“یوم مزدور اور ہماری ذمہ داریاں”

یوم مزدور اور ہماری ذمہ داریاں

یکم مئی کو عالمی سطح پر یوم مزدور کے طور پرمنایا جاتا ہے، اس روز ہمارے دفاتر، سکول، کالج، فیکٹریاں اورکارخانے عام تعطیل کا اعلان کرتے ہیں۔شدید گرمی میں سرخ جھنڈے اٹھا کر مزدور سڑکوں، چوراہوں اوردیگر عوامی جگہوں پر جلسے جلوسوں کا انعقاد کرتے ہیں۔یہ. دن دراصل اس تاریخی پس منظر کی یاد تازہ کرتاہے جب انیسویں صدی کے وسط میں روس میں مزدوروں سے بیس بیس گھنٹے کام لیا جاتا تھااور معاوضہ اتنا قلیل دیا جاتا تھا کہ دو افراد کا گزارہ بمشکل سےہوتا تھا، جو ہاتھ !”ٹنوں”کے حساب سے فصلیں کاٹتے، تھے، گھروں میں ان کے بچے بھوک سے بلک رہے ہوتے تھے، جو ہاتھ کارخانوں میں گزوں کپڑوں کےتھان بنتے ان کے بچے اور عورتیں مفلسی کے باعث بے لباس ہوتے. تھے، کام، کرنے کے مقررہ اوقاف کا تعین نہ ہونے کی وجہ سے امریکہ میں بھی مزدوروں سےسولہ سولہ گھنٹے کام لیا جاتاتھا، دیگر متمدن معاشروں میں بھی انسان کو بیل کی جگہ ایک ترقی یافتہ جانور تصور کیا جاتا تھا۔ان حالات کے پیش نظر امریکہ میں مزدوروں کا مطالبہ تھاکہ ہمارے اوقات کار کا تعین کیاجائے تاکہ ہم آٹھ گھنٹے کام کریں اور آٹھ گھنٹے اپنے خاندان پر توجہ دے سکیں چنانچہ امریکی مزدوروں نے یکم مئی 1886ء کو بے روزگاری اور سرمایہ دارانہ نظام کے جبر کے خلاف ہڑتال کا اعلان کیا،امریکہ کے صنعتی شہر شگاگو میں تمام گورے اورسیاہ فام مزدور کارخانے اور فیکٹریاں بند کر کے سڑکوں پر نکل آئے اور امریکی قوانین پر سراپا احتجاج بن گئے ۔یہ احتجاج یکم مئی سے تین مئی تک جاری رہا، زندگی کا تمام نظام ٹھپ ہوکررہ گیا، چنانچہ سرمایہ داروں کے اشارے پر ہڑتال کرنے والوں پر پولیس نے اندھا دھند فائر کھول دیا جس کے نتیجے میں کئی مزدور ہلاک ہوگئے، احتجاج مذید طول پکڑ گیا، 4-مئی کو اڑھائی لاکھ محنت کشوں نے اپنے ہلاک ہونے والے ساتھیوں کے سوگ میں ایک اور جلوس نکالا جلوس کے شرکاء نے ہاتھوں میں امن کی علامت کے طور پر سفید جھنڈے تھامے ہوئے تھے۔شکاگو کے ایک چوک پر سیکڑوں افراد کا مجمہ تھا لوگ اپنے مطالبات کے حق میں نعرے لگا. رہے تھے اور اپنے ساتھیوں کی ہلاکت پر سراپا احتجاج تھے کہ اس روز پولیس اور فوج نے مل کر ان پر بے تحاشا فائرنگ شروع کردی، ہر طرف خون ہی خون نظر آنے لگا، مزدوروں نے ہاتھوں میں جو سفید پرچم تھامے ہوئے تھے وہ سرخ ہوگئے اسی کی مناسبت سے اب مزدور تحریک کا جھنڈاسرخ رنگ کا ہے، بعض نے اپنی قمیصیں پھاڑ کر ان کے خون میں سرخ کرلیں، پکڑ دھکڑ کا سلسلہ شروع ہوا کئی مزدوروں کو پھانسی پر لٹکا دیا گیا ۔حالانکہ ان کے خلاف کوئی ثبوت نہیں تھا کہ وہ اس واقعے میں ملوث ہیں۔ انہوں نے مزدور تحریک کے لیے جان دے کر سرمایہ دارانہ نظام کا انصاف اور بربریت واضح کر دی۔ ان ہلاک ہونے والے رہنماؤں نے کہا تھا: ’’تم ہمیں جسمانی طور پر ختم کر سکتے ہو لیکن ہماری آواز نہیں دباسکتے ‘‘اس جدوجہد کے نتیجے میں دنیا بھر میں محنت کشوں نے آٹھ گھنٹے کے اوقات کار حاصل کیے ۔
1889ءمیں شکاگو کے مزدور رہنما “ریمنڈ لیوین”نے تجویز پیش کی کہ یکم مئی کو شکاگو کے مزدوروں کی قربانی کی یاد میں بطور “یوم مزدور” کے طور پر منایا جانا چاہئے، چنانچہ یکم مئی 1890ءکو پہلی بار یوم مزدور منایا گیا اس سلسلے میں بہت شاندار تقریبات کا انعقاد کیا گیا، یہ تجویز بہت کامیاب رہی اس کے بعد یہ دن عالمی سطح پر منایا جانے لگا ہے۔پاکستان میں یہ دن پہلی بار ذوالفقار علی بھٹو کے دور حکومت میں یکم مئی 1972ءمیں منایا گیا ۔یکم مئی کو تقریباً ہمارے بہت سے دیہی علاقوں میں گندم کی فصل پک کر تیار ہوتی ہے، اس روز میں نے اکثر مزدوروں کو چھٹی کی بجائے گندم کاٹتے دیکھاہے۔میں نے ایک پرانی عمر کےمزدور سےپوچھا کہ یہ دن تو آپ کے آرام کا ہے اس روز آپ کام کیوں کرتے ہو، اس نے کہا یہ چھٹی کا دن نہیں بلکہ بھٹو نے ہمیں یہ دن گندم کی کٹائی کے لیےدیاتھا-
پاکستان میں کرونا کی وبا کی وجہ سے تقریباً ڈیڑھ کروڑ مزدور بے مزد اپنے گھروں میں بیٹھا ہے آج کے اس دن کی مناسبت سے ہماری ذمہ داری ہے کہ ہمیں اپنی بساط کے مطابق کسی ایک مزدور کے گھر راشن ضرور پہنچانا ہے تاکہ کسی مزدور کے بچوں کی سانسوں کی ڈوری بھوک کی وجہ سے نہ ٹوٹنے پائے ۔

—————– ڈاکٹر رمضان طاہر،
شعبہ اقبالیات اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور

اپنا تبصرہ بھیجیں