تحریر: عاصم صدیق
بہترین جمہوریت کے لیے صحافیوں کا تحفظ ضروری
جب سچائی کی بات ہوتی ہے تو سب سے پہلے ذکر صحافت کا ہوتاہے،، کیوں کہ صحافی ہی معاشرے کا وہ آئینہ ہوتا ہے جو معاشرے کے مسائل، کرپشن اورناانصافیوں کی نشاندہی کرتاہے۔ یہی بات ہے کہ صحافی کا تعلق خواہ خیبرپختونخواہ سے ہو یا پنجاب کے میدانی علاقے،،، سندھ سے ہو یا مکران سے ان کو ہمیشہ سچ بولنے کی سزا ملتی رہتی ہے۔
پاکستان پریس فائونڈیشن کے تحقیقات کے مطابق2002 آج تک 48صحافیوں کی ٹارگٹ کلنگ ہوئی ہے، 24صحافی کام کے دوران مارے گئے ہیں۔ صحافیوں پر سخت نوعیت کے 171 اور مائنز 77حملے ہوچکے ہیں۔ 18 صحافی سچ بولنے کی پاداش میں گرفتار ہوئے ہیں۔ 26صحافی اغواء اور دھمکیوں، میڈیا ہائوسز کے حملوں، صحافیوں کے گھروں پر حملوں سمیت 2002سے اب تک 699واقعات پیش آچکے ہیں۔ اتنی بڑی تعداد میں معاشرے کی آنکھ کا کردار ادا کرنے والی صحافیوں کا نشانہ بننا خود ایک سوالیہ نشان ہے۔ یہی بات ہے کہ آج سچ کو ڈھونڈنا بھی مشکل ہوچکاہے، معاشرے کے بگاڑ کو صحیح کرنے کے لیے صحافیوں کو قانون سازی کرکے تحفظ فراہم کرکے ان کے اندر سے سیکورٹی، دھشت اور تحفظ نہ ہونے کا خوف نکالنا ہوگا۔
ایک طرف تو بات کی جاتی ہے کہ حق رائے دہی کی آزادی ہے اور دوسری طرف اس آزادی کے استعمال پر بھیانک نتائج کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ پاکستان پریس فائونڈیشن کی تحقیقات کی روشنی میں چاروں صوبوں میں درپیش مسائل کی جانکاری اور صحافتی تنظیموں کے کردار کی جانکاری ضروری تھی۔ اس لیے چاروں صوبوں کے پریس کلبوں، یونین آف جرنلسٹ سے رابطہ کرنا ضروری تھا کہ صحافیوں کے یہ پلیٹ فارم صحافیوں کے لیے کیا عملی اقدمات کرتے ہیں اور حکومت کی جانب سے بھی کیا اقدامات کیے جارہے ہیں یا اس کے لیے آئین سازی کی ضرورت ہے۔
کراچی پاکستان ایک ایسا شہر ہے جوپاکستان کی معشیت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتاہے۔ اس کی معاشی اہمیت اپنی جگہ مگر صحافت کے اعتبار سے ہمیشہ کراچی کیاہمیت رہی ہے۔ کسی بھی ٹی وی چینل کی بڑی خبر کا آغازہمیشہ کراچی سے ہوتاہے۔ کراچی کے امن وامان کی خراب صورت حال میں ہمیشہ دھمکیوں، مارپیٹ اور قتل جیسے واقعات میں کراچی کے صحافی ہمیشہ نشانہ بنتے رہتے ہیں۔اندرون سندھ بھی وڈیرہ شاہی کے نظام نے صحافت کو ہمیشہ اپنا غلام بنانے کی کوشش کی ہے۔ کراچی اوراندرون سندھ کے صحافیوں کی مشکلات اور تحفظ کی جانکاری اور کوششوں سے آگاہی کے لیے صدر کراچی پریس کلب امتیازفاران سے رابطہ کیاگیا۔
امتیازفاران نے کراچی اور اندرون سندھ کے حالات کے بارے میں بات کرتے ہوئے بتایا کہ ادارے خواہ سیاسی ہوں یا غیر سیاسی کوئی بھی صحافیوں کوقبول نہیں کرتے۔ سیاست دان یا بیوروکریسی صرف اپنے پرموشن کے لیے صحافیوں کو قبول کرتے ہیں۔ حکومت کی جانب سے جاری کردہ ایکریڈیشن کارڈ پر لکھا ہوتا کہ دوران ڈیوٹی ان کو مکمل سہولت دی جائے لیکن کوئی سرکاری ادارہ اس کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔ صحافیوں کو لسانی اور مذہبی گروپس سے بھی سب سے زیادہ خطرہ ہوتاہے۔ تمام ادارے خواہ کوئی بھی ہوں وہ اپنی رائے مسلط کرنا چاہتے ہیں۔آئین میں تمام سرکاری ادروں کے تحفظ کی بات کی ہے اگر اس پر بات کی جائے تو غداری کا الزام عائد ہوجاتاہے۔ مگراسی آئین میں آزادی رائے اور آزادی صحافت کی بھی بات ہے مگر اس کو کوئی بھی نہیں مانتا۔ توتمام اداروں نے خود احتسابی کا اپنا نظام بنایاہواہے، وکلاء کے لیے بار کونسلز اور ججز کے احتساب کے لیے سپریم جوڈیشل کونسل قائم ہے، مگر صحافیوں کے احتساب کے نام اور ہی کلیہ استعمال کیاجاتاہے۔ خبرکی صحیح تشریح صرف صحافی ہی کرسکتاہے۔ صحافی کے بارے میں شکایت کی صورت میں پریس کلب، یونین آف جرنلسٹ ، سینئر صحافیوں اور ادروں پر مشتمل پینل میں رابطہ کرنے کا نظام ہونا چاہیے تاکہ صحافی کا بھی صحیح احتساب ہوسکے۔ کراچی پریس کلب محدود وسائل میں رہتے ہیں صحافیوں کے تحفظ اور بہبود کے لیے کام کرتاہے جس میں کچھ ہسپتالوں کے ساتھ علاج معالجہ کی سہولت کا معاہدہ کیاگیاہے۔ 2009میں کراچی پریس کلب کی رکن ماہا گل کی کوششوں سے کراچی پریس کلب کے ممبرز کے بچوں کے لیے ہائیر ایجوکیشن فنٖڈز کا آغاز 5لاکھ روپے سے کیا گیا تھا جو آج بھی جاری ہے۔ امتیاز فاران کا کہنا تھا کہ 20کروڑ کی آبادی میں صحافیوں کی تعداد جن میں کارکنوں، ٹیکنکل اسٹاف کو بھی ملالیاجائے تو 2لاکھ سے زائد نہیں ہوں گے۔ صحافی ایک سوچ کے لیے کام کرتے ہیں، معاشرے کی بہتری کے لیے کام کرتے ہیں اور اس لیے ان کی حفاظت انتہائی ضروری ہے۔ جب بھی ہم انٹرنیشنل میڈیا کے ساتھ کسی بھی اسائنمنٹ پر ہوتے تھے تو ہمیں شرمندگی کا سامنا کرنا پڑتا تھا کہ ان کی حفاظت کے لیے ادارے کیسے کام کرتے ہیں ان کی جسم کے ہر عضاء تک کی انشورنس ہوتی ہے مگر ہمارے پاس کچھ بھی نہیں ہوتا۔ صحافیوں کے تحفظ کے لیے حکومتی سطھ پر جرنلسٹ ویلفیئر اینڈ پروٹیکشن بل انتہائی ضروری ہے۔
پاکستان کا آبادی اور وسائل کے حوالے سب سے بڑا صوبہ پنجاب ہے اور پاکستان کا دوسرا بڑا شہر لاہور بھی اسی صوبے کا شہر ہے۔لاہور پریس کلب کے جنرل سیکرٹری زاہد عابد سے صوبہ پنجاب اور لاہور کے صحافیوں کے حالات اور مشکلات کے حوالے سے رابطہ کیاگیا۔ جنرل سیکرٹری پریس کلب لاہور زاہد عابد کا کہنا تھا کہ کسی بھی صحافی کو پیشہ وارانہ طورپر کسی بھی ادارے کی جانب سے کوئی ٹریننگ ہوتی ہے اور نہ ہی گائیڈ لائن ہوتی ہے۔ ادارے کی جانب سے ہمیشہ یہ ہوتا ہے کہ بہتر سے بہتر فوٹیجز اور خبر چاہیے۔ صحافتی ادارے کوئی بھی حفاظتی تربیت یا ورکشاپ نہیں کراتے۔ ایسے میں صحافیوں کا ایڈونچر ان کے لیے جان لیوا بھی ثابت ہوتاہے۔ زاہد عابد کا کہنا تھا کہ جب کسی صحافی کو دھمکی دی جاتی ہے تو ایسے میں پریس کلب ایسا فورم ہے جو فوری ریسپانس دیتاہے۔صحافیوں کی حفاظتی اقدامات کی تربیت کے لیے پریس کلب کا فورم تربیتی ورکشاپس کا انعقاد کرتا رہتاہے اور صحافیوں کے فلاح کے لیے پریس کلب پنجاب حکومت سے ملنے والی سالانہ 50لاکھ گرانٹ میں سے دیگر اخراجات کے ساتھ انشورنش کی رقم بھی ادا کی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ حکومت کے ساتھ مل کر فنڈز بھی بنایا گیا ہے جس میں صحافیوں کی ضرورت کو بھی پورا کیا جاتاہے۔پریس کلب کی جانب سے محدود وسائل میں رہتے ہوئے کوشش تو کی جاتی ہی ہے مگر ساتھ ہی ان کے تحفظ کے لیے مستقل طورپر عملی اقدام ہونا چاہیے، تاکہ کسی بھی ایڈونچر کا حصہ نہ بن سکیں۔ صحافی بھی اسی معاشرے کا حصہ ہیں، جان سب کی ایک جیسی ہے، اگر کسی کا بھی قتل ہو اس کی قانون کے مطابق کاروائی ہونی چاہیے۔ مگربدقسمتی سے اس کےبارے میں قانون موجود ہونے کے باوجود اس پر عمل درآمد کرانا سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ تفتیش، عدالتوں کے مراحل اور اداروں کے مسائل ایسے ہیں کہ کسی صحافی کے قاتل کو سزا ملی ہو۔ صحافیوں کے تحفظ کے لیے قانون سازی بھی ضروری ہےاور اس پر عمل درآمد بھی۔
خیبرپختوانخواہ کے صحافیوں کے مسائل بھی جاننا ضروری تھا، اس کے لیے خیبریونین آف جرنلسٹ کے صدر فداخٹک سے رابطہ کیاگیا تو ان کا کہنا تھا کہ خیبرپختونخواہ میں ملک کے دیگر علاقوں سے زیادہ مشکل ہے۔ خیبرپختواہ میں 20سال سے سیکورٹی کے حالات ابتر ہیں، اس میں ایسے بہت سےعلاقے ہیں جہاں صحافیوں کا جانا ممنوع ہے۔ ۔خیبرپختونخواہ کے صحافیوں کو حکومتی اداروں کی جانب سے پیشہ وارانہ ذمہ داریاں ادا کرنے سے روکا جاتا ہے اور دھشت گرد گروپس کی جانب سے بھی خطرہ لاحق ہوتاہے۔ پشاور پریس کلب دنیا کا واحد پریس کلب ہے جہاں 2009میں خودکش حملہ بھی ہوا۔ خیبریونین آف جرنلسٹ آزادی صحافت کے لیے جدوجہد کرتی ہے۔صحافیوں کی تربیت اور حفاظتی اقدامات کے لیے مختلف تنظیموں اور این جی اوز کے تعاون سے ورکشاپس کا انعقاد بھی کیاجاتاہے۔ جس میں سینئر صحافی محفوظ رہ کر پیشہ وارانہ ذمہ داری کاادا کرنے کی تربیت دیتے ہیں۔ اس کے لیے گزشتہ ڈیڑھ سال میں 15 سے زائد ورکشاپس کا انعقاد ہوچکاہے۔ خیبریونین آف جرنلسٹ نے حکومت کے ساتھ مل کرساڑھ چھ کروڑ روپے سے انڈولمنٹ فنڈز بھی بنایا ہے۔ صحافتی ذمہ داریوں کے دوران کسی بھی صحافی کی موت واقع ہوجائے تواس کو خاندان والوں کو 10لاکھ روپے ادا کیے جاتےہیں، موجودہ کابینہ نے اس کو بڑھا کر 20لاکھ روپے کرنے کی منظوری دے دی ہے جس کی جلد ہی اسمبلی سے بھی منظوری ہوجائے گی۔ صحافیوں کے درپیش مسائل کے حل کے لیے محدود کوششیں تو کی جارہی ہیں مگر اس کے لیے مکمل ضابطہ اخلاق یا قانون سازی کی بھی ضرورت ہے۔ صحافیوں سمیت ہر شہری کو تحفظ کی ضرورت ہے۔ ہمارا ہمیشہ سے یہ مطالبہ رہا ہے کہ آئینی پاکستان میں جو بھی آزادی رائے کے لیے تحفظ دیاگیا ہے اس پر عمل درآمد کے لیے حکومت کی ذمہ داری ہے کہ ماحول فراہم کرے۔ حکومت کو مناسب آئین سازی کرکے صحافیوں کے تحفظ کو قابل عمل بنانے کی ضرورت ہے۔
بلوچستان یونین آف جرنلسٹ ک صدر ایوب ترین سے بلوچستان میں صحافتی دشواریوں کے بارے میں جاننے کے لیے رابطہ کیاگیا تو ان کا کہنا تھا کہ بلوچستان صحافت کے اعتبار سے سب سے زیادہ متاثرہ صوبہ ہے۔ بلوچستان میں بہت سے واقعات میں قصور صحافیوں کا ہی ہے۔ انہوں نے انجانے میں ایسی رپورٹنگ کی جس کے بعد ان کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ بلوچستان میں صحافیوں کے قتل یا ان کے خلاف زیادہ ترواقعات اندرون بلوچستان کے علاقوں میں ہواہے۔ جس میں بہت سے سارے صحافی ایسے ہیں جو اپنی نوکری کے ساتھ صحافت کرتے ہیں، ان کوخبر بنانے کے حوالے سے زیادہ تجربہ نہیں ہوتا۔ یہاں پرقبائلی اور سرداری نظام ہےیہ معلوم نہیں ہوتا کہ کون سی خبر سردار کو اچھی لگتی ہے کہ نہیں۔ یہی وجہ ہے بلوچستان یونین جرنلسٹ محدود وسائل میں صحافیوں کے تحفظ کی کوشش کرتی ہے۔ صحافیوں کو تحفظ کے لیے مختلف سیمینار اور کانفرنس کا انعقاد کراتی رہتی ہے۔ جس میں ان کوجانبدارانہ کی بجائے متوازن رپورٹ بنانے کی تربیت دی جاتی ہے۔ صحافیوں کے تحفظ کی ذمہ داری اسٹیٹ کی ہے۔ مگر پاکستان میں کوئی قانون نہیں ہے جس کے تحت صحافیوں کے تحفظ کو یقینی بنایاجاسکے۔
1973کے آئین کے تحت ترمیمی بل 2014میں قومی اسمبلی میں پیش کیاگیا۔ جسے قومی اسمبلی نے منظور کرلیا۔ جس میں دوران ڈیوٹی صحافیوں کی حفاظت کی ذمہ داری حکومت کی مقرر کی گئی ۔ صحافی کے کہنے پر اس کو سیکورٹی مہیا کی جائے گی۔ صحافی کے اغواء یا قتل کی صورت میں خصوصی عدالت میں کیس چلایاجائے گا۔ اس ایکٹ کے تحت نیشنل پریس کونسل بھی بنائی گئی۔ جس میں تمام پاکستان یونین آف جرنلسٹ ، آل پاکستان نیوز پیپر سوسائٹی، پاکستان براڈ کاسٹر ایسوسی ایشن، کونسل آف پاکستان نیوز پیپرز ایڈیٹرز، چیئرمین پیمرا، سیکرٹری منسٹری آف انفارمیشن اور سیکرٹری داخلہ ممبر بنائے گے۔ نیشنل پریس کونسل نے صحافیوں کے مسائل کو دورکرنے کے حوالے سے کردارادا کرنا، صحافیوں کے شکایت کودورکرنے کے لیے عملی اقدامات ، صحافیوں کی حفاظت اور ان کے وقار کے لیے سیمینار، ورکشاپ اورکانفرنس کا انعقاد کیاجائے گا۔
2014کے ایکٹ میں صحافیوں کے مکمل تحفظ، سیکورٹی، ان کے قتل یا اغواء کی صورت میں قانونی تحفظ، ٹرائل سمیت دیگر معاملات کے بارے میں کچھ بھی وضع نہیں تھا۔ 2017میں سینٹ کی قائمہ کمیٹی برائے انفارمیشن کی جانب سے جرنلسٹ ویلفیئر سیفٹی اینڈ پروٹیکشن کا ترمیمی بنایا گیا۔ جس میں صحافتی تنظیموں کے تمام اسٹیک ہولڈرز کےساتھ میں لے کرمکمل کرنے کی کوشش کی گئی۔ جس میں صحافتی تنظیموں کی جانب سے اس بل کی مختلف شقوں پر تحفظات کا اظہار کیاگیا۔ مگر صحافتی تنظیموں اور سینٹ کی قائمہ کمیٹی کے درمیان مذاکرات کامیاب نہ ہوسکے اور یہ بل منظور نہ ہوسکا۔
2017کے بل میں سینٹ کی قائمہ کمیٹی برائے انفارمیشن کے ساتھ ہونے والی میٹنگ میں نیشنل پریس کلب اسلام کے اس وقت کے جوائنٹ سیکرٹری عابد علی عباسی بھی شامل تھے۔ ان سے اس ترمیمی بل میں صحافیوں کے تحفظات کے بارے میں پوچھنے کے لیے رابطہ کیاگیا عابدعلی عباسی نے بتایا کہ سینٹ کمیٹی کے قائمہ کمیٹی کے ساتھ اس بل کے بارے میں مختلف میٹنگز کی گئی ۔صحافیوں کے لیے انڈولمنٹ فنڈز بنانے کا کہا گیا تھا۔ جس میں ابتدائی طورپر 20کروڑ روپے کی رقم مختص کرنے کے بارے میں کہا گیا تھا۔ سیکورٹی اداروں کے شہداء کی طرح قتل ہونے والے صحافیوں کو بھی وہی مراعات دی جائیں۔ نیشنل جرنلسٹ کونسل بنائی جائے جس میں حکومتی اورتمام صحافتی تنظیموں کے اسٹیک ہولڈرز کو شامل کیاجائے۔ اس بل کے تحت صحافتی اداروں کو ذمہ داری عائد کی گئی تھی کہ اپنے ادارہ میں کام کرنے والوں کی تربیت کرائیں گے۔ صحافیوں کے قتل یا اغواء کے کیسز کو جلد از جلد نمٹایاجائے اور ان میں شامل افراد کے خلاف کاروائی میں تیزی لائی جائے۔ سب اہم بات اس میں یہ شامل تھی کہ کوئی بھی صحافی کسی خبر کا کسی بھی فورم پر اپنا سورس نہیں بتائے گا۔ سینٹ کی قائمہ کمیٹی کے ساتھ ہونے والے مذاکرات میں سورس بتانے اور دیگر معاملات پر صحافتی تنظیموں نے تحفظات کا اظہار کیا، جس کے بعد اس بل کو مسترد کردیاگیا