رحیم یار خان ( ) خواجہ فرید یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی رحیم یار خان میں منعقدہ انٹرنیشنل کے دوسرے روز خطاب کرتے ہوئے شرکا نے کہا کہ خواجہ غلام فرید کی شاعری میں امن و محبت کا پیغام آفاقی ہے، خواجہ فرید کانفرنس ہر سال ہونی چاہئے، انہوں نے کہا مصر، ایران میں صوفیانہ تصور وہی ہے جو خواجہ فرید کی شاعری میں نظر آتا ہے، سعدی اور خواجہ فرید کا تصورِ عشق اور تصوف مشترک ہے۔
استقبالیہ کلمات میں رجسٹرار خواجہ فرید یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی ڈاکٹر اصغر ہاشمی نے کہا کہ یہ خواجہ فرید کی برکات ہیں کہ یہ یونیورسٹی انہی کے نام سے آباد ہے، شرکا نے مدلل گفتگو کی اور خواجہ غلام فرید کی صوفیانہ زندگی کے درخشاں پہلووں پر روشنی ڈالی، انہوں نے کہا کہ خواجہ فرید کی شاعری میں امن و محبت کا پیغام آفاقی ہے۔ انہوں نے کہا کہ حکومتِ پنجاب کے کوارڈینیٹر مرتضی نور اور وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر سلیمان طاہر نے ‘خواجہ فرید انڈوومنٹ فنڈ’ میں پانچ، پانچ لاکھ روپے عطیات دیئے جو آئندہ مستحق طلبہ و طالبات کی تعلیم کے لئے دور رس نتائج کا حامل ہوگا۔
جامع الزہر یونیورسٹی قاہرہ مصر سے پروفیسر احمد محمد احمد القاضی نے کہا کہ محبت صرف انسانوں تک محدود نہیں بلکہ حیوانیات و نباتات بھی شامل ہیں، مصر میں شیخ عبدالواسطی نے تصورِتصوف پھیلایا، سید احمد البنووی، شیخ احمد البسوقی، اور دیگر صوفیہ نے سلسلہِ تصوف کا پرچار کیا۔ انہوں نے کہا کہ مصر میں تمام سلسلوں کی ایک سپریم صوفیہ کونسل ہے جو تصوف اور صوفیانہ معاملات کو دیکھتی ہے، پاکستان میں سلسلہ قادریہ، چشتیہ، نقشبندیہ اور دیگر سلسلوں کو معروف صوفیا کرام نے پھیلایا جن میں خواجہ غلام فرید نمایاں مقام رکھتے ہیں، خواجہ فرید سمیت دیگر بزرگانِ دین کی زندگیاں ہمیں محبت، امن اور اخلاص کا درس دیتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ مسلمانوں کے ساتھ ساتھ غیر مسلم بھی بزرگانِ دین کے مزارات پہ جاتے ہیں اور ان ہستیوں کو مقدس مانتے ہیں۔ ڈاکٹر احمد محمد احمد نے برصغیر پاک و ہند اور مصر کے صوفیا کرام اور ان کی تعلیمات کا تفصیلی جائزہ بھی پیش کیا۔
ایران سے تشریف لانے والی پروفیسر ڈاکٹر وفا یزدا نے کہا کہ خواجہ فرید کے تصورِ عشق سعدی شیرازی کے تصورِ عشق میں مماثلت ہے، خواجہ فرید کی شاعری کلی طور پر عارفانہ کلام ہے، انہوں نے کہا کہ خواجہ فرید خود پسندی کے خول سے نکل کر ایک سچے عاشقِ حقیقی تھے، دونوں شعرا بشمول خواجہ فرید اور سعدی کی شاعری میں سمندر، آگ، پانی، عشق، شکوہِ یار، فطرت کے مناظر مشترک ملتے ہیں۔ ڈاکٹر وفا نے دونوں شعرا کی شاعری کا تقابلی جائزہ بھی پیش کیا۔
امریکہ سے بین الاقوامی شہرت یافتہ پروفیسر ڈاکٹر سلیم ملک نے کہا چاچنڑاں شریف میں خواجہ غلام فرید شہرت و ناموری کے اوجِ کمال تک جسمانی و روحانی مشکلات سے گزرنے کے بعد پہنچے، خواجہ فرید سلسلہِ چشتیہ کے نامور بزرگ تھے، انہوں نے کہا کہ خواجہ غلام فرید کی آواز آج بھی ریت کے ٹیلوں، ستلج کی روانیوں اور فضا میں گونجتی نظر آتی ہے۔
اس موقع پر پروفیسر ڈاکٹر مختار نے کہا کہ قدیم روہی اور جدید روہی کا حسین امتزاج خواجہ فرید کی شاعری میں ہر جگہ نظر آتا ہے، انہوں نے کہا کہ ‘ہِک دی سِک’ سے بڑا وحدت الوجود کا اظہار اور کیسے ہوسکتا ہے، خواجہ فرید نے اپنی چشمِ بینا سے اس صحرائی خطہ کو گلزار میں بدلنے کا خواب دیکھا جسے نواب آف بہاولپور نے پورا کیا، خواجہ فرید کے مرید نواب کی علم دوستی پنجاب یونیورسٹی اولڈ کیمپس، ڈی پی آئی اور دیگر سرخ رنگ کی عمارتوں میں نظر آتی ہیں۔ انہوں نے تجویز پیش کی کہ مجاہد جتوئی جنہوں نے خواجہ فرید پر لاجواب کام کیا انہیں اعزازی ڈگری دی جائے۔
ڈاکٹر عباد نبیل شاہ نے کہا کہ جب تم ہم نچلی سطح پر صوفی شعرا کی زبان کو نہیں پڑھائیں گے تب تک صوفی کی بات سمجھ نہیں آئے گی، صوفی کی فکر تک پہنچنے کے لئے زبان کو پڑھنا اور پڑھانا پڑے گا، انہوں نے مزید کہا کہ خواجہ فرید کی صوفیانہ شاعری اور تصوف کی لو آج تک پورے جوبن کے ساتھ چمک رہی ہے، خواجہ فرید ابن العربی کو امام مانتے ہیں، اس لئے اپنی شاعری میں رب راضی کرنے کا درس دیتے ہیں۔ معروف سرائیکی شاعر پروفیسر مظہر محسن بلوچ نے خواجہ فرید کے عشق میں کوئی آمیزش نہیں، تصنع نہیں بلکہ ان کی شاعری فطرت کی عکاسی کرتی ہے، خواجہ صاحب کی فکر فرد شناسی سے خدا شناسی تک پھیلی ہوئی ہے، خواجہ فرید کی شاعری میں دانش و حکمت کے دفینے موجود ہیں، نقوشِ عرضی، دریاوں کا وجود میں آنا، قبائل کا ادب، عقائد و نظریات خواجہ فرید کے علاقائی فکر میں واضح نظر آتے ہیں۔ انہوں نے کہا دیوانِ فرید میں زمین و آسمان کے ٹھہراو، انسانیت کی عظمت، فضائی مشاہدات، زمینی حقائق واضح نظر آتے ہیں۔ صدر چیمبر آف کامرس رحیم یار خان نے کہا کہ خواجہ فرید فاونڈیشن میں چیمبر آف کامرس یقینا شامل ہوگا اور مناسب رقم عطیہ کرینگے۔
محمد افضل ناصر چشتی نے کلامِ فرید مترنم انداز میں پیش کیا اور شرکا سے داد و تحسین وصول کی۔ بعد ازاں رجسٹرار ڈاکٹر اصغر ہاشمی نے کانفرنس کے شرکا میں اعزازی شیلڈز تقسیم کیں۔ صدرِ شعبہ اردو ڈاکٹر زاہد اختر شاہین نے نطامت کے فرائض سرانجام دئے۔
کانفرنس کے تمام شرکا نے کرونا ایس او پیز کا مکمل خیال رکھا
Load/Hide Comments