اسلامو فوبیا کیخلاف قرارداد کی منظوری وزیر اعظم عمران خان کی دینی خدمات کی زندہ مثال”

اسلامو فوبیا کیخلاف قرارداد کی منظوری وزیر اعظم عمران خان کی دینی خدمات کی زندہ مثال”

مدتوں بعد ایک بہت ہی اچھی اور سکون آور خبر سننے کو ملی۔ اوروہ یہ کہ اقوام متحدہ نے اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی) کی طرف سے پاکستان کی اسلامو فوبیا کیخلاف تیار کی گئی قرارداد نہ صرف منظورکر لی ہے بلکہ 15مارچ کے دن کو اسلامو فوبیا سے نمٹنے کا عالمی دن بھی قراردے دیا۔ پاکستان کی طرف سے تیار کی جانے والی قرار دا د کی منظوری پر وزیر اعظم عمران خان نے اپنے ایک ٹویٹ پیغام میں امت مسلمہ کو مبارکباد دیتے ہوئے کہا ہے کہ پندرہ مارچ کا دن پوری امت مسلمہ کیلئے نہا یت مبارک و متبرک دن ہے کہ اس دن توہین رسالت کیخلاف ہماری آواز سنی گئی او ربالا آخر دُنیا نے اسلامو فوبیا کو چیلنج سمجھتے ہوئے اس تسلیم کیا بلکہ اس حوالے سے قرارداد منطور کی گئی اور یہی نہیں بلکہ پندرہ مارچ کے دن کو اسلامو فوبیا سے نمٹنے کا عالمی دن بھی قراردے دیا گیاجس کے لئے وہ پوری امت مسلمہ کو مبارکباد دیتے ہیں۔ قرار داد کامسودہ پیش کرنے کی سعادت بابرکت کا اعزاز اقوام متحدہ میں پاکستان کے مستقل مندوب و سفیر منیر اکرم نے حاصل کیا جن کا قرار داد پیش کرتے وقت کہنا تھا کہ اسلامو فوبیا ایک حقیقت ہے۔دین حق کیخلاف نفرت انگیز تقاریر و مواد کے علاوہ دُنیا میں مسلمانوں سے امتیازی سلوک و تشدد میں وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ اضافہ ہوتا جارہا ہے جو سنگین مسئلہ ہی نہیں عالمی انسانی حقوق کی خلاف ورزی بھی ہے اور جو عالم اسلام میں شدید اضطراب کاباعث ہے۔

دوسری جا نب اس حوالے سے بھارت کا یہ افسوسنا ک امر بھی سامنے آیا ہے کہ اُس نے اسلامو فوبیا کیخلاف یو این او میں قرارداد کی منطوری کے موقع کو بھی روایتی مسلم دشمنی کی بھینٹ چڑھاتے ہوئے ہاتھ سے جانے نہیں دیا اور گو کہ قرار داد کی بلا واسطہ مخالفت تونہیں کی مگر بلواسطہ طور پر اس کی حمایت بھی نہیں کی۔ یو این او میں بھارت کے مستقل مندوب ٹی ایس ترمورتی کہا کہنا تھا کہ دُنیا میں اسلامو فوبیا کے علاوہ دوسرے مذاہب کے لوگ برادریاں جن میں عیسائی ہندو سکھ شامل ہیں جن کی بھی مختلف حوالوں سے اُن کے مذہبی عقائد کی توہین کا سلسلہ چلتا رہتا ہے لہذااس طرف بھی توجہ دی جانی چاہیے۔بھارتی مندوب کی بغیلی کو ایک طرف رکھتے ہوئے دیکھا جائے تو توہین رسالت یا اسلامو فوبیا جو بھی کہا جائے درست تصور ہوتا ہے کا سلسلہ مدتوں سے جاری تھا جس پر مسلمان آواز تو اُٹھاتے رہے تھے مگر وہ آواز صرف دو اِک دن تک بلند ہوتی اور پھر خاموش ہو جاتی مگر یہ پہلی بار ہوا ہے اوراس حقیقت کو کوئی جھٹلا بھی نہیں سکتا کہ اسلامی دُنیا کی تاریخ میں وزیراعظم عمران خان وہ واحد مسلمان حکمران ہیں جنہوں نے دُنیا کے مختلف ممالک خصوصاً اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں پہلی بار توہین رسالت کیخلاف آواز بلند کی جس سے اُن کی دین اسلام و رسول خدا ﷺ پر ایمان و محبت کا والہانہ اظہار سامنے آتا ہے جس کیلئے وہ بجا طور پر لائق تحسین و شاباش ہیں اور یہ کریڈٹ انہیں دیا جانا بھی چاہیے۔

توہین رسالت کے واقعات پر غور کیا جائے تو ان کا سلسلہ صدیوں پرُانا ہے۔اس سلسلے میں 1929 کے ایک واقعے کی مثال دی جاسکتی ہے جس میں ایک ہندو پبلشر راج پال کو توہین رسالت کے ارتکاب میں مشہور زمانہ مسلمان مجاہد غازی علم دین شہید نے قتل کر دیا تھا۔مردُود راج پال نے رحمت العالمین ﷺ کی شان میں گستاخی کرتے ہوئے اپنی ایک کتاب ”رنگیلا رسول“ شائع کی تھی جس پر غازی علم دین نے اسے اس کی دکان کے اندر ہی قتل کر کہ جہنم واصل کر دیا۔اس کے بعد ایک اور ایک کے بعد دوسرا پھر تیسرا واقع بھی ظہور پذیر ہوا مگر دو سال پہلے ڈنمارک کے مردُود کارٹونسٹ کی طرف سے جب رسول اللہ ﷺ کی ذات مبارکہ کے حوالے سے متنازعہ کارٹون جاری کئے گئے اور پھر ستم بالا ستم کے مصداق نہ صرف کارٹون شائع کئے گئے بلکہ جب اس پر ڈنمارک کے صدر کی طرف سے اسے اظہار رائے کی آزادی سے منسوب کیاگیا تو پھر بات قابو سے باہر ہوگئی اوردیکھا جائے تو یہی وہ واقعہ تھا جو وزیر اعظم عمران خان بھلائے نہ بھلا سکے اور یوں بات عالمی انصاف کے ادارو ں تک جا پہنچی مگر مقام افسوس کہ دو سال پہلے پیش کی گئی قرارداد مسترد کر دی گئی جس کے بعد یہ قرارداد اسلامی تعاون تنظیم کے زریعے دوبار پیش کی گئی جس پر یو این او حکام نے پرسوں یعنی پندرہ مارچ کو اس حولے سے سنجیدہ اقدامات اُٹھاتے ہوئے اسلامو فوبیا سے نمٹنے کی غرض سے اسے باقاعدہ طور منظور کر لیا۔
قارئین کرام یقین کیجئے یہ خبر سن کر ہمیں جو دلی طمانیت اور سکون حاصل ہوا اس کا اندازہ ہم ہی لگا سکتے ہیں۔ حضور پاک ﷺ کی ذات اقد س پر جان نچھاور کرنے والے فدائین کی دُنیا میں کوئی کمی نہیں ہے مگر چونکہ مسئلہ جنگ و جدل کی بجائے پر ُامن طور حل کرنا تھا اسی لئے پاکستان نے او آئی سی کی مدد سے یہ مسئلہ اقوام متحدہ میں اُٹھایا جس پر 15 مارچ 2022کے تاریخ ساز دن پر یو این او کی جنرل اسمبلی نے توہین رسالت کے مکر و ہ عمل پر قدغن لگاتے ہوئے اسلامو فوبیا کیخلاف قراردار منظورکرلی بلکہ 15مارچ کے دن کو اسلامو فوبیا سے نمٹنے کا عالمی دن بھی قرار دے دیا جس پر پاکستان خصوصاً وزیر اعظم عمران خان بجا طور پر تحسین و مبارکباد کے مستحق ہیں کیونکہ دو برس پہلے جب ڈنمارک کے ایک گستاخ کارٹونسٹ نے حضور پاک ﷺ کی اپنے تیار کئے گئے خاکوں کے زریعے توہیں کی تو سب سے پہلے وزیر اعظم عمران خان نے اس کیخلاف اقوام متحدہ میں آواز بلند کی جس کے بعد دیگر اسلامی ملکو ں کی طر فسے بھی توہین رسالت کیخلاف آوازیں اُٹھنے لگیں جس کے نتیجے میں دوسال کا عر صہ گذرنے کے بعدمقام اطمینا ن ہے کہ پہلے کینیڈا اور اب روس کے صدور بھی اسلامو فوبیا کیخلاف سینہ تان کر میدان میں آچکے ہیں جسے نظر میں رکھتے ہوئے امید واثق ہے کہ اب کوئی بھی گستاخ رسول حضورپاک ﷺ کی شان میں چاہے اس کا تعلق ڈنمارک سے ہو یا دُنیا کے کسی بھی ملک سے ہوگستاخی کرنے کی جرارت نہیں کر سکے گا اور بادلنخواستہ کرنے کی نیت بھی کرے گا بھی تو اس پر سو بار سوچے گا ضرور۔
توہین رسالت پر قدغن کے حوالے سے منظور کی جانے والی قرارداد جو پاکستان کی طرف سے تیار کی گئی اور جسے اسلامی تعاون تنظیم (اوآئی سی) نے یو این او میں پیش کیا کی یوا ین او جیسے غیر مسلم ادارے سے منطور کئے جانے کے عمل پر غور کیا جائے تو یہ حیرت انگیز ہی نہیں باعث تعجب بھی ہے کیونکہ یو این او نے کبھی بھی کسی بھی مسلمان ملک یا امت مسلمہ کے حوالے سے خود کبھی کوئی ایکشن لیا نہ ہی مسلمانوں کی طرف سے اس سلسلے میں بار بار کی درخواستوں پر کان دھرا،اس حوالے سے مقبوضہ کشمیر فلسطین اور دیگر عرب ممالک میں اسرائیلی و بھارتی مظالم کی داستانوں کی مثال واضع طور پر دی جا سکتی ہے مگر یہاں توہین رسالت /اسلامو فوبیا کے خلاف جب او آئی سی کے تعاون سے15مارچ کو قرارداد پیش کی گئی تو یہ منظور کرلی گئی جسے مسلم امہ کو درپیش مسائل کے حل کے حوالے سے بارش کے پہلے قطرے سے تعبیر کیا جاسکتا ہے جس پر جہاں ہم یواین او کی کارکردگی پر مطمئن ہوئے ہیں وہاں یقینا دُنیا کے کونے کونے میں بسنے والے ہر مسلمان کو دلی طور خوشی ہوئی۔اس سلسلے میں وزیر اعظم پاکستان عمران خان جنہوں نے ہی دُنیا میں پہلی بار اسلامو فوبیا کا تصور پیش کیا بلکہ اس سلسلے میں عملی اقدامات کرتے ہوئے متذکرہ قرارداد بھی تیار کروائی کی خوشی و مسرت کا اندازہ بخوبی لگایا جاسکتا ہے جن کو دُنیا کے ہر مسلمان ملک کے سربراہ کے طرف سے ٹیلی فونک مبارکبادوں کا سلسلہ ابھی تک جاری ہے۔مگر اس کے باوجود یہاں ہم جو بات کرنے جارہے ہیں وہ قرار داد کی منظوری سے بھی کہیں زیادہ اہم ہے اور وہ یہ کہ قرارداد تو منظور ہوگئی مگر اب سے کہیں زیادہ ضروری اس قرارداد پر عملدرآمد ہے جو بھی کسی امتحان سے کم نہیں اور ہمیں یقین بھی ہے کہ جس طرح یو این او کے ارباب اختیار نے یہ قرارداد منظور کی بالکل اسی طرح وہ اپنے رکن ممالک سے اس پر عملدر آمد کیلئے ان پر زور بھی دے گا تب ہی اسکی قراردادیں اپنی اہمیت منوا سکیں گی بصورت دیگر محض منظوری کوئی اہمیت نہیں رکھتی۔یہ بات ہم مقبوضہ کشمیر کے حوالے سے یواین او کی منظور شدہ قرارداوں کے ساتھ ہونے والے سلوک کوزہن میں رکھ کر کر رہے ہیں جنہیں منظور ہوئے ستر سال سے زائد کا عرصہ گذر چکا ہے مگر اُن پر عملدر آمد تا حال محو ِ انتظار ہے۔

تحریر: محمد صباح الدین
٭٭٭٭٭٭

اپنا تبصرہ بھیجیں