رحیم یار خان ( )ملک بھر میں چینی کا سٹاک صرف ایک ماہ کا رہ گیا،شوگر کرشنگ سیزن 2021-22کے لیے سندھ اور پنجاب میں گنے کی فضل تیار،وفاقی اور صوبائی حکومتیں شوگر ملز مافیا کے سامنے بے بس ،شوگر کرشنگ سیزن کے آغاز اور گنے کے ریٹ بارے اعلان نہ ہو سکا،چینی اور گڑ افغانستان جانے لگا ،شوگر ملز بروقت نہ چلائی گئی تو ربیع الاول میں چینی کا بحران پیدا ہو سکتا ہے۔
تفصیل کے مطابق شوگر کرشنگ سیزن 2021-22کے لیے پنجاب میں 21لاکھ48ہزار ایکڑ پر گنے کی فصل تیار ہے،لیکن تاحال وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی طرف سے شوگر کرشنگ سیزن 2021-22کے لیے مقررہ تاریخ اور گنے کے ریٹ کا اعلان نہیں ہو سکا ہے،ادھر موصول ہونے والے اعداد و شمار کے مطابق ملک میں چینی کا سٹاک 5لاکھ میٹرک ٹن رہ گیا ہے،جبکہ ملکی کھپت ایک ماہ میں پانچ لاکھ ٹن ہےحکومت پاکستان نے ماہ اگست میں 1لاکھ میٹرک ٹن چینی امپورٹ کی اب 22سے23ستمبر تک مزید2لاکھ میٹرک ٹن چینی پہنچ رہی دو لاکھ میٹرک ٹن کے مزید ٹینڈر ہو گئے ہیں،ادھر افغانستان بارڈر کھلنے اور تعلقات بہتر ہونے پر وسیع مقدار میں چینی اور گڑ افغانستان جا رہا ہے،اس صورتحال میں چینی کے کاروبار سے وابستہ ڈیلرز نے وفاقی اور پنجاب حکومت کو خط لکھتے ہوئے خدشات کا اظہار کیا ہے کہ امپورٹ شدہ چینی ملا کر بھی ملک میں چینی کا سٹاک کم ہے،شوگر کرشنگ سیزن کا آغاز بروقت نہ کیا گیا تو چینی ربیع الاول میں چینی کا بحران جنم لے سکتا ہے،مانگ بڑھنے پر رحیم یار خاں سمیت پنجاب کے مختلف اضلاع میں کاشت کاروں نے گڑ تیار کرنا شروع کر دیا ہے،گڑ کارخانہ مالکان کاشت کاروں سے گنا 250روپے تک خرید کر رہے ہیں،
کاشتںکار تنظیموں کے رہنما چوہدری یاسین،سردار یعقوب سندھو،نصیر وڑائچ ،سید طارق نعیم نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا ہے کہ شوگر ملز مالکان حکومت اور کاشت کاروں کو پریشان کرنے کے در پے ہیں،حکومت فصل پر اٹھنے والے اخراجات کے لحاظ سے گنے کا نرخ کا تعین کرے،امسال گنے کی کاشت کے اضلاع میں بارشیں کم ہونے،نہری پانی کی قلت اور کھاد کی قیمتوں میں مسلسل اضافے کی وجہ سے فی ایکڑ پیداوار کم رہنے کا خدشہ ہے،میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے جنرل سیکرٹری سندھ چیمبر آف ایگریکلچر زاہد حسین بھرگڑی نے کہا ہے کہ سندھ میں 2لاکھ نوے ہزار ہیکٹر جو تقریباً 7لاکھ 25ہزاز ایکڑ پر گنے کی کاشت ہے،سندھ میں گنے کی فصل پچھلے سال کے مقابلے میں 20فیصد تک کم ہے،نہری پانی کی قلت رہی ہے،بارشیں اب جا کر کچھ ہوئی ہیں اس تک فصل مکمل طور پر تیار ہونے کی وجہ سے زیادہ فائدہ نہیں ہوا ہے،یکم نومبر کو سندھ میں کرشنگ سیزن کا آغاز ہو جاتا ہے تاہم سندھ حکومت اور شوگر ملز کرشنگ شروع کرنے اور گنے کے نرخ کے تعین کا اعلان نہیں کر سکی ہیں،انہوں نے کہا کہ گنے کی فصل چودہ ماہ میں تیار ہوتی ہے،اس کی دیکھ بھال پر اخراجات ہزار گنا بڑھ چکے ہیں اگر حکومت نے گنے کا مناسب ریٹ نہ دیا تو حکومت کو اس سال کی طرح آئندہ سال بھی چینی مہنگے داموں باہر سے منگوانا پڑے گی،آل پاکستان کسان فائونڈیشن رجسڑڈ کے مرکزی چیئرمین سید محمود الحق بخآری نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ کاشت کارحکومت پاکستان وزیراعظم پاکستان عمران خان سے مطالبہ کرتے ہیں کہ کھادوں اور زرعی ادویات کے مہنگے ترین ہونے کی وجہ سے پیداواری لاگت میں اضافہ ہوچکا ہے,پچھلے کرشنگ سیزن سے اب تک چینی فی کلو 45روپے آضافے کے ساتھ 115روپے میں فروخت ہو رہی ہے،اس لحاظ سے 40کلو گنے کا ریٹ 450روپے سے زائدبنتا ہے،اس سب کے باوجود خگنے کی قیمت 300 روپے فی من مقرر کرنے کا مطالبہ کرتے ہیں،انہوں نے کہا کہ یکم نومبر کو شوگر کین کریشنگ سیزن شروع کیا جائے کیونکہ اسوقت پنجاب میں 2150000 اکیس لاکھ پچاس ہزار ایکڑ اراضی پر گنے کی فصل تیار کھڑی ہے بروقت شوگر ملز نا چلنے کی صورت میں کسانوں کو ناقابل تلافی نقصان ہوگا اور ملک میں گندم کی کاشت میں کمی بھی واقع ہو گی
کسان بچاؤ تحریک کے صدر چوہدری محمد یاسین نے کہا کہ کولٹی پرئمیم کسانوں کا بنیادی اور قانونی حق ہے شوگر فیکٹری کنٹرول ایکٹ کے تحت گنے کی بڑھتی مٹھاس کا معاوضہ کسانوں کا حق ہے جس سے کاشت کاروں کو محروم رکھا جا رہا ہے،گنے میں مٹھاس لیول کے لحاظ سے ریٹ دیا جائے,,,,,,
Load/Hide Comments