تعلیم ترجیح کب بنے گی ؟
جو قومیں ترقی کرتی ہیں وہ ہمشہ تعلیم پر اولین ترجیع دیتی ہیں۔ آج ایک رپورٹ پڑھی جس کے مطابق پرائمری سطح پر اساتذہ کی کمی پاکستان دنیا کا 9 واں بدترین ملک جنوبی ایشیا میں بھی پاکستان سب سے پیچھے اوسطاً 49 طالبعلموں کیلئے صرف ایک استاد کی خدمات میسر ہیں یہ رپورٹ یونیسکو اکنامک سروے آف پاکستان کے نام سے شایع ہوئی ، جس کے مطابق تعلیمی میعار بھی پہلے سے تھوڑا سا اور نیچے چلا گیا ، پہلے ہی ڈھائی کروڑ بچے سکولوں سے باہر تھے جس میں تیس لاکھ اب پنجاب میں کورونا کی وجہ سے مزید اسکول چھوڑ چکے ہیں جو کہ بہت بڑا چیلنج ہےاور تعلیم پر اپنے جی ڈی پی کا سب سے کم خرچ جنوبی ایشیا میں پاکستان ہی کرتا ہے جبکہ ترقی یافتہ ملکوں کی اولین ترجیع تعلیم ہی ہے تعلیم کے ساتھ اخلاقی اقدار جڑی ہوتی ہیں تعلیم کتابوں کو یاد کرنے کا نام نہیں بلکہ دماغ کو سوچنے، سمجھنے اور غور و فکر کےلیے تربیت دینے کا نام ہے۔ اور آج کل روز ہم روز طلبہ کااحتجاج دیکھ رہے ہیں استادوں کا دیکھ رہے ہیں اور تو اور یونیورسٹییوں کی اپس کی لڑائی دیکھ رہے ہیں تعلیمی ادارے ہی ایک دوسرے کے خلاف صف آرا ہیں مطلب اوپر سے لے کر نیچے تک کسی کی بھی ترجیع تعلیم نہیں لگتی ابھی دو اگست سے حکومت نے یکساں نصاب متعارف کروایا ہے لیکن جس طرح بغیر تیاری کے اور بغیر کسی پلاننگ کے کیا گیا ہے اسے ابھی تک پرائیویٹ سیکٹر نے ماننے سے لگانے سے انکار کر دیا ہے اس غیر سنجیدگی کی وجہ سے اس کی کامیابی کے چانس محدود ہو کر رہ گیے ہیں
پہلے زمانے کے تعلیم یافتہ لوگ لکھا کرتے تھے کہ بچوں کی “تعلیم و تربیت” کا خیال رکھا جائے یعنی تعلیم اور تربیت کو اکٹھا لکھتے تھے تاکہ بچوں کے ذہن میں یہ بات نقش ہو جائے کہ تربیت بھی تعلیم کا حصہ ہے اگر تعلیم کے ساتھ تربیت صیح طریقے سے نہ ہو سکی تو ہماری تعلیم ادھوری ہے۔ جب سے ہمارے ملک میں مغربی تعلیم (جیسے جدید تعلیم کہتے ہیں) کا رجحان بڑھا ہے تب سے اسی بات پر توجہ دی جا رہی ہے کہ بچوں کو اچھی تعلیم، انگریزی تعلیم، معیاری تعلیم اور اعلی تعلیم دلوائی جائے، تربیت کے لفظ کو ہی الگ کر دیا ہے جس کے نتائج ہمارے سامنے ہیں یہ تعلیم کی۔ کمی ہی ہے کہ معاشرے میں غیر اخلاقی چیزیں دیکھنے کو مل رہی ہیں جن کا ہمارے مشرقی نظام میں تصور بھی نہیں کیا جا سکتا تھا
تعلیم ہے کیا ؟ تعلیم ایک ارٹیپیشل انٹیجلینس کا نام ہے جو بیروزگاری عربت اور مایوسی جیسے امراض کو معاشرےسے حتم کرتے ہیں کیونکہ یہ انسان کی قدرتی صلاحیت کو بڑھا کر اس سے کم وقت میں اچھے نتائج حاصل کرتے ہیں انسان کے سوئے ہوئے صلاحیتوں کو جگاتی ہے اور بیمار مردہ معاشروں میں جان ڈالتی ہے قران میں بھی انبیا علی السلام کو مردہ معاشروں کے بارے یہی کہا گیا ہے کہ اس مردہ معاشرہ میں جان ڈالو بلکہ قرآن کی وحی کی شروع اقرا جیسے الفاظ سے اس لئے کیا گیا کہ معاشروں کی تعمیر ایسا ہی ممکن تھا اس لئے تعلیم ایک بیمار معاشرے کا علاج ہے ہر قوم کی اپنی اپنی بیماری ہوتی ہے اور اس بیماری کے مطابق انسان کو تعلیم دی جاتی ہے مثلاً ہمیں اس وقت اس وقت بے راہ روی اور اخلاقی گراوٹ کی بیماری لگی ہوئی ہے تو اس کی تعلیم کی بھی اشد ضرورت ے
تحریر : فرحان عامر