اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور نے وائس چانسلر صاحب کی ہدایت پر کسان بھائیوں کے لیے ٹڈی دل کے خاتمے کے لیے ہدایات جاری کر دیں
صحرائی ٹڈی دل کے خاتمے کا مربوط انتظام
جنوبی ایشیاء اور افریقہ میں گزشتہ برس اور رواں برس کے آغاز میں تباہی مچانے والے صحرائی ٹڈیوں کے مزید جھنڈ دوبارہ افزائشِ نسل کے مرحلے میں ہیں اور ان کے ممکنہ حملے کی دوسری لہر سے انسانی خوراک اور اس سے جڑی اشیاء کے خاتمے کے خطرات بڑھ رہے ہیں۔ ٹڈی دل کا یہ حملہ چوتھائی صدی کا بدترین حملہ ہے۔
اس طرح کی صحرائی ٹڈی جو کہ ٹڈے کی قسم کی ہے عموماً تنہائی پسند ہوتی ہے۔ یہ ایک انڈے سے نکل کر ایک نوجوان ٹڈی کی شکل اختیار کرتی ہے اور پھربالغ ٹڈیوں کے ہمراہ اڑنا شروع کرتی ہے۔ درجہ حرارت، ہوا میں نمی کا تناسب اورکثیر بارش اور دیگر موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے یہ صحرائی ٹڈیاں تبدیلی کے مختلف ادوار سے گزرتی ہیں، اور صحرائی خوراک کی زیادہ افزائش کی وجہ سے یہ ٹڈی دل اپنی جسمانی کیمیائی تبدیلیوں کے باعث زیادہ مقدار میں انڈے اور بچوں کی افزائش کرکے ایک بڑے لشکر کی شکل اختیار کر لیتی ہیں۔ جب سبز خوراک والا علاقہ کم پڑنے لگتا ہے تو پھر یہ تنہا رہنے والی مخلوق نہیں رہتیں اور اپنے خول سے باہر نکل کر ننھی وحشی مخلوق بن جاتی ہیں۔
اس نئے سماجی رابطوں کے دور میں اس کیڑے کے رنگ اور شکل میں تبدیلی آتی ہے، پھر یہ بڑے بڑے گروہوں کی شکل اختیار کر لیتی ہے۔ جو ایک وبا کی مانند غارت گری کرنے والے جھنڈوں کی طرح پرواز کرتے ہیں۔
اقوام متحدہ کے ادارہ برائے زراعت اور خوراک FAOکے مطابق ایک اوسط درجے کا جھنڈ ڈھائی ہزار افراد کی سال بھر کی خوراک تباہ کر سکتا ہے۔
حالات کی سنگینی
ٹڈی دل کا بحران ایک ایسے وقت سامنے آیا ہے جب دنیا کرونا وائرس کا شکار ہے اور اس وجہ سے مختلف ممالک میں پابندیاں بھی نافذ ہیں جس کی وجہ سے اس کے فوری تدارک کے اقدامات پیچیدہ ہو گئے ہیں۔
مزید یہ کہ موسموں میں شدت پیدا ہونے کی وجہ سے اس بحران میں اضافہ ہوا ہے۔ ٹڈیوں کے موجودہ بحران کی وجہ 2018-19ء میں ہونے والی شدید بارشیں اور آنے والے طوفان ہیں۔
صحرائی ٹڈیاں مغربی افریقہ سے لیکر انڈیا تک محیط 30ممالک میں پھیلے خشک آب و ہوا والے خطے میں رہتی ہیں۔
صحرائی ٹڈی کے جھنڈوں کا موجودہ اضافہ 2018ء سے شروع ہوا ہے۔ اور 2019ء کے اوائل میں ٹڈی دل نے یمن، سعودی عرب اور ایران کا رخ کیا۔ اور مشرقی افریقہ تک پہنچنے سے پہلے اپنی افزائش نسل بھی تیزی سے کی۔
مزید یہ کہ افریقہ، یمن اور جنوبی ایران میں آنے والے جھنڈوں کی افزائش 2019ء کے موسم بہار میں خاطر خواہ تقویت اختیار کر گئی۔ ابتدائی افزائش کے اکنٹرول میں ناکامی پر صحرائی ٹڈی دل کے جھنڈوں کی بہتات ہوئی اور موجودہ حالات کی سنگینی میں اضافہ کا باعث بنی۔
ٹڈی دل (مکڑی) کے بارے میں یاد رکھنے کی باتیں
اس وقت پورے ملک میں خاص طور پر بلوچستان اور پنجاب میں ٹڈی دل بہت بڑی تعداد میں موجود ہے۔ جنوبی پنجاب میں اس کے کافی سارے جھنڈ مختلف اضلاع پر حملہ آور ہیں۔
1۔ ٹڈی دل کو دیکھتے ہی کہہ دینا کہ حملہ ہو گیا ہے۔ یہ بات درست نہیں ہے۔ حملے کا مطلب ٹڈی دل کا کسی جگہ فصل یا درختوں پر بیٹھ جانا ہے اور فصل اور درختوں کے پتوں کو کھانا شروع کر دینا ہے۔
2۔ ٹڈی دل اجالے میں (یعنی دن کی روشنی میں) سفر کرتی ہے۔ اور ایک دن میں 120سے 250کلو میٹر تک کا سفر کر لیتی ہے۔ اگر کسی کو صبح 10بجے ٹڈی دل کا جھنڈ نظر آیا تو وہ یہ نہیں کہہ سکتا کہ میرے علاقے میں ٹڈی دل کا حملہ ہو گیا ہے کیونکہ ٹڈی دل نے تو ابھی 200کلو میٹر آگے جا کر بیٹھنا ہے۔
3۔ ٹڈی دل پر خاتمے کے لیے سپرے صرف بیٹھی ہوئی حالت میں ممکن ہے۔ اس کے لیے شام 7سے لیکر صبح 6بجے تک کا وقت ٹڈی دل پر سپرے کرنے کے لیے موزوں ہے۔
4۔ ٹڈی دل ایک صحرائی کیڑا ہے اس لیے ویرانے میں موجود درختوں اور جھاڑیوں پر بیٹھنا پسند کرتی ہے۔ اگر فصلات والے علاقے میں شام ہو جائے تو یہ تیل دار فصلات پر بیٹھنا پسند کرتی ہے۔ جیسا کہ کپاس، سورج مکھی وغیرہ کو بہت پسند کرتی ہے۔
کسان بھائیوں اور دوستوں سے التماس
ٹڈی دل کا جھنڈ دیکھتے ہی محکمہ زراعت سے رابطہ کریں یا محکمہ زراعت کی ہیلپ لائن 080017000پر یا PDMAکی ہیلپ لائن 1129پر اطلاع دیں۔
اطلاع دینے کا طریقہ
محکمہ کو ٹڈی دل کے جھنڈ کے بارے میں بتائیں کہ ٹڈی دل فلاں جگہ سے گزر رہا ہے اور اس کی چوڑائی تقریباً 2کلو میٹر اور لمبائی تقریباً 10کلو میٹر اور اس کے ساتھ اس کی جانے کی سمت مثلاً مشرق یا مغرب یا جو بھی ہو۔
انتہائی اہم معلومات
1۔ اس بات کو یاد رکھیں کہ صبح 9بجے سے لے کر شام 5بہجے تک جھنڈ کی چوڑائی کم ہوتی ہے اور لمبائی زیادہ ہوتی ہے۔ اور 5بجے کے بعد جھنڈ کی چوڑائی زیادہ ہو جاتی ہے اور لمبائی کم ہو جاتی ہے۔ جب سورج غروب ہونے لگتا ہے تو یہ ویرانے کی طرف یعنی آبادی سے دور چلی جاتی ہے۔
2۔ یہ ساری رات درختوں، جھاڑیوں اور دیگر پودوں پر بیٹھتی ہے۔ ساری رات ان کے پتے کھاتی ہے اور پیٹ بھرنے پر پتوں کو کاٹ کاٹ کر نیچے گراتی جاتی ہے۔ سورج کی روشنی پڑنے پر یہ دھوپ سینکنے کے لیے درختوں اور پودوں سے نیچے اتر آتی ہے۔اور جو بھی فصل وہاں پر موجود ہو اسے تہس نہس کر دیتی ہے۔
3۔ سورج کی روشنی تیز ہونے پر یہ اڑ کر دوبارہ سفر شروع کر دیتی ہے۔ اس بات کو یاد رکھیں کہ جب تک ٹڈی دل پر سورج کی روشنی نہیں پڑے گی یہ اپنی جگہ سے نہیں ہلے گی۔ چاہے جتنے دن بادل رہیں یہ اپنی جگہ پر بیٹھی رہے گی۔
4۔ اگر دن کے وقت کسی علاقے میں بیٹھ جائے تو اسے اپنی فصلات سے دور رکھنے کے لیے بہت زیادہ شور پیدا کریں۔ ڈھول، ٹین یا تھال کا بجانا کافی مؤثر ثابت ہوتا ہے۔ اپنی فصل کے قریب ٹائر جلا کر یا دھواں پیدا کرنے سے بھی ٹڈی دل اڑ جاتی ہے۔
5۔ اگرچہ اس وقت تحقیق جاری ہے کہ ماحول خراب کیے بغیر ان ٹڈیوں کا تدارک کیا جا سکے۔صحرائی ٹڈیوں کے خاتمے کا عمل ایک مشکل مرحلہ ہے۔ فی الحال سب سے زیادہ استعمال ہونے والا طریقہ کرم کش ادویات کا چھڑکاؤ ہے۔ ان حشرات پر ہاتھ یا گاڑی پر رکھ کر چلنے والی ULVسپرے مشینوں سے یا سپرے کرنے یا ہوائی جہاز سے سپرے کے ذریعے بڑے بڑے جھنڈوں کو نشانہ بنا کر کم وقت میں تلف کیا جا سکتا ہے۔
کسان بھائی بغور اپنی فصلات کا مشاہدہ کرتے رہیں اور ٹڈی دل کی رپورٹ محکمہ زراعت سے لیتے رہیں۔ اس کے علاوہ مندرجہ ذیل زرعی ادویات ٹڈی دل رات کے وقت بیٹھنے کی صورت میں متاثرہ جگہ پر سپرے کریں۔
1۔ لمبڈا سائی ہیلو تھرین بحساب 3ملی لٹر فی لٹر پانی
2۔ کلوروپیری فاس بحساب 4ملی لٹر فی لٹر پانی
3۔ فپرو نل بحساب 2ملی لٹر فی لٹر پانی
4۔ فینی ٹروتھیان بحساب4ملی لٹر فی لٹر پانی
5۔ ڈیلٹا میتھرین بحساب4ملی لٹر فی لٹر پانی
6۔ کاربائرل 10کلو گرام فی ایکڑ ڈسٹنگ
حفظ ما تقدم کے تحت مندرجہ بالا کیمیکل ادویات کا مناسب مقدار انتظام کر کے رکھیں اور ٹڈی دل کے حملہ کی صورت میں سپرے کریں۔
تحریر: عامر منظور (فارم مینیجر اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور)
Load/Hide Comments