بہاول پور( ) ڈیپارٹمنٹ آف میڈیا سٹڈیز اسلامیہ یونیورسٹی بہاول پور کے زیر اہتمام ہونے والے ویبینار سیریز کے سلسلے میں نویں ویبینار کا انعقاد ہوا۔ جس کا موضوع طالبان کا افغانستان، پاکستان اور دنیا تھا۔
ویبینا ر سے ا فتتاحی کلمات میں وائس چانسلر انجینئر پروفیسر ڈاکٹر اطہر محبوب نے کہا کہ افغانستان گزشتہ نصف صدی سے خانہ جنگی کا شکار رہا۔ اس خانہ جنگی اور بدامنی کی وجہ سے پاکستان ایک معاشی بحران اور جانی نقصان سے گزرا ہے۔ ہم پاکستان اور افغانستان کی بہتری کے لیے اچھی توقعات رکھتے ہیں۔ معروف دفاعی تجزیہ نگار اور ماہر سیاسی اور بین الاقوامی امور جنرل ریٹائرڈ امجد شعیب نے کہا کہ اب ایک مرتبہ پھر طالبان کی حکومت ہے – گزشتہ دور حکومت سے اقوام عالم میں بہت سے خدشات موجود ہیں۔ موجودہ طالبان حکومت اپنی پہچان چاہتی ہے لیکن اقوام عالم ان کو قبول کرنے کے لیے لیت و لعل سے کام لے رہی ہے۔ جن لوگوں کا حکومتی نظام سے تعلق تھا وہ ملک چھوڑ گئے۔ اس لیے طالبان کے لیے حکومت کرنے میں مشکلات حائل ہیں۔ ان 20سالوں میں بھارت کے کردار کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا جس نے افغان سرزمین کو پاکستان کے خلاف استعمال کیا۔ اس وقت جبکہ امریکہ افغانستان سے واپس جا چکا ہے تو نہ صرف افغانستان کے لیے مختلف چیلینجزموجود ہیں بلکہ پاکستان کے لیے بھی دہشت گردی کے خدشات موجود ہیں۔
سابق سنیٹر اور سیکرٹری خارجہ اعزاز احمد چودھری نے کہا کہ امریکہ تقریبا دو دہائی افغانستان میں مستحکم حکومت کے لیے فوجی حل تلاش کرتا رہا جبکہ پاکستان نے ہمیشہ سیاسی حل کی حمایت کی۔ انہوں نے ایک اور انہوں نے طالبان حکومت کو تجویز دی کہ وہ افغانستان میں سب لوگوں کو ساتھ کے کر ایک مخلوط جمہوری نظام ے کر دچلیں گے۔ ہمیں افغانستان کے ساتھ ایک ہمسایہ ملک کی طرح پیش آنا ہوگا۔پاکستان انسانی حقوق اور ایک غیر جانبدار انہ کردار ادا کرنا ہوگا۔ انٹرنیشنل کمیونٹی کی مدد کے امیر افغان طالبان اپنی حکومت کو مستحکم نہیں کر سکیں گے۔ انسانی حقوق کی علمبردارطاہرہ عبداللہ نے کہا کہ ہم نے افغانستان کی جنگ میں 80ہزار افراد کی قربانی دی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم پر مہاجرین ایک معاشی بوجھ ہیں اگر افغانستان میں ایک مستحکم سیاسی جمہوری حکومت نہیں آتی تو پھر دہشتگردی، ڈرگ کی تجارت، انسانی سمگلنگ جیسے المیے جنم لیں گے اور پاکستان اس سے براہ راست متاثر ہوگا۔ سینئر جرنلسٹ اور دفاعی اور افغان تجزیہ نگار سمیرا خان نے کہا کہ افغانستان میں گزشتہ برسوں میں پاکستان سے نفرت کے جذبات بہت تیزی سے ابھرے ہیں جس کی وجہ بھارت کی ان پر ایک کثیر انوسمنٹ ہے – وہ جانبدار اکٹھا نہیں کر سکتے۔ ڈین فیکلٹی آف سوشل سائنسز پروفیسر ڈاکٹر روبینہ بھٹی نے کہا کہ مجھے یوں لگتا ہے کہ ہسٹری کھوم کر دائے میں آکر وہیں کھڑی ہو گئی ہے جہاں ہم بیس برس پہلے تھے۔
افغانستان آج بھی اپنی پہچان لینا چاہتا ہے اور تمام سنٹرل ایشیائی ممالک، ایران، پاکستان اور بھار ت سب تعلق بھی رکھنا چاہتے ہیں اس سلسلے میں پاکستان ایک کلیدی کردار ادا کر سکتا ہے اور گورننس کے لیے طالبان کو پاکستان کی ضرورت ہوگ۔پروفیسر ڈاکٹر عبدالواجد خان نے اختتامی کلمات ادا کرتے ہوئے کہا کہ افغانستان کے حوالے سے سب سے زیادہ پاکستان متاثر ہوا ہے ۔ آج کے ویبینار سے ماہرین کی پیش کردہ جائزوں اور تجزیوں سے طلبا اور عوام کو علاقائی سلامتی اور مختلف ممالک کے افغانستان کے ساتھ تعلقات اور حائل خدشات کو جاننے کا موقع ملے گا۔ ویبینار کی نظامت ڈاکٹر زبیر شفیق جتوئی نے سرانجام دیں۔ ویبینار میں آئی یوبی کے سینئر اساتذہ،طلباکے علاوہ دیگر یونیورسٹیز کے اساتذہ طلبا شہریوں اور میڈیا سے منسلک افراد نے شرکت کی۔
Load/Hide Comments