“پاکستان میڈیا ڈویلپمنٹ اتھارٹی کا قیام وقت کی ضرورت”

“پاکستان میڈیا ڈویلپمنٹ اتھارٹی کا قیام وقت کی ضرورت”

اس وقت میڈیا انڈسٹری کے سیٹھ اور بے روزگار اینکر بہت پریشان ہیں اور یہ پریشانی دن بدن بڑھتی جارہی ہے کیونکہ سیٹھ کو نتھ ڈالنے اور غریب ورکرز جوکہ سارا سارا دن مائیک سنبھالے یا اخبار اٹھائے اداروں کے چکر پر چکر لگاتے ہیں اور مختلف پریس کانفرسیں اٹینڈ کرتے ہیں اور جب سیلری کا ٹائم آتا ہے تو سیٹھ حکومت کو دوش دیکر غریب ورکر کا معاشی قتل عام کرتا ہے ورکر بیچارہ سیٹھ کی باتوں میں آکر حکومت کو لعن طعن شروع کردیتا ہے اس طرح سیٹھ غریب ورکر کے پیسے دبا جاتا ہے اور اگر کوئی سختی کرے یا شور مچائے تو اسے ادارے سے ہی نکال دیا جاتا ہے اور جب سیٹھ پر برا وقت آتا ہے تو سیٹھ انہی غریب ورکرز کو آگے کرکے اپنے مقاصد پورے کرتا ہے اور غریب ورکر تنخواہ اور جاب کے لالچ میں استعمال ھوجاتا ہے اس کے علاوہ سیٹھ ورکرز میں اپنے چند اہم مہروں کو چھوڑ دیتا ہے جو ورکرز کے حقوق کی بات کرکے انہیں اکستاتا ہے کہ وہ سڑکوں پر آئیں اور احتجاج کریں وہ اہم مہرے حکومت اور سیٹھ دونوں طرف سے مفاد لے رہے ھوتے ہیں جبکہ غریب ورکر ان مہروں جن کو مہذب زبان میں لیڈر یا قائد کہا جاتا ہے کے چکروں میں آکر ایک بار پھر استعمال ھوجاتا ہے یہ سلسلہ سالہا سال سے جاری ہے مہنگائی,غربت اور تنخواہیں وقت پر نہ ملنے کی وجہ سے عامل ورکر یا صحافی کا جینا محال ھوگیا ہے جبکہ سیٹھوں اور لیڈران کی صبح پاکستان میں ھوتی ہے دوپہر لندن اور شام امریکہ میں,ان مفاد پرستوں کو کبھی بھی غریب ورکر کا خیال نہیں رہا لیکن غریب ورکر نے ہر مشکل وقت میں اپنے اپنے سیٹھ اور قائدین کیلئے آواز اٹھائی ہے۔
تحریک انصاف کی حکومت وجود میں آنے کے بعد فوادچوھدری وزیراطلاعات بنے تو انہوں نے ڈیجیٹل میڈیا کی بات کی جس کی شدید مذمت کی گئی اور فوادچوھدری کو وزارت سے ہاتھ دھونے پڑے کیونکہ پرنٹ میڈیا و الیکٹرانک میڈیا کے سیٹھ طاقتور تھے اور بقول ایک سیٹھ کے کہ اس ملک میں جو بھی حکومت بنتی ہے اس کے بنانے میں سیٹھ صاحب کا ہاتھ ھوتا ہے اور سیٹھ صاحب جب چاہیں حکومت گرادیں۔
تحریک انصاف کی حکومت بنتے ہی اس سیٹھ سمیت تمام سیٹھوں کو یہی گمان ھوا کہ ھم اس حکومت کو بھی جھکا لیں گے اور تمام مقاصد حاصل کرلیں گے جو وہ پچھلی حکومتوں سے پوری کرتے آئے ہیں لیکن اس بار ان کے سامنے مختلف حکومت تھی جس نے ان سیٹھوں کو ناکوں چنے چبوا دیے تحریک انصاف نے پرنٹ و الیکٹرانک میڈیا سینٹرلائزڈ کرکے سیٹھوں کی کمر توڑ دی۔ پرنٹ میڈیا کے سیٹھوں اور ایڈورٹائزنگ ایجنسیز مالکان کی چیخیں نکلنا شروع ھوگئیں خاص کر ایڈورٹائزنگ ایجنسیز مالکان جو حکومت سے پیسے لیکر ایجنسیز سسپنڈ کروا لیتے اور پھر نئے نام سے ایجنسی کھول کر نئے سرے سے دھندہ کرتے جس کی وجہ سے اخباری مالکان اور نچلا طبقہ پس کر رہ جاتا۔

اے پی این ایس جس کا مقصد اخبارات کو پیمنٹ دلانا تھا اور ایجنسیز کو کنٹرول کرنا تھا وہ بھی ان سیٹھوں کیساتھ مل کر چاروں ہاتھوں کمائی کرنے لگی سب نے اپنی اپنی ڈیڑھ انچ کی مسجد بنائی ھوئی تھی دو چار مہروں نے مل کر دو چار سو غریب و لاچار ورکر قابو کیا ھوا تھا تاکہ جب بھی سیٹھ کو کوئی مشکل پیش آئے تو ان ورکروں کو سڑکوں پر لایا جاسکے وزیراعظم عمران خان کو جب ان معاملات کے بارے میں بتایا گیا تو وہ بہت پریشان ھوئے کیونکہ تحریک انصاف کو جتنا سپورٹ ریجنل میڈیا اور چھوٹے اداروں نے کیا ہے اتنا کسی اور نے نہیں کیا چونکہ ان کے دل میں عام آدمی اور غریب ورکر کیلئے ویسے بھی بہت ہمدردی ہے لہذا انہوں نے اس کا حل نکالنے کا فیصلہ کیا۔
حکومت وقت نے پاکستان میڈیا ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے قیام کا فیصلہ کیا جس میں عامل صحافیوں کو بروقت تخواہوں کی ادائیگی اور جبری ریٹائرڈ جیسے فیصلوں کی حوصلہ شکنی کی شقیں رکھی گئی ہیں اس بل کا نام سنتے ہی ایک بار پھر سیٹھوں کے پیٹ میں مروڑ اٹھنا شروع ھوگیا ہے کیونکہ اب تو ایک ایک روپے کا حساب دینا پڑے گا پہلے تو سیٹھ ٹیکس وغیرہ سے بھی مستشنیٰ تھے اب اربوں کی کمائی سے قومی خزانے میں ٹیکس جمع کروانا پڑے گا جبکہ تنخواہوں کی عدم ادائیگی اور جبری برطرفیوں پر سیٹھ کا ادارہ بند ھوگا اور بھاری جرمانے ھوں گے اس اتھارٹی کے قیام کے بعد جعلی اداروں اور بزنس مین کم صحافیوں کی حوصلہ شکنی ھوگی جو پیسوں کے بل بوتے پر ادارے جوائن کرلیتے ہیں اور بعد میں ڈبل کماتے ہیں بلیک میلنگ اور زرد صحافت کا خاتمہ ھوگا عامل صحافیوں کی نہ صرف اپنے اداروں میں عزت ھوگی بلکہ ہر جگہ عزت ھوگی۔
اس اتھارٹی کے قیام کو روکنے کیلئے سیٹھوں نے ایڑی چوٹی کا زور لگایا ھوا ہے اس کیلئے وہ مہرے جو خاص وقت میں باہر آتے ہیں اور غریب ورکر کے حقوق کا نعرہ لگاکر انہیں اکساتے ہیں وہ پھر میدان میں آگئے ہیں اور ورکرز کو یقین دلا رہے ہیں کہ اس اتھارٹی کا قیام صحافت کا گلہ گھوٹنے کی کوشش ہے اور حکومت ورکرز کو بیروزگار کرنا چاہتی ہے یہ مہرے ان بیروزگار اینکرز کو جاب دلانا چاہتے ہیں جو روز ٹی وی پر بیٹھ پر ریاست پاکستان کا مذاق اڑاتے تھے جو لاکھوں روپے سیٹھوں سے تنخواہ لیکر پینتالیس منٹ کا Paid پروگرام کرکے چلتے بنتے تھے ان کو ملک کی سلامتی کی فکر ہے نہ قوم کی,جبکہ اس کے برعکس سارا دن خبر کی جدوجہد کرنیوالا عامل صحافی چند ہزار روپے ماہوار کی تنخواہ میں بمشکل گزارہ کرتا ہے اور وہ ملک و قوم کو اصل حقائق بتاتے بتاتے کبھی کبھار خود خبر بن جاتا ہے۔
عامل صحافیوں اور غریب ورکرز سے یہی اپیل ہے کہ وہ ان سیٹھوں کے چنگل سے باہر نکلیں اور ان آستین کے سانپوں کے ڈنک سے بھی بچیں جو ان کے نام پر اربوں پتی بن چکے ہیں سیٹھ ھوں یا یہ مفاد پرست آستین کے سانپ ان میں سے کسی کا اعتبار نہیں ہے لہذا ان کے کہنے پر کسی دھرنے یا لانگ مارچ میں شرکت کی ضرورت نہیں ہے اگر آپ لوگ انہیں اپنی اہمیت کا احساس نہیں دلاؤ گے تو یہ اسی طرح آپ کو استعمال کرتے رہیں گے۔
حکومت وقت سے ھمارا یہ مطالبہ ہے کہ وہ اس بل کی ان شقوں پر غور کرے جس سے آزادی صحافت یا صحافیوں کی جبری برطرفیوں کا خدشہ ھو عمران خان,فوادچوھدری,فرخ حبیب,فیصل جاوید خان سمیت حکومتی اراکین و اپوزیشن مل کر ایسا لائحہ عمل ترتیب دے جس سے عام ورکر یا عامل صحافی کی زندگی بہتر ھو اور ریاست پاکستان سے یہ چھاپ اترسکے کہ یہاں پریس فریڈم ممکن نہیں۔
امید ہے حکومت اور اپوزیشن مل کر ایک بہترین اتھارٹی کے قیام کی منظوری دیں گے جس سے عام صحافی پیشہ ورانہ امور احسن طریقے سے ادا کرسکے گا اور کوئی بھی سیٹھ یا مفاد پرست ٹولہ اسکو مجبور نہیں کرسکے گا۔


تحریر: اعجازعلی ساغر اسلام آباد
Twitter: @SAGHAR1214

اپنا تبصرہ بھیجیں