یومِ بدر
اسلام کی تاریخی فتح کا دن
”اے خدا! یہ قریش سامان ِغرور کے ساتھ آئے ہیں تاکہ تیرے رسول کو جھوٹا ثابت کریں۔اے اللہ اب تیری وہ مدد آجائے جس کا تونے مجھ سے وعدہ فرمایا۔اے اللہ! اگر آج یہ مٹھی بھر جماعت بھی ہلاک ہوگئی تو پھر روئے زمین پر تیری عبادت کہیں نہیں ہوگی“
اے پاک پروردگار یہ مسلمانوں کی مٹھی بھر سی جماعت ہے جو کے آج کفار کے لشکروں سے دیوانہ وار ٹکرا گئی ہے انکا آسرا صرف تیرے پر ہے انکے آگے بھی تو ہے اور پیچھے بھی تو ہے انکے مالک، ملجاء و ماوی بھی تو ہے کوئی مدد گار نہیں کوئی حامی و ناصر نہیں ہے لیکن جسکا تو حامی و ناصر ہو جسکا تو مددگار ہوا اسکو کسی کی ضرورت نہیں ہے اے میرے مالک اگر آج یہ جماعت مٹ گئی تو روئے زمین پر تیرے اصل دین کا نام لیوا کوئی نہ رہے گا۔
عجیب رقت آمیز منظر تھا۔ چشمِ فلک ششدر تھی، فرشتوں کی صف اللہ کے اِذن سے اس مختصر مگر پُرعزم لشکر کے ہم رکاب تھی۔ رحمت اللعالمینؐ، شفیعِ اعظم، سرزمینِ عرب کا امانتدار اور صدیق اعظمؐ، غریبوں کا ملجا، یتیموں کا آقاؐ اور اللہ کا محبوبؐ اس لشکر قلیل کا سپاہ سالار بن کر مدینہ سے باہر اسلام کی بقاء کی جنگ کے لئے اللہ کے بھروسہ نکل آیا تھا۔ اسکے سامنے سرزمینِ حجاز کے بڑے بڑے سورما مثلِ فرعون اپنے لشکرِ کثیر کیساتھ تکبر اور اس ارادے سے برسرِ پیکار ہونے آئے تھے کہ آج اس قصہ کو تمام کیا جائے۔ مگر وقت کا مورخ ایک عظیم تاریخ رقم کرنے کو بیتاب تھا جب بے سروسامانی کے ساتھ اس لشکرِ اسلام نے بدر کے میدان میں اپنے خیمے گاڑھے اور نبی اکرمؐ نے اللہ کے جانثاران پر نظرِ مبارک فرمائی اور یہ عظیم دعا کیساتھ ربِ کائنات سے ہمکلام ہوئے۔.
غزوہ بدر کی وجوہات اور اس کے اندر پیش ہونے والے چند واقعات تاریخ میں رقم ہیں۔ یہی کچھ تصاویرِ اسلام ہیں جو ہمارے لئے مشعلِ راہ بھی ہیں، ہمارے جینے کے مقصد کا تعین بھی کرتی ہیں اور ہمارا سرمایہ افتخار بھی۔ اسی وجہ سے علامہ اقبال نے فرمایا تھا
فضائے بدر پیدا کر فرشتے تیری نصرت کو
اُتر سکتے ہیں گردوں سے قطار اندر قطار اب بھی
سرزمین مکہ میں اعلان حق کیا تو معاشرے کے مخلص ترین افراد ایک ایک کرکے داعی اسلام کے ہاتھ پر بیعت کرنے لگے۔ وہ لوگ جن کے مفادات پرانے نظام سے وابستہ تھے تشدد پر اتر آئے نتیجہ ہجرت تھا۔ لیکن تصادم اس کے باوجود بھی ختم نہ ہوا۔ اسلام مدینہ میں تیزی سے ترقی کر رہا تھا اور یہ بات قریش مکہ کے لیے بہت تکلیف دہ تھی اور وہ مسلمانوں کو ختم کرنے کے منصوبے بناتے رہتے تھے اور مسلمان ہر وقت مدینہ پر حملے کا خدشہ رکھتے تھے۔ اس صورت حال کی نزاکت کا یہ عالم تھا کہ صحابہ ہتھیار لگا کر سوتے تھے اور خود کو حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم بھی اسی طرح کی حفاظتی تدابیر اختیار کرتے تھے۔
قریش مکہ نے مدینہ کی اس اسلامی ریاست پر حملہ کرنے کا اس لیے بھی فیصلہ کیا کہ وہ شاہراہ جو مکہ سے شام کی طرف جاتی تھی مسلمانوں کی زد میں تھی۔ اس شاہراہ کی تجارت سے اہل مکہ لاکھوں اشرفیاں سالانہ حاصل کرتے تھے۔ اس کا اندازہ ہمیں اس واقعہ سے ہوتا ہے کہ بنو اوس کے مشہور سردار سعد بن معاذ جب طواف کعبہ کے لیے گئے تو ابوجہل نے خانہ کعبہ کے دروازے پر انہیں روکا اور کہا تو ہمارے دین کے مرتدوں کو پناہ دو اور ہم تمہیں اطمینان کے ساتھ مکے میں طواف کرنے دیں؟ اگر تم امیہ بن خلف کے مہمان نہ ہوتے تو یہاں سے زندہ نہیں جاسکتے تھے۔ یہ سن کر سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ نے جواب دیا۔
”خدا کی قسم اگر تم نے مجھے اس سے روکا تو میں تمہیں اس چیز سے روک دوں گا جو تمہارے لیے اس سے اہم تر ہے یعنی مدینہ کے پاس سے تمہارا راستہ۔“
رجب 2 ھ میں حضرت محمدصلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے عبداللہ بن حجش کی قیادت میں بارہ آدمیوں پر مشتمل ایک دستہ اس غرض سے بھیجا کہ قریش کے تجارتی قافلوں کی نقل و حرکت پر نگاہ رکھے۔ اتفاق سے ایک قریشی قافلہ مل گیا اور دونوں گروہوں کے درمیان میں جھڑپ ہو گئی جس میں قریش مکہ کا ایک شخص عمر بن الحضرمی مقتول ہوا اور دو گرفتار ہوئے۔ جب عبد اللہ حضورصلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پاس پہنچے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس واقعہ پر ناپسندیدگی کا اظہار فرمایا۔ جنگی قیدی رہا کر دیے گئے اور مقتول کے لیے خون بہا ادا کیا۔ اس واقعہ کی حیثیت سرحدی جھڑپ سے زیادہ نہ تھی چونکہ یہ جھڑپ ایک ایسے مہینے میں ہوئی جس میں جنگ و جدال حرام تھا۔ اس لیے قریش مکہ نے اس کے خلاف خوب پروپیگنڈہ کیا اور قبائل عرب کو بھی مسلمانوں کے خلاف اکسانے کی کوشش کی۔ عمرو کے ورثا نے بھی مقتول کا انتقام لینے کے لیے اہل مکہ کو مدینہ پر حملہ کرنے پر اکسایا۔
مکہ اور مدینہ کے درمیان میں کشیدگی بڑھتی جا رہی تھی اس سلسلے میں یہ واقعہ قابل ذکر ہے کہ ایک مکی سردار کرز بن جابر فہری نے مدینہ کے باہر مسلمانوں کی ایک چراگاہ پر حملہ کرکے رسول اللہ کے مویشی لوٹ لیے۔ یہ ڈاکہ مسلمانوں کے لیے کھلا چیلنج تھا۔ چند مسلمانوں نے کرز کا تعاقب کیا لیکن وہ بچ نکلا۔
قریش مکہ نے اسلامی ریاست کو ختم کرنے کا فیصلہ کرکے جنگ کی بھرپور تیاریاں شروع کر دیں۔ افرادی قوت کو مضبوط بنانے کے لیے انہوں نے مکہ مکرمہ کے گردونواح کے قبائل سے معاہدات کیے اور معاشی وسائل کو مضبوط تر کرنے کے لیے یہ فیصلہ کیا گیا کہ اس مرتبہ جو تجارتی قافلہ شام بھیجا جائے اس کا تمام منافع اسی غرض کے لیے وقف ہو۔ چنانچہ ابوسفیان کو اس قافلے کا قائد مقرر کیا گیا اور مکہ مکرمہ کی عورتوں نے اپنے زیور تک کاروبار میں لگائے۔ اسلامی ریاست کے خاتمے کے اس منصوبے نے مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ کے درمیان میں کشیدگی میں بہت اضافہ کر دیا۔
جب ابوسفیان کا مذکورہ بالا قافلہ واپس آ رہا تھا تو ابوسفیان کو خطرہ محسوس ہوا کہ کہیں یہ قافلہ راستے ہی میں نہ لوٹ لیا جائے چنانچہ اس نے ایک ایلچی کو بھیج کر مکہ سے امداد منگوائی۔ قاصد نے عرب دستور کے مطابق اپنے اونٹ کی ناک چیر دی اور رنگ دار رومال ہلا کر واویلا کیا اور اعلان کیا کہ ابوسفیان کے قافلے پرحملہ کرنے کے لیے محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم بڑھا چلا آ رہا ہے۔ اس لیے فوراً امداد کے لیے پہنچو۔ اہل مکہ سمجھے کہ قریش کا قافلہ لوٹ لیا گیا ہے۔ سب لوگ انتقام کے لیے نکل کھڑے ہوئے۔ راستے میں معلوم ہوا کہ یہ قافلہ صحیح سلامت واپس آ رہا ہے۔ لیکن قریش کے مکار سرداروں نے فیصلہ کیا کہ اب مسلمانوں کا ہمیشہ کے لیے کام ختم کرکے ہی واپس جائیں گے۔ نیز حضرمی کے ورثاء نے حضرمی کا انتقام لینے پر اصرار کیا۔ چنانچہ قریشی لشکر مدینہ کی طرف بڑھتا چلا گیا اور بدر میں خیمہ زن ہو گیا۔
مدینہ میں میں قریشی لشکر کی آمد کی اطلاع ملی تو آپ نے مجلس مشاورت بلوائی اور خطرے سے نپٹنے کے لیے تجاویز طلب فرمائیں۔ مہاجرین نے جانثاری کا یقین دلایا۔ آپ نے دوبارہ مشورہ طلب کیا تو انصار میں سے سعد بن عبادہ نے عرض کیا کہ غالباً آپ کا روئے سخن ہماری طرف ہے۔ آپ نے فرمایا ہاں۔ حضرت سعد بن عبادہ نے عرض کیا کہ:
”یا رسول اللہ! ہم آپ پر ایمان لائے ہیں۔ ہم نے آپ کی تصدیق کی ہے اور گواہی دی ہے کہ جو کتاب آپ لائے ہیں وہ حق ہے اور ہم نے آپ کی اطاعت اور فرمانبرداری کا عہد کیا ہے۔ یا رسول اللہ جس طرف مرضی ہو تشریف لے چلیے۔ قسم ہے اس ذات کی جس نے حق کے ساتھ آپ کو معبوث کیا اگر آپ ہم کو سمندر میں گرنے کا حکم دیں گے تو ہم ضرور اس میں گر پڑیں گے اور ہم میں سے ایک شخص بھی باقی نہ رہے گا۔“
حضرت مقداد نے عرض کیا:
”ہم موسیٰ کی امت کی طرح نہیں ہیں جس نے موسیٰ سے کہا کہ تم اور تمہارا رب دونوں لڑو۔ ہم تو یہاں بیٹھے ہیں بلکہ ہم آپ کے دائیں بائیں، آگے پیچھے آپ کے ساتھ لڑیں گے۔“
مشاورت کے بعد مجاہدین کو تیاری کا حکم ہوا۔ مسلمانوں کے ذوق شہادت کا یہ عالم تھا کہ ایک نوعمر صحابی حضرت عمیر بن ابی وقاص اس خیال سے چھپتے پھرتے تھے کہ کہیں کم عمر ہونے کی وجہ سے واپس نہ بھیج دیے جائیں۔ اس کے باوجود مجاہدین کی کل تعداد 313 سے زیادہ نہ ہو سکی۔ یہ لشکر اس شان سے میدان کارزار کی طرف بڑھ رہا تھا کہ کسی کے پاس لڑنے کے لیے پورے ہتھیار بھی نہ تھے۔ پورے لشکر کے پاس صرف 70 اونٹ اور 2 گھوڑے تھے جن پر باری باری سواری کرتے تھے۔ مقام بدر پر پہنچ کر ایک چشمہ کے قریب یہ مختصر سا لشکر خیمہ زن ہوا۔ مقابلے پر تین گنا سے زیادہ لشکر تھا۔ ایک ہزار قریشی جوان جن میں سے اکثر سر سے پاؤں تک آہنی لباس میں ملبوس تھے وہ اس خیال سے بدمست تھے کہ وہ صبح ہوتے ہی ان مٹھی بھر فاقہ کشوں کا خاتمہ کر دیں گے لیکن قدرت کاملہ کو کچھ اور ہی منظور تھا۔
رات بھر قریشی لشکر عیاشی و بدمستی کا شکار رہا۔ خدا کے نبی نے خدا کے حضور آہ و زاری میں گزاری اور قادر مطلق نے فتح کی بشارت دے دی۔ جس طرف مسلمانوں کا پڑاؤ تھا وہاں پانی کی کمی تھی اور ریت مسلمانوں کے گھوڑوں کے لیے مضر ثابت ہو سکتی تھی۔ لیکن خداوند تعالٰی نے باران رحمت سے مسلمانوں کی یہ دونوں دقتیں دور کر دیں۔ ریت جم گئی اور قریشی لشکر کے پڑاؤ والی مقبوضہ چکنی مٹی کی زمین پر کیچڑ پیدا ہو گیا۔17 رمضان المبارک 2ھ (17 مارچ 624ء) کو فجر کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے جہاد کی تلقین کی۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ارشاد کے مطابق انہوں نے صف بندی کی اور آہن پوش لشکر کو شکست دینے کا آہنی عزم لے کر میدان کی طرف چلے۔ قریشی لشکر تکبر و غرور میں بدمست نسلی تفاخر کے نعرے لگاتا ہوا سامنے موجود تھا۔ مسلمانوں کے لیے سخت آزمائش کا وقت تھا اس لیے کہ اپنے ہی بھائی بند سامنے کھڑے تھے۔ ابوبکر اپنے بیٹے عبد الرحمن سے اور حذیفہ کو اپنے بات عتبہ سے مقابلہ کرنا تھا۔ عرب کے دستور کے مطابق پہلے انفرادی مقابلے ہوئے۔ سب سے پہلے عمر بن الحضرمی کا بھائی عامر میدان میں نکلا اور مدمقابل طلب کیا۔ مقابلے پر حضرت عمر کا ایک غلام نکلا اور اس نے چشم زدن میں اس مغرور کا خاتمہ کر دیا۔ جو اپنے بھائی کا انتقام لینے کے لیے آیا تھا۔ اس کے بعد عتبہ بن ربیعہ اس کا بھائی شیبہ اور اس کا بیٹا ولید بن عتبہ میدان میں نکلے اور مبارز طلب کیے۔ تین انصاری صحابہ میدان میں نکلے لیکن ان تینوں نے یہ کہہ کر ان سے مقابلہ کرنے سے انکار کر دیا کہ یہ ہمارے ہم پلہ نہیں ہیں اور پکار کر کہا اے محمدصلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ہمارے مقابلے پر قریشی بھیجو۔ ہم عرب کے چرواہوں سے مقابلے کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ چنانچہ آپ کے ارشار پر حضرت حمزہ، حضرت علی اور حضرت عبیدہ مقابلے کے لیے نکلے۔ مغرور قریشی سرداروں نے ان کے نام پوچھے اور کہا۔ ”ہاں تم ہمارے ہم پلہ ہو“مقابلہ شروع ہوا۔ چند لمحوں میں حضرت حمزہ نے شیبہ کو جہنم رسید کر دیا اور حضرت علی نے ولید کو قتل کر ڈالا اور لشکر اسلام سے تکبیر کی آواز بلند ہوئی۔ اس دوران میں عتبہ اور حضرت عبید ہ نے ایک دوسرے پر بھرپور وار کیا اور دونوں زخمی ہو کر گر پڑے۔ حضرت علی اپنے مدمقابل سے فارغ ہو کر عتبہ کی طرف لپکے اور ایک ہی ضرب سے اس کا کام تمام کرکے حضرت عبیدہ کو لشکر میں اٹھا لائے۔ قریش نے اپنے نامور سرداروں کو یوں کٹتے دیکھا تو یکبارگی حملہ کر دیا تاکہ اکثریت کے بل بوتے پر لشکر اسلام کو شکست دیں۔
اس غزوہ میں مومنین کے جوش جہاد کا یہ حال تھا کہ ایک صحابی عمر بن جام کھجوریں کھا رہے تھے۔ انہوں نے حضور اکرم کا اعلان ”آج کے دن جو شخص صبر و استقامت سے لڑے گا اور پیٹھ پھیر کر نہ بھاگے گا وہ یقینا جنت میں جائے گا“۔ سنا تو کھجوریں پھینک دیں اور فرمایا ”واہ واہ میرے اور جنت کے درمیان میں بس اتنا وقفہ ہے کہ یہ لوگ مجھ کو قتل کر دیں۔“ یہ کہہ کر اتنی بہادری سے لڑے کہ شہید ہوئے اور چند لمحوں میں جنت کا فاصلہ طے کر لیا۔ میدان کارزار خوب گرم تھا قریش کے مغرور آہن پوش لوہے کے لباس سمیت کٹ کٹ کر گر رہے تھے۔ مسلمان بھی خود داد شجاعت دے رہے تھے۔ اس ہنگامے میں انصار کے دو کم عمر بچے معاذ بن عمر بن جموع اور معاذ بن عفر، حضرت عبدالرحمن بن عوف کے پاس آئے اور ان میں سے ایک نے کہا۔
”چچا! آپ ابوجہل کو پہچانتے ہیں وہ کہاں ہے۔ ہم نے سنا ہے کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی شان میں گالیاں بکتا ہے۔ اس پاک ذات کی قسم جس کے قبضے میں میری جان ہے اگر میں اس کو دیکھ لوں تو اس وقت تک اس سے جدا نہ ہوں گا جب تک کہ وہ مر نہ جائے یا میں شہید نہ ہو جاؤں“ اتفاق سے ابوجہل کا گزر سامنے سے ہوا۔ حضرت عبد الرحمن بن عوف نے اس کی طرف اشارہ کر دیا۔ یہ اشارہ پاتے ہی یہ دونوں ننھے مجاہد اپنی تلواریں لے کر اس کی طرف بھاگے۔ وہ گھوڑے پرسوار تھا اور یہ دونوں پیدل۔ جاتے ہی ان میں سے ایک ابوجہل کے گھوڑے پر اور دوسرے نے ابوجہل کی ٹانگ پر حملہ کر دیا۔ گھوڑا اور ابوجہل دونوں گر پڑے۔ عکرمہ بن ابوجہل نے معاذ بن عمر کے کندھے پر وار کیا اور ان کا باز لٹک گیا۔ باہمت نوجوان نے بازو کو راستے میں حائل ہوتے دیکھا تو پاؤں کے نیچے لے کر اسے الگ کر دیا اور ایک ہی ہاتھ سے اپنے شکار پر حملہ کر دیا۔ اتنے میں معاذ بن عفرا کے بھائی معوذ وہاں پہنچے اور انہوں نے ابوجہل کو ٹھنڈا کر دیا اور عبد اللہ بن مسعود نے اس کا سر تن سے جدا کر دیا۔
اس میدان بدر میں ابوجہل کے علاوہ امیہ بن خلف جس نے حضرت بلال پر بے پناہ ظلم ڈھائے تھے اور ابوبختری جیسے اہم سرداران قریش بھی مارے گئے۔ اور یہ مغرور لشکر میدان چھوڑ کر بھاگ کھڑا ہوا۔ اللہ تعالٰی نے اسلام کو فتح دی تھی اور دنیا نے دیکھ لیا کہ فتح و شکست میں مادی قوت سے زیادہ روحانی قوت کا دخل ہوتا ہے۔ مسلمانوں کے کل 14 آدمی شہید ہوئے۔ اس کے مقابلے میں قریش کے 70 آدمی مارے گئے جن میں سے 36 حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے ہاتھوں قتل ہوئے۔ 70 سے زیادہ گرفتار ہوئے۔ قریشی مقتولین میں ان کے تقریباً تمام نامور سردار شامل تھے اور گرفتار ہونے والے بھی ان کے معززین میں سے تھے۔ مثلاً حضرت عباس بن عبد المطلب ”حضور کے چچا“ عقیل بن ابی طالب، اسود بن عامر، سہیل بن عمرو اور عبد اللہ بن زمعہ وغیرہ۔
٭٭٭٭٭
تحریر۔ سید کاشف اعجاز