رحیم یار خان ( )حکومت پنجاب نے تحفظ کے بجائے گنے کے کاشتکاروں پر بجلی گرا دی ,کاشت کار کے تحفظ کے سارے قانون ختم کر کے شوگر انڈسٹری کو ہرممکن تحفظ فراہم کر دیا گیا.کاشت کار سراپا احتجاج بن کر رہ گئے
تفصیلات کے مطابق قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں بیٹھے شوگر ملز مالکان اور اس سے وابستہ شخصیات نے انتہائی خفیہ طریقے سے پنجاب اسمبلی سے شوگر مل مالکان کے حق میں قانون پاس کر کے غریب کسانوں کے منہ سے نوالہ چھین لیا ہے۔
اس ڈاکہ زنی کی تفصیل یوں ہے کہ چھ ماہ پہلے وزیراعظم کی ہدایت پر شوگر فیکٹریز آرڈیننس جاری کیا گیا جس سے کسانوں کے مفادات کا تحفظ کیا گیا تھا۔ کسانوں کو گنے کا ریٹ مناسب اور ٹائم پر ملا اور گنے سے ناجائز کٹوتیاں نہیں ہوئیں۔ تاہم ابھی چند روز قبل پنجاب اسمبلی کی کمیٹی نے شوگر مافیا کے ساتھ بھیانک گٹھ جوڑ کرتے ہوئے آرڈیننس کی دھجیاں اڑا دیں اور اسمبلی سے انتہائی کسان دشمن قانون پاس کروا لیا ھے جس کی آج گورنر پنجاب نے منظوری بھی دے دی ہے۔ چھ ماہ قبل جاری کردہ شوگر فیکٹریز آرڈیننس ۲۰۲۰ کے ذریعے شوگر ملز اس بات کی پابند تھیں کہ حکومت کے طرف سے دی گئی تاریخ پر کرشنگ سٹارٹ کریں۔ اسی شق کی بدولت موجودہ کرشنگ سیزن دس نومبر کو شروع ہوا۔ اور یوں کسان کو گندم کی فصل کاشت کرنے کے لئے زمین خالی کرنے کا موقع ملا۔ اور یہی وجہ ہے کہ پنجاب میں گندم کی بمپر پیدوار ہوئی, تاہم آج نافذ ہونے والے قانون کے مطابق اب مل مالک کے پاس اختیار ہے کو وہ تیس نومبر تک کرشنگ میں تاخیر کر سکتا ہے۔ اور کوئی اس کو پوچھ نہیں سکتا۔
پہلے قانون کے تحت شوگر مل مالک اس بات کا پابند تھا کہ کسان کو گنے کی ادائیگی پندرہ یوم کے اندر اندر کرے۔ شوگر مافیا کے قبیح گٹھ جوڑ کی بدولت اب قانون بنا دیا گیا ھے کہ مل مالک تیس جون تک ادائیگی کرنے کا پابند نہ ہے یعنی نومبر دسمبر میں گنا سپلائی کرنے والے کاشتکار اب سات مہینے تک، جنوری والے چھ مہینے تک ، فروری والے پانچ مہینے تک اور مارچ میں گنا سپلائی کرنے والے کاشتکار چار مہینے تک گنے کی قیمت وصول نہیں کر سکیں گے۔ پہلے والے آرڈیننس کے ذریعے کین کمشنر کو یہ اختیار دیا گیا تھا کہ وہ گنے کے کاشتکاروں کی شکایات سن کر ان کی ادائیگی کا تعین کر سکتا تھا۔ آرڈیننس کی اس شق کو اب پنجاب اسمبلی نے اڑا دیا ہے۔ اب کاشتکار کے واجبات کے تعین کا اختیار کین کمشنر سے واپس لے لیا گیا ہے۔ سب سے زیادہ قیامت جو اس مافیا نے ڈھائی ہے وہ یہ ہے کہ شوگر فیکٹریز آرڈیننس کے تحت گنے سے ناجائز کٹوتی، قیمت سے ناجائز کٹوتی اور عدم ادائیگی کے جرائم جن کو ناقابل ضمانت بنایا گیا تھا ان کو پنجاب اسمبلی اور شوگر مافیا نے مل کر ناقابل دست اندازی جرم بنا دیا ہے یعنی ان جرائم پر ایف آئی آر نہیں ہو سکے گی۔ کسان بچاو تحریک کے چیئرمین چوہدری محمد یاسین, سید محمود الحق بخاری, ایگری فورم سے احمد علی اختر, چوہدری ریاض چیمہ نے کہا کہ شوگر انکوائری کمیشن رپورٹ کے بعد کسان دشمن قانون کا کوئی جواز نہیں تھا, کاشت کاروں کے حقوق کے تحفظ کا قانون اسمبلیوں میں پاس ہونے کےبجائے شوگر ملز تحفظ قانون کی منظوری سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس ملک کے کاشت کار اور عوام کے ساتھ کون سا کھیل کھولا جا رہا ہے, انہوں کہا کہ کاشت کار اس قانون کی مظوری کے خلاف ہر ملک گیر احتجاجی تحریک چلائیں گے
Load/Hide Comments