اسلامو فوبیا کی روک تھام اور ہماری ذمہ داریاں”

اسلامو فوبیا کی روک تھام اور ہماری ذمہ داریاں

تحریر:محمد فاروق

اگرچہ وطن عزیز کے عمومی احوال پر تو سیاسی رنگ غالب رہتا ہے لیکن ایسے میں یہ حقیقت نہایت حوصلہ افزاء ہے کہ ایک عامی بھی اسلام کی آفاقی اقدار اور تعلیمات کے حوالے سے نہایت باخبر ہے۔ اس کا اندازہ یوں کیا جاسکتا ہے کہ حالیہ برسوں میں نیوزی لینڈ‘ کینیڈا اور بھارت میں مسلمانوں کے خلاف نفرت کے جو خونی واقعات رونما ہوئے ان سے (غیراسلامی اور خودساختہ مہذب) دنیا کا سر شرم سے سرنگوں ہوگیا۔یہ صورتحال اس وقت تشویشناک محسوس ہوئی جب نیوزی لینڈ کے شہر کرائسٹ چرچ میں فائرنگ کرکے 49نمازیوں کوشہید کرنے والے دہشت گرد ٹارنٹ(Tarrant) نے اس سانحہ کے بعد انتہائی بے شرمی کے ساتھ یہ بیان دیا کہ میں تو زیادہ سے زیادہ مسلمانوںکو قتل کرنا چاہتا تھا۔

اسی طرح جب کینیڈا میں ایک ٹرک ڈرائیور نے چار پاکستانی نژاد شہریوں کو ٹرک تلے کچل دیا تو اس نے دراصل اس بات کی گواہی دی کہ یہ حادثہ محض اتفاقیہ نہیں تھا بلکہ اس کے پیچھے اسلام اور خاص طور پر مسلمانوں سے نفرت کا جذبہ کارفرماتھا۔ انہی واقعات کے بعد بھارت میں ایک حجاب پہنے ہوئے طالبہ کووزیراعظم مودی کے حامی طلباء نے گھیر لیا اور اس کو حراساں کرنے کی کوشش کی لیکن جب اس دلیر اور جرأتمند مسلمان لڑکی نے جواب میں ’’اللہ اکبر‘‘ کا جوشیلہ نعرہ بلند کیا تو مذکورہ طلباء تتربترہوگئے۔

ان حقائق کی روشنی میں یہ امر اپنی جگہ نہایت فکر انگیز ہے کہ بدھ کے روز گراسی گرائونڈ سیدو شریف سوات میں جلسہ سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم نے کہا کہ جسے یہ یہودی کہتے ہیں اس کے دور میں اسلاموفوبیاکیخلاف اقوام متحدہ میں قرارداد منظور ہوئی ‘پاکستان میں قادیانیوں کو اقلیت قرار دینے کے بعد یہ سب سے بڑا کام ہوا ہے۔علاوہ ازیں عمران خان نے کہا کہ ہماری حکومت نے اسلاموفوبیا کے تدارک کیلئے ہر فورم پر آواز اٹھائی۔یاد رہے کہ 15مارچ2022ء کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے 15 مارچ کو عالمی یوم انسداد اسلاموفوبیا قرار دینے کے لئے اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی) کی جانب سے پاکستان کی پیش کردہ قرارداد متفقہ طور پر منظور کرلی۔ اقوام متحدہ میں پاکستان کے مستقل مندوب منیر اکرم نے کہا کہ اسلاموفوبیا ایک حقیقت ہےاور جنرل اسمبلی کے 193 اراکین نے نشاندہی کی کہ یہ رحجان بڑھ رہا ہے اور اس کا ازالہ کرنا چاہیے۔اس قرار داد کی منظوری پر بھارت تلملا اٹھا ،قرارداد متفقہ طور پر منظور ہونے کے بعد کئی ممالک نے اس کو سراہا ۔
دریں اثناء وزیر اعظم عمران خان نے کہا ہے کہ میں امتِ مسلمہ کو مبارکباد پیش کرتا ہوں کہ اسلاموفوبیا کی بڑھتی ہوئی لہر کیخلاف ہماری آواز سنی گئی اور 15 مارچ کو اسلاموفوبیا کے تدارک کے عالمی دن کے طور پر مقرر کرتے ہوئے اقوام متحدہ نے او آئی سی کی ایماء پر پاکستان کی پیش کردہ تاریخی قرارداد منظور کی،وزیر اعظم نے یہ مبارکباد سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر ایک ٹویٹ میں دی اور کہا کہ اقوام متحدہ نے بالآخر دنیا کو درپیش اسلاموفوبیا، مذہبی آثار و رسومات کی تعظیم، منظم نفرت انگیزی کے انسداد اور مسلمانوں کیخلاف تفریق جیسے بڑے چیلنجز کا اعتراف کیا،اس تاریخی قرار داد کا نفاذ یقینی بنانا اب اگلا امتحان ہے۔دریںاثناءاقوام متحدہ میں وطن عزیز کے سفیر منیر اکرم نے ابتدائی کلمات میں کہا کہ اسلاموفوبیا کے نتائج نفرت انگیز تقریر، امتیاز اور مسلمانوں کے خلاف جرائم ہیں اور یہ دنیا کے کئی خطوں میں پھیل رہا ہے۔انہوں نے کہا کہ مسلمانوں اور کمیونیٹیز کے ساتھ تفریق، دشمنی اور تشدد جیسے اقدامات ان کے انسانی حقوق کی بدترین خلاف ورزی ہے اور ان کی مذہبی آزادی اور عقائد کے خلاف ہے اور اس کے نتیجے میں اسلامی دنیا میں شدید تکلیف محسوس کی جارہی ہے۔

منیراکرم نے اقوام متحدہ کے خصوصی نمائندے برائے مذہبی آزادی کی نائن الیون دہشت گردی کے حملوں کے بعد مسلمانوں پر چھائے ہوئے خوف اور مسلمانوں کے ساتھ تشدد پر مبنی رپورٹ کا حوالہ بھی دیا۔انہوں نے کہا کہ اس طرح کے تقسیم، خوف اور بداعتمادی کے ماحول میں مسلمانوں کو اکثر توہین، منفی سوچ اور شرم کا احساس ہوتا ہے اور ایک اقلیت کے اقدامات کو بطور مجموعی زبردستی طور پر ذمہ دار ٹھہرایا جاتا ہے۔پاکستانی سفیر کا کہنا تھا کہ اسلاموفوبیا اس وقت پھیلاؤ کی رفتار اور بے قابو ہونے والی دونوں صورتوں میں خطرناک ہوگیا ہے اور زینوفوبیا، منفی شناخت اور مسلمانوں کو روایتی سوچ کے ذریعے تقسیم کرنا بھی نسل پرستی ہے۔اسلامو فوبیا کے خلاف دن منانے کی قرارداد کو اتفاق رائے سے جنرل اسمبلی میں منظوری ایک اہم پیش رفت ہے تاہم اس کی نوعیت اور افادیت محض علامتی ہے۔
رائے عامہ کےمطابق دنیا بھر میں مسلمانوں کے ساتھ بڑھتے ہوئے امتیازی سلوک، تشدد اور عدم برداشت کے رویوں کے تناظر میں عالمی سطح پر تحمل اور امن کے کلچر کو فروغ دینے کیلئے اقوامِ متحدہ کی جانب سے ہر سال 15مارچ کو عالمی یوم انسداد اسلاموفوبیا منانے کی قرار داد منظور کیے جانا اس امر کی نشاندہی کرتا ہے کہ عالمی سطح پر بھی مسلمانوں کو درپیش مسائل کو محسوس کیا جا رہا ہے۔ گزشتہ دنوں روسی صدر پیوٹن اور کینیڈین وزیراعظم جسٹن ٹروڈو کے اسلامو فوبیا کے خلاف دیئے گئے بیانات سے بھی اسی بات کا اظہار ہوتا ہے۔ جنرل اسمبلی میں اسلامی تعاون تنظیم کی جانب سے پاکستان کی پیش کی گئی قرارداد میں مذہب یا عقیدے کی بنیاد پر لوگوں پر ہر قسم کے تشدد اور عبادت گاہوں، مزاروں سمیت مذہبی مقامات پر حملے کو سخت ناپسند کرتے ہوئے اسے بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی قرار دیا گیا اور تمام رکن ممالک، اقوامِ متحدہ کے متعلقہ اداروں، دیگر علاقائی اور بین الاقوامی تنظیموں کو عالمی سطح پر یہ دن منانے کی دعوت دی گئی۔
اس موقع پر اقوام متحدہ میں پاکستان کے مستقل مندوب منیر اکرم نے بجا کہا کہ اسلاموفوبیا ایک حقیقت ہے، جس کے نتائج نفرت انگیز تقریر، امتیاز اور مسلمانوں کے خلاف جرائم ہیں اور یہ دنیا کے کئی خطوں میں پھیل رہا ہے۔ قرارداد کی حمایت 57مسلم ملکوں سمیت روس، چین اور دیگر 8ممالک نے کی ۔یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ نائن الیون کےحملوں کے بعد دنیا بھر خصوصاً مغربی ملکوں میں مسلمانوں کے خلاف تشدد کے واقعات میں نمایاں اضافہ ہوا جس کا اعتراف اقوامِ متحدہ اپنی مختلف رپورٹوں میں کر چکی ہے۔

سیاسی اور سماجی مبصرین کےنزدیک یہ بات بے حد قابل توجہ ہے کہ 15مارچ کو بھارت کی ریاست کرناٹک کی ہائی کورٹ نے تعلیمی اداروں میں لڑکیوں کے حجاب پہننے پر پابندی برقرار رکھنے کا حکم جاری کر دیا ۔ مسلم طالبات کے وکیل نے کہا کہ فیصلہ سپریم کورٹ میں چیلنج کیا جائے گاجبکہ طالبات نے حجاب میں ہی تدریسی عمل کو جاری رکھنے کا عزم کیا ہے ۔ بھارتی میڈیا کے مطابق کرناٹک کی ہائی کورٹ نے منگل کو اپنے فیصلے میں کہا کہ اسلام میں حجاب پہننا لازمی جزو نہیں ہے۔ خیال رہے کہ مسلم طالبات پر تعلیمی اداروں میں حجاب پر لگائی جانے والی پابندی کو چیلنج کیا تھا۔ عدالت نے فیصلے میں مزید کہا کہ یونیفارم سے متعلق گائیڈ لائنز دینے کا اختیار حکومت کے پاس ہے۔ فیصلے کے مطابق حکومت کی جانب سے 5 فروری کو جاری ہونے والا حکم غیر آئینی نہیں تھا۔ یاد رہے کہ 5 فروری کو کرناٹک کے محکمہ تعلیم نے احکامات جاری کیے تھے جس میں تمام سرکاری اور نجی کالجز کو یونیفارم کی گائیڈ لائنز پر مکمل عمل درآمد کرنے کا کہا تھا۔ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس ریتو راج اواستھی نے اپنے فیصلے میں کہا کہ ’ہماری یہ رائے ہے کہ مسلمان خواتین کا حجاب پہننا ضروری مذہبی اعمال میں شمار نہیں ہوتا۔ادھرآل انڈیا مجلس اتحادالمسلمین کے سربراہ اور رکن پارلیمنٹ اسد الدین اویسی نے کرناٹک ہائی کورٹ کے فیصلے سے اتفاق کرنے سے انکار کردیا اور کہا کہ وہ کرناٹک ہائی کورٹ کے فیصلے سے متفق نہیں ہیں۔اسد الدین اویسی نے ٹویٹ کیا کہ میں حجاب پر کرناٹک ہائی کورٹ کے فیصلے سے متفق نہیں ہوں۔ مجھے امید ہے کہ دیگر مذاہب کی تنظیمیں بھی اس فیصلے کے خلاف اپیل کریں گی۔مقبوضہ کشمیر کی سابق وزیراعلیٰ محبوبہ مفتی نے کرناٹک ہائی کورٹ کا حجاب پر پابندی برقرار رکھنے کے فیصلے کو انتہائی مایوس کن قرار دیا ہے، انہوں نے لکھا کہ ایک طرف ہم خواتین کو بااختیار بنانے کی بات کرتے ہیں، دوسری طرف ہم انہیں سادہ انتخاب کا بھی حق نہیں دیتے، یہ صرف مذہب سے متعلق نہیں بلکہ اپنی مرضی کا انتخاب کرنے کی آزادی ہے۔
ریکارڈ گواہ ہے کہ وطن عزیز کے عوامی اور سیاسی حلقوں میں اس وقت حیرت انگیز مسرت کی لہر دوڑ گئی جب گذشتہ برس 24دسمبر کو روس کے صدر ولاد میر پیوٹن نے کہا کہ پیغمبر اسلامﷺ کی توہین ہرگز آزادی اظہار واظہارِ رائے نہیں ہے بلکہ یہ مذہبی آزادی کی سنگین خلاف ورزی ہے۔ انہوںنے یہ بیان اپنی سالانہ نیوز کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے دیا۔انہوںنےکہا کہ حضرت محمد ؐ کی توہین مذہبی آزادی کی خلاف ورزی اور یہ دنیا بھرکے مسلمانوںکےجذبات سےکھیلنے کے مترادف ہے۔روسی صدر نے گذشتہ سال چارلی ہیڈو کے دفاتر پر ہونے والے حملوں کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ پیغمبر اسلام کی توہین دراصل اسلام کی توہین ہے ۔

روسی صدر کے اس بیان کو عالم اسلام‘ خاص طور پر وطن عزیز میں ہرسطح پر خوب سراہا گیاجس کا اندازہ یوں کیا جاسکتا ہے کہ وزیراعظم عمران خان نے روسی صدر کے اس بیان کا ذکر کرتےہوئے کہا کہ یہ بیان میرے پیغام کی تصدیق کرتا ہے۔ اس خوشگوار صورتحال کا تجزیہ کرتے ہوئے مبصرین نے بجا طور پر اس حقیقت کی نشاندہی کی کہ روسی صدر نےختم نبوت اور احترام نبوت کے عنوان سے جو بیان دیا ہے وہ محض بیان بازی یا خیال آرائی نہیں ہے بلکہ اس کے پیچھے عالم اسلام‘ خاص طور پر پاکستان اور پاکستان کے وزیراعظم عمران خان کی ایک طویل اور مسلسل جدوجہد کارفرمارہی۔ اسی طرح سفارتی دنیا کے امور سے آگاہ شخصیات نے بھی اس بات سے اتفاق کیا کہ روس ایسے اہم ملک کے صدر کی طرف سے جو بیان جاری کیا گیا اس کا اظہار صرف ایسی صورت میں ہی ممکن ہوا کہ وزیراعظم عمران خان نے گذشتہ تین برسوں کے دوران ہر اہم قومی اور بین الاقوامی فورم پر اس باب میںمسلمانوں کے جذبات کی نہایت اثر انگیز انداز میں ترجمانی کی۔
اس اہم پیشرفت کا آغاز حقیقی معنوں میں اس وقت ہوا جب عمران خان نے 27دسمبر 2019ء کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کے دوران ناموس رسالت اور اسلام فوبیا پرفکر انگیز خیال کا اظہار کیا۔ بعدازاں 25ستمبر 2020ء کو ایک مرتبہ پھر اقوام متحدہ کے اسی پلیٹ فارم سے عمران خان نے اپنے موقف کااعادہ کیا اوراس حوالے سے ایک انٹرنیشنل ڈےمنانےکا اعلان بھی کیا۔ اس سے اگلےبرس 24ستمبر2021ء کو عمران خان نے اپنی اس روایت کو برقرار رکھتے ہوئے جب اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کیا تو انہوں نے عالمی ضمیر کو بیدار کرنے کی کوشش کرتے ہوئے کہا کہ اگراحترام نبوت کی روش اور پالیسی کو عام نہ کیا گیا تو اس کے نتائج بے حد منفی اور نقصان دہ ہوں گے۔دنیا بھر کے مسلمانوں نے اپنے پیغمبر کے احترام کے باب میں غیر مسلم پراپیگنڈہ اور اقدامات پراب تک مثالی صبر اور تحمل کا مظاہرہ کیا ہے لیکن عالم اسلام کے اس طرز فکر و عمل کو اربوں مسلمانوں کی کمزوری تصور نہ کیا جائے۔یہاں پر یہ بات قابل ذکر ہے کہ 25اکتوبر 2020ء کو وزیراعظم عمران خان نے فیس بک کے مالک‘ مارک ذکر برگ کے نام ایک خط روانہ کیا جس میں مطالبہ کیا گیا کہ اسلام فوبیا پر پابندی عائد کی جائے بالکل اسی طرح جس طرح (فیس بک پر) ہولوکاسٹ پر سوال اٹھانے یا تنقید کرنے پر پابندی ہے۔ وزیراعظم نے اصرارکیا کہ اسلام فوبیاپر اسی نوعیت کی پابندی ناگزیر ہے۔
28اکتوبر 2020ء کو وزیراعظم عمران خان نے مسلمان ممالک کے جملہ رہنمائوں اور قیادت کے نام اپنے خصوصی پیغام اور خط میں کہا کہ غیر اسلامی ممالک میںبڑھتے ہوئے اسلام فوبیا کا مقابلہ کرنے اور اس مسئلے کو جڑ سےاکھاڑ پھینکنے کی خاطر اسلامی ممالک کو متحد ہوکر نتیجہ خیز اقدامات کرنے ہوں گے۔ اسی طرح نومبر 2020ء میں جب شنگھائی تعاون تنظیم کے ریاستی سربراہان کا اجلاس ہوا تو اس میں شریک وزیراعظم عمران خان نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے اسلام فوبیا کے معاملے کی نشاندہی کی۔اسی طرح 3مئی 2021ء کو عمران خان نے اسلامی سربراہ کانفرنس(او آئی سی) کے سفیروں کے ساتھ ملاقات میںاس بات پر زور دیا کہ اسلام فوبیا کے مسئلے کو حل کرنےکیلئے اور بین المذاہب ہم آہنگی کو فروغ دینے کیلئے موثراقدامات اور بات چیت کا راستہ اختیار کیا جائے۔
سچی بات تو یہ ہےکہ عمران خان کو اندرون ملک یا بیرون ملک جب بھی مناسب موقع اور وقت میسر آیا تو انہوں نے ناموس رسالتﷺ اور اسلام فوبیا کے مسئلے کی طرف رائے عامہ کی توجہ مبذول کرانے میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہ کیا۔11جون 2021ء کو عمران خان نے کینیڈین براڈ کاسٹنگ کارپوریشن(CBC) کے ساتھ ایک انٹرویو میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ اسلام فوبیا کے خلاف عالمی رہنمائوں اور اکابرین کو آواز اٹھانی چاہئے۔اس پس منظرمیں یہ بات بھی نہایت قابل ذکر اور حوصلہ افزاء ہے کہ کینیڈا کے وزیراعظم جسٹن ٹروڈو نےیہ اعلان کیا کہ اسلام فوبیا کسی قیمت پر قابل قبول نہیں ہے اور اس مسئلے کو حل کرنے کیلئے ہماری حکومت خصوصی نمائندےکا تعین کرے گی۔ ہم سمجھتے ہیں کہ حکومت کی طرف سے اسلاموفوبیا کے رحجان کی حوصلہ شکنی اور تدارک کیلئے جو کوششیں کی جارہی ہیں وہ اس صورت میں ہی کارگر اور نتیجہ خیز ہوںگی جب عوام کی طرف سے بھی ان کوششوں کی عملی طور پر تحسین اور تائید کی جائے گی۔

اپنا تبصرہ بھیجیں