ھاتھ پھیلانے سے منع کر دیا ھوگا جب اس کے بچے بھوک سے بے حال ھوے پڑے ھوں گے۔اور تب اس نے بچوں کی اذیت ناک بھوک سے جان چھڑانے کا ایک ہی حل سوچا ھوگاکہ زندگی سے ہی کنارہ کشی کر لی جاے ۔خان صاحب لاک ڈاٶن کا نادر شاہی فرمان جاری کرنے سے پہلے آپ کو اس بات کا حل نکالنا چاہیے تھا کہ گھر میں پڑے ان قیدیوں تک ضروریات زندگی کا سامان کیسے پنہچے گا ۔روزانہ دو چار سو روپے کما کر بچوں کیلیے رزق کا بندوبست کرنے والے لاک ڈاٶن کے باعث کس طرح اپنے بچوں کی سانسیں بحال رکھ پاٸیں گے ۔کراے کے مکانوں میں رہنے والے کرایہ کیسے ادا کر پاٸیں گے۔مگر اس پر سوچنے کی آپ نے زحمت ہی گورا نہیں فرمای ۔اگر آپ کے پاس اس سوال کا جواب احساس پروگرام ھے تو حضور پوری قوم جانتی ھے کہ اس پروگرام کے تحت کتنے بے بس اور بھوک سے نڈھال گھرانے مستفید ھوے ہیں۔

خان صاحب زرا دل پہ ھاتھ رکھ کر جواب دیں کہ فرض کریں آپ کے چھوٹے چھوٹے بچے ھوں ۔آپ ایک رکشہ ڈرٸیور ہیں ۔آ پ کراے کی موٹر ساٸیکل چلاتے ہیں۔آپ ایک ھوٹل پر چار سو یومیہ کمانے والے بیرے ہیں ۔یاپھر آپ دیہاڑی دار مزدورہیں۔اس کے علاوہ آپ کا کوی زریعہ معاش نہیں ھے ۔آپ پچھلے ڈیڑھ ماہ سے گھر بیٹھے ہیں ۔پیسے نہ ھونے کی وجہ سے دودھ والے نے آپ کا دودھ بند کر دیا ھو ۔محلے کے کریانہ سٹور والے بابے نے آپ کو مزید ادھار دینے سے انکارکر دیا ھو ۔آپ کے گھر کی دوسری گلی والا دکاندار بھی آپ کو یہ کہ کردو کلو آٹا دینے سے انکار کردے کہ ابھی پچھلے پیسے تو دیے نہیں ۔خان صاحب فرض کریں آپ کی چھوٹی بیٹی کی عمر آٹھ سال ھے ۔اس کا نام آپ نے پیار سے پھول رکھا ھو۔ پھول بڑی لاڈلی بھی ھو ۔پھول پیاری ھونے ک ساتھ ساتھ سیانی بھی ۔وہ آپ کی بیروزگاری اور موجودہ حالات سے واقفیت رکھتے ھوے آپ سے ٹافی۔چاکلیٹ ۔آٸسکریم ۔شوارما کھلونا مانگنے کی معصوم خواہشوں کو آپ ک معاشی بے بسی پر قربان کر چکی ھو ۔فرض کریں ایک دن آپ کے آنگن کے اس خوبصورت پھول کو بھوک نے بہت ستایا ھو۔صحن کے ایک کونے میں پڑی ٹوٹ چارہاٸ پر پریشانی کے عالم بیٹھے آپ کچھ سوچ رہےھوں۔خان صاحب فرض کریں آپ کی چہیتی ۔لاڈلی پھول آپ کے پاس آتی ھے ۔آپ کے گلے میں دونوں ننھیی بانہیں ڈال کے آپ کے گال کا بوسہ لیتے ھوے آپکی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر میٹھے مگر بھوک کی تکیلیف کے آمیزش بھرےلہجے میں توتلی زبان میں یہ کہے ۔بابا بھوت لدی ھے لوتی دو ۔بابا لادو نا مجھے لوتی ۔(بابا بہت بھوک لگی ھے۔روٹی دو ۔بابا لادو نا مجھے روٹی )اور فرض کریں اس پھول کو مرجھانے سے بچانے کیلیے آپ محض روٹی لانے کی سکت بھی کھو بیٹھے ھوں تو خان صاحب اپنے دل پر ھاتھ اور اپنے جذبات کو قابو میں رکھ کر بتاٸیں آپ اس وقت کیا کریں گے ۔کیا آپ کے پاس خود کشی کے سوا کوی راستہ بچے گا ؟ نہیں نا ۔تو خدارا یا تو بھوک کا کوی حل نکالیں یا ریاست مدینہ کے امیرالمومنین ھونے کا دعوی چھوڑ کر یہ اعلان کریں کہ میں نے جو دعوے کیے ان پہ پورا نہیں اتر سکا اس لیے میں آج اس ریاست سے لاتعلقی کا اعلان کرتا ھوں۔ کیوں ؟ کیونکہ آپ ارض وطن کے لٹے پٹے زخم خوردہ باسیوں کی آخری امید تھے ۔خان صاحب بندہ ناچیز نے نیشنل کالمسٹ کونسل آف پاکستان کے فورم سے ایک ماہ قبل آپ کے گورنر پنجاب چوہدری محمد سرور صاحب کی توجہ( آن دہ ریکارڈ )بذریعہ فون اس ایشو کی جانب مبذول کروای تھی کہ جناب والاہمیں دیگر پاکستانیوں کی طرح بے شمار صحافی بھاٸیوں کے فون آرہے ہیں کہ نہ تو ھم کسی لاٸن میں کھڑے ھو کرمانگ سکتے ہیں نہ بچوں کی بھوک ھم سے برداشت ھوتی ھے ھماری آواز اٹھاٸیں ۔

خان صاحب تب آپ کے گورنر پنجاب چوہدری محمد سرور صاحب نے ضرورتمند صحافی بھاٸیوں کی ہیلپ کیلیےایک تحریری درخواست منگواٸ تھی ۔ایک ماہ ھو چکا ھے اس درخواست کو اور ابھی تک اس کا کوی جواب نہیں دیا گیا۔خان صاحب ممکنہ طور پراگر دریا کنارے پیاس سے مرنے والے کتے کا جواب دہ اس وقت کا والی ریاست حضرت عمر تھا توریاست پاکستا ن کے اندر بھوک سے مرنے والی انسانی زندگیوں کے زمہ دار آپ ہیں لہذا ایک لمحہ ضاٸع کیے بغیر آپ سعید قیصر کے گھر جاکر اس کے بچوں سے معافی مانگیں اور لاک ڈاٶن کے باعث گھروں میں پڑے قیدیوں کی خبر گیری کریں ۔ورنہ صاحبان اقتدار کے خلاف جاری ھونے والےآسمانی عدالتوں کے تمام فیصلے آپ کے سامنے ہیں


(درد نگر سے)۔تحسین بخاری
press7828@gmail.com

اپنا تبصرہ بھیجیں