سی این این نے صدام حسین پر الزام اور عراق جنگ کے رپورٹنگ کی جو بعد میں غلط ثابت ہوئی”ویبینارز میں گفتگو

بہاولپور( ) شعبہ میڈیا سٹڈیز اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور کے تحت منعقد ہونے والے ویبینار کی سیریز کے سلسلے میں چوتھے ویبینارز کا انعقاد ہوا جس کا موضوع تصادم کے حل میں میڈیا بطور محرک تھا۔

ویبینار کے افتتاحی کلمات اد ا کرتے ہوئے انجینئر پروفیسر ڈاکٹر اطہر محبوب وائس چانسلر نے کہا کہ میڈیا ملک کا چوتھا ستون ہے اور اس کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ انفارمیشن کی تیزی سے بہاؤ کا دور ہے جس سے ملکی اور غیر ملکی معلومات بہت تیز رفتاری سے پھیلتی ہیں اور اکثر اوقات کسی نہ کسی تصادم کا باعث بنتی ہیں۔ بعض اوقات ان کی تصیح ہونے تک تصادم شدت اختیار کر چکا ہوتا ہے۔ اس صورت میں میڈیا کا کردار اہم ہے۔ کہ وہ بطور محرک تصادم کے حل میں کیا کردار ادا کر سکتا ہے۔ حالات حاضرہ میں اس ویبینار کا ہونا اور اس پر تحقیق اور گفتگو ہونا وقت کی اہم ضرورت ہے۔ ممتاز تجزیہ نگار اور ماہر تعلیم پروفیسر ڈاکٹر مجاہد منصوری سابق صدر شعبہ ماس کمیونیکیشن پنجاب یونیورسٹی نے موضوع پر سیر حاصل گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ بین الاقوامی معلومات کی تفصیل میں میڈیا سب سے اہم کردار ادا کر رہا ہے۔ اگر یہ معلومات مثبت انداز میں پیش کی جائیں تو اس کے نتائج مثبت انداز میں سامنے آتے ہیں جیسا کہ 2005میں میڈیا کے مثبت لائحہ عمل سے پاک بھارت تصادم میں کمی واقع ہوئی تھی اور ایک کرکٹ میچ کے لئے 5ہزار بھارتی پاکستان میچ دیکھنے آئے تھے۔

لیکن اگر میڈیا کے منفی پروپیگنڈے کو دیکھیں تو سی این این نے صدام حسین پر الزام اور عراق جنگ کے رپورٹنگ کی جو بعد میں غلط ثابت ہوئی اور سی این این ورلڈ نیوز لیڈر کے طور پر بہت پیچھے چلا گیا۔ اس وقت مین سٹریم میڈیا سوشل میڈیا کے پیچھے چل رہا ہے اور اس کی نیوز کو سوشل میڈیا غلط ثابت کر دیتا ہے جس کی مثال حالیہ فلسطین میں ہونے والا تنازعہ ہے۔ جس میں مین سٹریم میڈیا بہت سی وجوہات کی بنا پر محدود ہے جبکہ سوشل میڈیا ان پابندیوں سے آزاد ہے اور مین سٹریم میڈیا کی خبروں کو چیلنج کرتا رہتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس وقت بین الاقوامی سطح پر میڈیاکے کردار پر تحقیقاتی گفتگو ہونی چاہیے جس میں نہ صرف امریکہ اور ایران بلکہ اسرائیل کے دانشوروں اور محققین کو بھی شامل کرنا چاہیے۔ سینئر تجزیہ نگار اور ٹی وی اینکر فہد حسین نے کہا کہ جتنے چیلنجز اس وقت میڈیا کو درپیش ہیں اس سے پہلے موجود نہیں تھے یہ چیلنجزعلاقائی اور بین الاقوامی سطح پر موجود ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اب سوال اٹھنے لگا ہے کہ کیا جرنلزم مستقبل میں بطور پیشہ زندہ رہے گا یا نہیں۔

انہوں نے میڈیا کو درپیش خطرات کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ جدید ٹیکنالوجی کا استعمال اور میڈیا صارفین کا ذوق میڈیا کی بقاء کے لیے بڑا خطرہ ہیں۔ اب معلومات کے لئے کئی اور ڈیجیٹل ذرائع موجود ہیں جو میڈیا صارفین کے ذوق کو تبدیل کر رہے ہیں اور ان کی توجہ مین سٹریم میڈیا سے دیگر ذرئع کی جانب منتقل ہو رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ تصادم کے حل میں ہمیں عام آدمی کی تربیت بھی کرنا ہو گی کیونکہ اب ہر شخص کوئی نہ کوئی معلومات میڈیا پر ڈال رہا ہوتا ہے۔ سینئر تجزیہ نگار اور ٹی وی اینکر مظہر عباس نے کہا کہ ہم اس وقت غلط خبروں کی ایک دنیا میں رہ رہے ہیں اور معاشرے میں ان غلط خبروں کا اثر صحیح خبر سے زیادہ ہے۔ میڈیا ہاؤسز میں وہ وسعت موجود نہیں کہ وہ اپنے جرنلسٹ کی تربیت تصادم کے حل کے لیے کر سکے۔ اگر میڈیا ملازمین کے پاس اپائٹمنٹ لیٹر نہیں ہیں اور ہم خبروں کو جانچنے اور تصدیق کیے بغیر آگے فارورڈ کرتے ہیں۔ انہوں نے اس دور میں بھی پرنٹ میڈیا کی اہمیت کو اپنی گفتگو کا حصہ بنایا۔ انہوں نے مزید کہا کہ اب میڈیا کے پاس خود مختاری نہیں ہے جس کی وجہ سے اسکی بقا کو خطرہ لاحق ہے۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ پاکستان کو کس طرح کی رپورٹنگ کی ضرورت ہے۔ اُسے یونیورسٹیز کے نصاب میں شامل کر کے ہونے والے تصادم وتضادات کو کم کیا جا سکتا ہے۔ پروفیسر ڈاکٹر انجم ضیاء چیر پرسن شعبہ ماس کمیونیکیشن لاہور کالج ویمن یونیورسٹی نے سماجی تبدیلی پر بات کرتے ہوئے کہا کہ ڈیجیٹل میڈیا اس وقت معاشرے میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے جب سے کمیونیکیشن کے انداز تبدیل ہوئے ہیں ہمارا طرز زندگی تبدیل ہو چکا ہے اس سے لوگوں کی سوچ بدل رہی ہے اوراحساسات تبدیل ہو ررہے ہیں۔ ہمارے لباس سے کھانے پینے تک ایک ایسی سماجی تبدیل آئی ہے جو اس سے پہلے نہیں تھی۔ جس سے ہماری معاشرتی زندگی پر گہرے اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔ اس میڈیا سے بہت سے فوائد لیے جا سکتے ہیں۔ ہماری سوچ اور فکر ہے کہ ہمیں اس نئی ایجاد سے کیسے فائدہ اُٹھانا ہے۔ اگر ہم اس کا مثبت استعمال کریں گے تو اس کے نتائج بہت مثبت ہوں گے۔ اگر یہ غلط اور منفی استعمال سے معاشرہ یا معاشر ے تصادم کا شکار ہو جائیں گے۔ ویبینار میں مہمان مقرر ین نے آخر میں سولات کے جوابات بھی دئیے۔ ویبینار میں ہدیہ تشکر پیش کرتے ہوئے ڈین فیکلٹی آف سوشل سائنسز پروفیسر ڈاکٹر روبینہ بھٹی نے تمام مہمانوں کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ میڈیا کے ذریعے ہی تصادم کو پھیلانے میں مدد لی جاتی ہے جبکہ اس کے حل کے لئے میڈیا اپنا ہم کردار ادا کر سکتا ہے۔ پروفیسر ڈاکٹر عبدالواجد خان چیئر مین شعبہ میڈیا سٹڈیز نے کہا کہ اس موضوع پر گفتگو اور ماہرین تعلیم اور میڈیا کے میدان سے موجود نمائندگان کی موجودگی اور ان کے لیکچر سے طلباء کو تحقیق کے نئے موضوعات ملیں گے۔ انہوں نے فیکلٹی ممبران،ویبینار میں شریک سامعین وحاضرین اور وائس چانسلر اسلامیہ یونیورسٹی بہاول وپر انجینئر پروفیسر ڈاکٹر اطہر محبوب کا شکریہ ادا کیا۔ ویبینار کی میزبانی کے فرائض اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر عابدہ نورین نے ادا کیے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں