کسان دوست پرندے اور ٹڈی دل
قدرت ہمیں ماحولیاتی نظام کے ذریعے لاتعداد قسم کے معاشرتی، ثقافتی، اور مالی فوائد فراہم کرتی ہے۔ ماحولیاتی نظام کے بارے میں تحقیق نے یہ ثابت کیا ہے، کہ قدرتی جانور خصوصا پرندے ہماری زراعت اور خوراک کی فراہمی میں بہت زیادہ اہمیت کے حامل ہیں۔ اگرچہ یہ پرندے ہمارے قدرتی ماحول میں مثبت کردار ادا کرتے ہیں، لیکن یہ کبھی کبھی ہمارے کاشتکاروں کے لیے پریشانی کا سبب بھی بنتے ہیں۔ خوراک کی بڑھتی ہوئی مانگ کو پورا کرنے کے لیے زراعت کو جدید طریقوں پر استوار کرنا اور قدرتی ماحول کے توازن کو برقرار رکھنا ایک بہت بڑا چیلنج ہے۔
زمین کو تقریبا دس ہزار اقسام کے پرندوں کا مسکن سمجھا جاتا ہے، جو کہ تمام براعظموں میں پھیلے ہوئے ہیں۔ یہ قدرتی پرندے انسان کو خوراک مہیا کرنے، ماحول کو صاف رکھنے، کیڑے مکوڑے کھانے، اور بیج بکھیرنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ کسان دوست پرندے کسان کی روزمرہ زندگی کے ساتھ مربوط ہوتے ہیں، جو فصلوں کے مختلف مراحل میں نقصان پہنچانے والے کیڑے مکوڑوں کو کنٹرول کر کے فصل کی برھوتری میں اضافہ کرتے ہیں۔ ایک تجزیے کے مطابق زرعی علاقوں میں پائے جانے والے پرندے سلانہ 28 ملین ٹن تک کیڑے مکوڑے کھا جاتے ہیں۔ پرندوں میں میٹابولیزم کی شرح بہت تیز ہوتی ہے، جس کی وجہ سے انہیں زندہ رہنے کے لیے خوراک کی وافر مقدار کی ضرورت ہوتی ہے۔
انٹرنیشنل ادارہ ایف اے او کے مطابق قدرتی پودے ہماری آکسیجن کا 95 فیصداور خوراک کا 80 فیصد ذمہ دار ہوتے ہیں، لیکن ان میں 40 فیصد تک غذائی فصلیں بیماریوں اور کیڑوں کی وجہ سے ضائع ہو جاتی ہیں۔ حالیہ ٹڈی دل کے حملوں کی وجہ سے پاکستان کے ساتھ ساتھ پوری دنیا میں غذائی قلت کا بحران پیدا ہوتا نظر آرہا ہے۔ پاکستان میں تقریبا 22 برس کے بعد یہ ٹڈی دل کا بڑا حملہ تصور کیا جا رہا ہے۔ یہ صحرائی ٹڈی دل مشرقی افریقہ، مشرق وسطی سے ہوتا ہوا ایران کے راستے سے پاکستان میں داخل ہوا ہے اور انڈیا تک پھیل گیا ہے۔ اس وقت ٹڈی دل پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخوا، سندھ، پنجاب اور بلوچستان خصوصا ان کے زرعی علاقوں میں نقصان کا باعث بن رہا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق ایک مربع کلومیٹر میں آٹھ کروڑ تک ٹڈی دل ہو سکتی ہیں، اور یہ روزانہ ایک سو پچاس کلو میٹر تک کا سفر کرسکتی ہیں۔
ٹڈی دل کے حملوں کے پیش نظرحکومت پاکستان نے ملکی سطح پر ایمرجنسی نافذ کر دی ہے، اور حکومتی اداروں کے ساتھ ساتھ پاک فوج بھی اپنے تمام تر وسائل بروئے کار لا رہی ہے۔ پورے ملک میں سروے کے بعد متاثرہ علاقوں میں کیڑے مار سپرے کیا جا رہا ہے لیکن یہ کیڑے مار زہر انسانوں مویشیوں یہاں تک کہ ان ٹڈیوں کے کھانے والے جانوروں کے لیے انتہائی نقصان کا باعث ہو سکتا ہے۔ ماحول میں قدرتی پرندے کیڑے مکوڑوں اور ان ٹڈیوں کے حملوں میں بہت مؤثر کردار ادا کرتے ہیں۔ ہمارے ملک میں مختلف اقسام کے مقامی اور مہاجر پرندے پائے جاتے ہیں جو کہ کسان دوست بھی سمجھے جاتے ہیں۔ جن میں بینک مینا، کامن مینا، بلیک ڈرونگو، ہاؤس کرو، کیٹل ایگریٹ، کامن بیبلرز، ہاؤس سپیرو، گرین بی ایٹر، روزی سٹارلنگ اور انڈین رولر قابل ذکر ہیں۔ یہ پرندے ہمارے زرعی علاقوں اور قدرتی ماحول میں کیڑے مکوڑوں کے توازن کو برقرار رکھنے میں بڑا اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ لیکن بدقسمتی سے ہمارے زراعت میں کیمیائی کھادوں اور زہروں کے بے تحاشہ استعمال اور بے دریغ شکار نے ان ماحول دوست پرندوں کو بہت نقصان پہنچایا ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق صرف کپاس کی کاشت کے علاقوں میں کیمیائی زہروں کے بے جا استعمال کی وجہ سے پرندوں کی آبادی میں 90 فیصد تک کمی آگئی ہے۔ جس کی وجہ سے ماحولیاتی توازن بگڑ کر رہ گیا ہے۔
ادارہ ایف اے او کے مطابق پوری دنیا میں ہر سال 2.5 ملین ٹن تک پیسٹی سائیڈ کا استعمال ہوتا ہے، جس میں وقت گزرنے کے ساتھ اضافہ ہو رہا ہے۔ پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک میں کل زرعی ادویات کے استعمال کا 80 فیصد صرف کپاس کے علاقوں میں ہوتا ہے۔ جس کی وجہ سے وہاں قدرتی جانوروں کی تعداد میں دن بدن کمی ہو رہی ہیں۔ زراعت میں فصلوں کا مکمل تحفظ حاصل کرنا بہت مشکل ہے۔ لیکن کیمیائی کھادوں اور زہروں نے ہمارے ماحول اور قدرتی پرندوں کو بے حد نقصان پہنچایا ہے، جس کا اندازہ ہم اپنی زراعت پر ٹڈی دل سے ہونے والے نقصانات سے لگا سکتے ہیں۔ ادارہ آئی یو سی این کے مطابق پوری دنیا میں پچھلے دو سو سالوں میں زراعت کی جدت سے پرندوں کی آبادی میں 60 فیصد تک کمی واقع ہوئی ہے۔ جنگلی حیاتیات میں کمی کا رجحان نہ صرف ایشیا میں بلکہ امریکا، یورپ اور افریقہ میں بھی دیکھنے میں آیا ہے۔ عالمی آب و ہوا میں بدلاؤ نے بھی زراعت اور قدرتی جانوروں کے لئے غیر یقینی صورتحال پیدا کردی ہیں، جس کی وجہ سے خصوصا پرندوں کی آبادی میں کمی، نقل مکانی، افزائش نسل اور ان کی خوراک کے مسائل بڑھتے جا رہے ہیں۔
قدرتی پرندوں کی آبادی میں نمایاں کمی اور ٹڈی دل کے بڑھتے ہوئے حملوں نے عالمی خطرے کی شکل اختیار کر لی ہے۔ جس کی وجہ سے خوراک کی پیداوار میں نمایاں کمی آنے کا اندیشہ ہے۔ صحرائی ٹڈی دل پر قابو پانا ایک بین الاقوامی ذمہ داری ہے، کیونکہ اس کا پھیلاؤ وسیع و عریض علاقوں اور ممالک میں محیط ہوتا ہے۔ ادارہ ایف اے او نے وارننگ جاری کی ہے، کہ جنوبی ایشیا میں آنے والی مون سون بارشوں سے ٹڈی دل کے حملوں میں شدت آ سکتی ہے۔ لہذا ہمیں ٹڈی دل کے موثر تدارک کے لئے بائیولوجیکل کنٹرول اور بائیو پیسٹی سائیڈ پر بھی توجہ دینی ہو گی، تاکہ ہم آنے والے وقت میں اپنے قدرتی ماحول اور پرندوں کو بچا سکیں۔ مختصرا میں ایک ایسی ٹھوس پالیسی مرتب کرنے کی اشد ضرورت ہے جو انسانوں، قدرتی جانوروں اور ہمارے زرعی نظام میں توازن برقرار رکھ سکے۔ شکریہ
ڈاکٹر محمد عبداللہ، اسسٹنٹ پروفیسر، چولستان انسٹیٹیوٹ آف ڈیزرٹ سٹڈیز، دی اسلامیہ یونیورسٹی آف بہاولپور، پاکستان
Load/Hide Comments