بجٹ تجاویز 2021-22
1۔پروفیسر ڈاکٹر رانا اعجاز علی خان
آج کل بجٹ مالی سال 2021-22کی تیاری زوروشور سے جاری ہے اور دوسری طرف گزشتہ مالی سال کے اعدادوشمار بھی زیر بحث ہیں۔ اسی طرح کرو نا کا اتارچڑھاؤ بھی زبان زد عام ہے۔ بجٹ مالی سال 2021-22کیلئے تجاویز دینے سے پہلے مالی سال20-2019کے اشاریے بیان کرنا ضروری ہیں۔اس سال کے پہلے 9ماہ کے تخمینوں کے مطابق قومی آمدنی میں 3.94فیصد اضافہ ہوا ہے جبکہ صنعتی شعبہ میں 3.6فیصداوربڑی صنعتوں میں 9.3فیصد اضافہ ہوا ہے۔زرعی شعبہ میں 2.8فیصد اورتعمیراتی صنعت میں 8.3فیصد اضافہ ہوا ہے۔لیکن دوسری جانب بے روزگاری اور غربت میں بھی اضافہ ہوا ہے۔اس کے ساتھ ساتھ مہنگائی میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ان اعدادوشمار کی روشنی میں یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ قومی آمدنی میں اضافہ یا معاشی ترقی اور غریب پرور نہیں ہے۔لہذا میرے نزدیک سب سے پہلا قدم حکومت وقت کیلئے ان دو مسائل کو حل کرنا ہے۔اس کیلئے ضروری ہے کہ مہنگائی کو کنٹرول کیا جائے اور کم از کم اجرت کی شرح25000روپے مقرر کی جائے۔سرکاری سطح پرماہانہ آمدنی والے افراد کو ریلیف دینے کیلئے تنخواہوں میں 20فیصد تک اضافہ کیا جائے۔ اسی طرح احساس پروگرام جو کہ گزشتہ سال بہت کامیاب رہا ہے اس کو مزید موثر بنانے کی ضرورت ہے غربت میں کمی نہ آنااورقومی آمدنی میں اضافہ نہ ہونا ایک اور خطرناک پہلوکواجاگرکرتا ہے وہ ہے معاشی تغاوت۔معاشی تغاوت بذات خود نا صرف آنے والے سالوں میں معاشی ترقی کی رفتار کو کم کرنے کا باعث بنتا ہے بلکہ بہت سی معاشی اور معاشرتی برائیوں کا باعث بنتا ہے۔لہذا غربت کے خاتمے کیلئے اقدامات انتہائی ضروری ہیں جہاں تک روزگار میں اضافہ کا تعلق ہے اس کیلئے دیگر اقدامات کے علاوہ سی پیک کے تحت انڈسٹریل زونزکوجلدازجلدمکمل کرنا اور اس میں صنعت کاری کوفروغ دینا انتہائی ضروری ہے۔اس سلسلے میں بیرونی سرمایہ کاری ایک اہم کردار ادا کرسکتی ہے۔ابھی سعودی عرب کیساتھ تعلقات میں بہتری آچکی ہے لہذا سعودی عرب اورسنٹرل ایشیا کے ممالک کے تعاون سے ان انڈسٹریل زونز کوآباد کیا جا سکتا ہے۔دیگر یہ کہ جو صنعتیں کامیابی سے ہمکنار ہوئی ہیں ان کی شرح ترقی کو برقرار رکھنا انتہائی ضروری ہے۔ان صنعتوں کی ترقی اور قومی آمدنی میں اضافہ کے محرکات میں موجودہ حکومت کی پالیسی کارآمدثابت ہوئی ہے لیکن کچھ بین الاقوامی عوامل بھی شامل ہیں۔ بین الاقوامی مارکیٹ میں پاکستانی اشیاء اور خاص طور پرٹیکسٹائل صنعت کی اشیاء کی طلب بڑھنے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ پاکستان کے مد مقابل آنے والے ممالک ابھی کورونا کے اثرات سے باہر نہیں نکل سکے۔لہذاپاکستان کواپنی مصنوعات بین الاقوامی مارکیٹ میں فروخت کرنے کا بھرپور موقع ملا۔لیکن یہ حالات ہمیشہ برقرار نہیں رہیں گے لہذا پاکستانی صنعت کوآ نے والے دنوں میں چیلنجز کا سامنا کرنا پڑے گا جس کی تیاری ابھی سے کرنا ضروری ہے۔اس مقصد کیلئے ناصرف پیداوار بڑھانی ہو گی جبکہ مصارف کو بھی قیمتوں کو برقرار یا کم کرنا ہوگااورساتھ ساتھ کوالٹی کوبھی برقرار رکھنا ہو گا۔اس طرح مالی سال2021کو اہداف کوبڑھایا جا سکتا ہے۔توانائی کے شعبے میں پیش رفت بھی انتہائی ضروری ہے کیونکہ اس کے بغیر صنعتی ترقی کو برقرار رکھنا شاید ممکن نہیں ہو گا۔آئندہ مالی سال2021میں بجٹ خسارہ کو کم کرنے کی بھی ضرورت ہے۔برآمدات بڑھانے کیلئے سی پیک کے تحت ایکسپورٹ پروسیسنگ زون کا کارگرہونا ضروری ہے۔شرح سود کی نچلی سطح عمومی سرمایہ کاری اورخاص طور پرچھوٹی صنعتوں کی سرمایہ کاری میں اہم کردار ادا کرسکتی ہے۔جہاں تک کرونا کے مدوجذرکاتعلق ہے یہ معیشت کو متاثر کرتے رہیں گے۔ممکن ہے آنے والے تین یا چار سال تک مختلف ممالک کو مختلف درجات تک متاثر کرے۔پاکستان میں معاشی سرگرمیوں کو عموی سطح پر لانے کیلئے ویکسینیشن کی شرح کو بڑھایا جائے اور بجٹ میں اس کیلئے رقم مختص کی جائے۔ان تمام حالات میں تعلیمی شعبے کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ کرونا کی وجہ سے نجی سکول کا شعبہ بری طرح متاثر ہوا ہے لہذا سکول کی سطح پر تعلیمی ترقی کیلئے حکومت کو اپنا موثر کردار اداکرنا چاہئے۔قومی آمدنی میں اضافہ اور معیشت کے مختلف شعبوں کی پیداوار میں اضافہ اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ آئندہ سال ٹیکس بیس کو بڑھایا جا سکتا ہے اوروصولیوں میں اضافہ کیا جا سکتا ہے۔لہذا ٹیکس بیس کو بڑھانا آئندہ بجٹ کا اہم جز ہونا چاہیئے۔جنوبی پنجاب کیلئے بجٹ میں رقم مختص کرنا اور اسی طرح سے گزشتہ فاٹا کے علاقوں کی ترقی کیلئے ایک مناسب رقم مختص کرنے کی ضرورت ہے۔
2۔ڈاکٹرراشد ستار، اسسٹنٹ پروفیسر، شعبہ اکنامکس
کسی بھی حکومت کے لیے سب سے بڑا حدف ملکی معاشی ترقی ہے۔ پاکستان حکومت معاشی ترقی کے احداف کو حاصل کرنے کے لیے مختلف پالیسی جس میں مالیاتی پالیسی اور زری پالیسی شامل ہیں۔ ان پالیسیوں کے نتیجہ میں بے روزگاری کا خاتمہ ہوگا اور ایک بہت بڑی تعداد غریت کی لائن سے اوپر لائی جاسکتی ہے۔ حکومت بینکوں کے ذریعہ لوگوں کو ان کے اپنے گھروں کے لیے قرض فراہم کر رہی ہے۔ بجٹ 2021-22میں کوئی بھی نیا ٹیکس لگانے کی بجائے نان ٹیکس سے حکومت کی وصولیوں میں اضافہ کیا جائے۔ احساس پروگرام کے دائر کار کے اور اس قسم کے اور کفالت پروگرام شروع کئے جائیں تاکہ کووڈ 19میں وہ افراد جو اپنی آمدنی سے محروم ہوئے ان کا معاشی سہارا بناجاسکے۔ ٹیکس اور نان ٹیکس سے حاصل شدہ آمدنی کو روز گار اور غربت کے خاتمہ کے لیے استعمال کیا جائے۔ سرکاری ملازمین کی تنخواہ میں اضافہ کیا جائے تاکہ بڑھٹی ہوئی افراط زر کی شرح کا مقابلہ کیا جاسکے۔
3۔ڈاکٹر محمد عاطف نواز
سود کی ادائیگی گزشتہ دو مالی سالوں میں تقریبا دگنی ہو کر 1500ارب سے بڑھ کر 2900ارب روپے (اقتصادی سروے آف پاکستان) ہو گئی ہے۔ تاہم اس تناسب سے محصولات میں اضافہ نہیں ہوا ہے جس سے بجٹ خسارے میں اضافے کا اشارہ ملتا ہے جو گزشتہ دو مالی سالوں میں اوسطا8.48فیصد ہے۔ آمدنی اور اخراجات کے مابین جتنا بڑا فاصلہ ہے اتنا ہی ہمیں آئی ایم ایف یا گھریلو ذرائع سے قرض لینے کی ضرورت ہے۔نیز یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ ہدف بنیادی خسارے کو کم کرنا ہے۔ انہوں نے سود کی ادائیگیوں کو ہدف سے ہٹا دیا ہے۔ اب خسارے کو کم کرنے کے لیے وہ کیا کم کریں گے؟
محصولات کی بچت کریں اور صرف وہی منصوبے مکمل کریں جو تکمیل کے قریب ہیں۔ سرکلر قرضوں سے نمٹنے کے لیے آئی پی پیز کے ساتھ بات چیت سے بھی بہت مدد مل سکتی ہے کیونکہ ان میں سے بیشتر پاکستانی سرمایہ کار ہیں اور انہیں پاکستان میں کاروبار کرنا پڑتا ہے۔ اگر حکومت بات چیت کرتی ہے تو وہ میزپر آئیں گے۔
4۔ڈاکٹر محمد الطاف حسین
بجٹ اسٹریٹیجی پیپرز کے مطابق آئندہ سال کی مجموعی قومی پیدا وار میں 4.2فیصد کا ہدف ہے جو ممکن ہے کیونکہ بڑے پیمانے پر مینوفیکچرنگ (ٹیکسٹائل، سیمنٹ اور دواسازی) کی نموبہت حوصلہ افزا ہے کیونکہ رواں سال کے پہلے 10مہینوں میں مینوفیکچرنگ کی ترقی کا حوالہ دیا گیا ہے ایک سال قبل منفی 7.39فیصد کے مقابلے میں 8.71فیصد۔ تاہم خدمات کے شعبے میں ایک اہم اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے۔ پچھلے سال منفی 0.55فیصد سے رواں سال میں یہ 4.43فیصد رہ گیا ہے۔ یہ اضافہ بہت اہم ہے۔ 8فیصد مہنگائی کا ہدف ہے اور محصول کے ہد ف میں 25فیصد کا اضافہ کیا گیا ہے جو میری رائے میں جوجودہ حالات میں انتہائی بلند نظر ہے۔میں کوئی نیا ٹیکس یا موجودہ ٹیکس کی شرحوں میں اضافے کی تجویز نہیں کر سکتا ہوں۔ معیشت کی دستاویزات کی طرف بڑھتے ہوئے ٹیکس کی بنیاد کو بہتر بنایا جانا چاہیے۔ اس سلسلے میں خرید ار یا تاجر کی شناختی کارڈ شرط کو سختی سے نافذ کیا جانا چاہیے۔
Load/Hide Comments