پاکستان میں او آئی سی(OIC) سربراہی اجلاس”

پاکستان میں او آئی سی سربراہی اجلاس

تحر یر: قرۃ العین

پاکستان 22-23 مارچ 2022 کو او آئی سی سربراہی اجلاس کی میزبانی کرنے جا رہا ہے جس کا موضوع ”اتحاد، انصاف اور ترقی کے لیے شراکت“ ہے۔ 19 دسمبر 2021 کو اسلام آباد میں او آئی سی کے 17ویں غیر معمولی سربراہی اجلاس کی میزبانی کے بعد، پاکستان نے ریاستوں کی جماعت میں ایک قابل احترام حیثیت حاصل کر لی ہے۔ مسلم دنیا نے افغانستان کے معاشی طور پر مجبور لوگوں کی مدد کے لیے پاکستان کی کوششوں کو سراہا۔ یہ تھیم خود ان حالات میں اپنی مطابقت کو ظاہر کرتا ہے جہاں مسلم دنیا مسلسل دباؤ میں ہے۔ پاکستان کے وزیر خارجہ نے بتایا کہ سربراہی اجلاس میں مودی حکومت کے مسئلہ کشمیر، مسئلہ فلسطین، اسلامو فوبیا اور مو دی حکو مت کے تحت ہندوتوا کے بڑھتے ہوئے مذہبی عدم برداشت کا احاطہ کیا جائے گا۔ او آئی سی کے 17ویں غیر معمولی اجلاس میں بھی اسلامو فوبیا کو اجاگر کیا گیا۔ مغرب کے مختلف حصوں میں مسلم کمیونٹی ایک بادل کے نیچے ہے،ایسے مشکل وقت میں، او آئی سی سربراہی اجلاس سے قبل اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی طرف سے اسلامو فوبیا کے خلاف منظور کی گئی قرارداد اقوام متحدہ کا ایک تاریخی فیصلہ اورسکو ن افزاء ہے۔ پوری دنیا میں مسلمانوں کو منفی دقیانوسی سوچ، امتیازی سلوک، نفرت اور تشدد کا سامنا ہے۔ پاکستان نے بار بار اس مسئلے کو بین الاقوامی فورمز پر اجاگر کیا ہے اور پاکستان کے وزیر اعظم نے خاص طور پر اسلامو فوبیا کے بارے میں آواز اٹھائی ہے۔

یہ قرارداد پوری دنیا کے 1.5 بلین مسلمانوں کو جیل(Gel) اور تقویت دینے میں مدد کرے گی جو مغرب میں اسلامو فوبک حملوں کے دوبارہ سر اٹھانے کی وجہ سے مشکل میں گر فتار تھے۔ 15 مارچ کو کون بھول سکتا ہے جب نیوزی لینڈ کے کرائسٹ چرچ میں 51 بے گناہ مسلمانوں کا قتل عام کیا گیا۔ دنیا نے کینیڈا، یورپ اور امریکہ میں مسلمانوں پر ہونے والے حملے بھی دیکھے ہیں۔ اسلامو فوبیا کو OIC سربراہی اجلاس کے اصولی ایجنڈے کے طور پر رکھنے سے پاکستان کو مسلم کمیونٹی کی طرف سے بہت زیادہ عزت اور احترام حاصل ہوا ہے۔ افغانستان پر غیر معمولی سربراہی اجلاس کی میزبانی، اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں قرارداد کی منظوری اور اب او آئی سی سربراہی اجلاس کی میزبانی کے بعد عالم اسلام نے پاکستان کی صلاحیت کو بھانپ لیا ہے۔ درحقیقت پاکستان نے مسلم دنیا کے رہنما کی حیثیت سے اپنی اہمیت اور کردار کو ثابت کیا ہے۔ مسلم ممالک کو باہمی تعاون، اقتصادی ترقی اور سائنسی تحقیق کے شعبوں میں سخت توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ وزیر خارجہ کا مسئلہ کشمیر کو او آئی سی کے ایجنڈے میں شامل کرنے کا اعلان خوش آئند خبر ہے، اس سلسلے میں او آئی سی نے اقوام متحدہ کی کشمیر کی قراردادوں پر عملدرآمد کے لیے پہلے ہی ایک رابطہ گروپ قائم کر رکھا ہے۔ یو این جی اے میں برتری حاصل کرنے کے بعد، پاکستان کو او آئی سی کے فورم کو استعمال کرتے ہوئے اقوام متحدہ کی قراردادوں پر عمل درآمد کے لیے بھارت پر دباؤ ڈالنا چاہیے۔

کشمیریوں کے استصواب رائے کے حق کو یقینی بنایا جائے۔ مسئلہ فلسطین کو بھی ہر فورم پر پاکستان کی حو صلہ افزائی ملتی ہے۔ پاکستان نے مسئلہ فلسطین کو مسئلہ کشمیر کے سامنے کبھی کمزورنہیں ہونے دیا۔ پاکستان نے ہمیشہ فلسطین میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر اپنی تشویش کا اظہار کیا ہے۔ اس معاملے کو او آئی سی اجلاس کے ایجنڈے پر رکھنا بھی پاکستان کا دانشمندانہ فیصلہ ہے۔ ان دیرینہ سیاسی مسائل کے ساتھ ساتھ او آئی سی کو مسلم دنیا کو تیزی سے بدلتی ہوئی دنیا کے آنے والے چیلنجز کے لیے بھی تیار کرنے کی ضرورت ہے۔ ٹیکنالوجی کے عروج نے دنیا کو بدل کر رکھ دیا ہے۔ ٹیک کمپنیاں اور جماعتیں ریاستوں کی مستقبل کی سمتوں کا تعین کر رہی ہیں۔ تیز رفتار تکنیکی اختراعات نے ترقی یافتہ قوموں کو عالمی منڈی پر حکمرانی کے لیے طاقتور اور بااثر بننے میں مدد کی ہے۔ کامرہ ایئربیس میں 10C J-کی شمولیت کی تقریب کے موقع پر وزیراعظم پاکستان نے مستقبل کی ضروریات کے لیے مقامی ٹیکنالوجیز کو تیار کرنے اور ٹیکنالوجی یونیورسٹی کے قیام کی ضرورت کا اعادہ کیا۔ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ پاکستان نے ہر شعبے میں معیاری پیشہ ور پیدا کیے ہیں۔ بدقسمتی سے ہم انہیں بہتر آپریشنل اور کام کرنے کی سہولیات فراہم نہیں کر سکے جس کی وجہ سے وہ بیرون ملک بسنے پر مجبور ہوئے۔ اگر ہم انہیں ایک موثر نظام کی ضمانت دیں تو ایسا ہنر پاکستان کی مدد کے لیے واپس آ سکتا ہے۔ او آئی سی سربراہی اجلاس پاکستان کے لیے اس مسئلے کو اٹھانے اور مسلم دنیا کو مستقبل کی ضروریات اور چیلنجز کا ادراک کرنے کے لیے ایک مثالی موقع ہے۔ مسلم دنیا کے نوجوان غیر مطمئن نظر آتے ہیں کیونکہ او آئی سی نے انہیں درپیش چیلنجز پر کبھی توجہ نہیں دی۔ او آئی سی سربراہی اجلاس کو سائنس اور تحقیق کے فروغ پر توجہ دینی چاہیے۔ یہ بالآخر نوجو انوں کے لیے ایک امید افزا مستقبل کو یقینی بنائے گا۔ آخر میں، سوشل میڈیا کی اہمیت کو نظرانداز نہیں کیا جانا چاہئے کیونکہ اب سوشل میڈیا ہر جگہ عام اور روزمرہ کی زندگی کا ایک لازمی حصہ بن چکا ہے۔ مسلمانوں کی منفی دقیانوسی سوچ کے سدباب کے لیے نفسیاتی جنگ، پروپیگنڈہ اور حقائق کی جانچ پڑتال اور بیانیے کو فروغ دینے کے لیے باہمی سوشل میڈیا نیٹ ورکنگ پالیسیاں مرتب کی جائیں۔
٭……٭……٭……٭……٭

اپنا تبصرہ بھیجیں