پنجابی یونین کے زیر اہتمام”پنجاب اُتے فرنگی قبضے دا کالا دیہاڑ“ کے عنوان سے تقریب
آج کا دن ہمارے لیے درد ناک یادیں لیکر آتا ہے،مدثر اقبال،پنجابیوں کی حکومت اپنوں کی غداری سے ختم ہوئی، الیاس گھمن، انگریز کا دور پنجاب کا خون چوسنے کا دور تھا، ندیم رض
پنجاب کی تاریخ کم از کم پانچ ہزار سال پرانی ہے، زاہد حسن، پنجابی کیلئے کام کرنیوالوں کو سلام کرتا ہوں، ایم اچ بابر، رنجیت سنگھ کو اقتدار دلوانے والے مسلمان تھے، کلیان سنگھ کلیان
لاہور(سٹاف رپورٹر)پنجاب پر 29مارچ 1849کو انگریزوں کے قبضے کے خلاف پنجابی یونین کے زیر اہتمام پنجاب ہاؤس میں ”پنجاب اُتے فرنگی قبضے دا کالا دیہاڑ“ کے عنوان سے گزشتہ روزتقریب کا انعقاد کیا گیا اور 29مارچ کو یوم سیاہ کے طور پر منایا گیا۔تقریب کی صدارت پنجابی زبان تحریک کے راہنماو دانشور الیاس گھمن نے کی۔ مہمانان خصوصی میں زاہد حسن،سلیم چوہدری، پروفیسر ڈاکٹر کلیان سنگھ کلیان تھے۔ تقریب کی میزبانی اور اسٹیج سیکرٹری کے فرائض پنجابی یونین کے چیئرمین مدثر اقبال بٹ نے نبھائے پنجابی یونین کے وائس چیئرمین بلال مدثر بٹ نے خصوصی شرکت کی۔تقریب کا باقاعدہ آغاز مدثر اقبال بٹ نے تلاوت قرآن پاک سے کیا انہوں نے تقریب کے حوالے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ پنجاب پر انگریزوں کے قبضے کا تاریخی پس منظر ہے پنجاب ہاؤس ایسی تقریبات منعقد کرتا رہے گا جن کامقصد پنجاب کی تاریخ اورثقافت سے نئی نسل کو روشناس کرانا اور پنجابی زبان کا فروغ ہے۔ انہوں نے کہا کہ کسی کام کے کرنے کے لئے سرمایہ سے زیادہ دل اور جذبے کی ضرورت ہوتی ہے۔دولت وہی ہے جو کسی کاز کے لئے خرچ ہو میری خواہش ہے کہ میرے بعد بھی میری کمائی پنجابی کے فروغ کے کاز پر خرچ ہو۔پنجابی میڈیا گروپ کے صدر ندیم رضا نے کہا کہ بہت سے دن ایسے ہوتے ہیں جو ہمارے شعور پر گہرے اثرات مرتب کرتے ہیں آج کی تقریب میں موجود تحریکی لوگ ہمارا فخر ہیں ہمیں ہر دن اسطرح منانا چاہیے کے اس کا حق ادا ہوجائے۔جو قومیں اپنی روح کے زخم بھول جاتی ہیں وہ اپنا وجود برقرار نہیں رکھ پاتیں۔
پنجابی ہر حملہ آورسے لڑے ہیں آج کادن پنجاب پر انگریزوں کے قبضے اور پنجابیوں کی حکومت ختم ہونے کا دن ہے۔انگریز کا دور پنجاب کا خون چوسنے کا دور تھا اس دور میں بننے والی یونیورسٹیاں اور کالجز انگریزوں کے ہمنواؤں کے بچوں کے لئے تھے۔ پنجاب کی آزادی کے لئے لڑنے والوں کی زندگیا ں جیلوں اور گھوڑوں پر گزری ہیں ہم نے انگریزوں سے آزادی لے لی لیکن شعوری طور پر آج بھی ان کے غلاموں کے غلام ہیں جب تک ہمیں ہماری زبان نہیں مل جاتی ہماری ثقافت نہیں مل جاتی ہمارے لئے آزادی کا مطلب ادھورا ہے۔آصف گجر نے کہا کہ پنجاب ہاؤس اور مدثراقبال بٹ کا شکر گزار ہوں کے انہوں نے آج کی تقریب منعقد کی انگریز نے پنجاب پر قبضہ کرنے کے بعد پہلا کام ہم سے ہماری زبان اور ثقافت چھیننے کا کیا ہمارے قاعدے مہنگے داموں خرید کر انہیں جلا دیا گیا پنجاب کا کلینڈر ہزاروں سال پرانا ہے ہماری تہذیب دنیا کی قدیم ترین تہذیب ہے جسے انگریزوں اور افغانیوں نے نقصان پہنچایا۔جاوید پنچھی نے کہا کہ پنجابی کے لئے مدثراقبال بٹ کی خدمات لازوال ہیں۔انگریزوں نے پنجابی کے قاعدے 6آنے فی قاعدے کہ حساب سے خرید کر آگ لگا دی اگر اس وقت کے 6آنے کا موازنہ آج کے دور سے کیا جائے توبہت بڑی رقم بنتی ہے۔فرح دیبا ہاشمی نے کہا کہ زبان آدمی کی پہچان ہوتی ہے پرندے نظر نہ بھی آئیں تو ہم ان کی آواز سے پہچان لیتے ہیں کہ یہ کس پرندے کی آواز ہے بڑی خوشی کی بات ہے کہ آج ہم پنجاب پر انگریزوں کے قبضے کے حولے سے کالا دیہاڑ منا رہے ہیں انڈیا میں یہی دن پہلی مرتبہ 2020میں منایا گیا تھا ہمیں اپنی آنے والی نسلوں کو اپنی ماں بولی کے بارے میں آگاہی دینی چاہیے۔ڈاکٹر ایم ایچ بابرنے کہا کہ پنجابی کے لئے کام کرنے والوں کو دونوں ہاتھ اٹھا کر سلام کرتا ہوں 32سال تک اردو میں لکھا اور پڑھایا ہے اب لوٹ کر اپنے گھر آگیا ہوں اپنوں میں آکر یوں محسوس ہوا ہے جیسے میں صدیوں سے راستہ بھولا ہواتھا۔
انہوں نے اس موقع پر شاعر صغیر تبسم کی پنجابی نظم بھی سنائی۔ عابد گیلانی نے کہا کہ ہمیں پنجاب میں مردم شماری کے حوالے سے آگاہی دینے کی ضرورت ہے کیونکہ اکثر پنجابی بولنے والی خواتین بھی اپنی مادری زبان کے خانے میں اردو لکھوا دیتی ہیں جس سے پنجابیوں کی تعداد میں کمی ہوجاتی ہے سندھ میں مردم شماری کے فارم سندھی میں بلوچستان کے بلوچی میں جبکہ پنجاب میں اردومیں ہونگے۔افتخار وڑائچ کالروی نے کہا دنیا میں تین بڑے سقوط ہوئے ہیں جن میں سے تیسرابڑا سقوط 29مارچ 1849کو پنجاب پر انگریزوں کے قبضے کا تھا۔اس لڑائی میں پنجاب کے سورموں نے جان کی بازی لگادی تھی لیکن اپنوں کی غداری کی وجہ سے پنجاب پر انگریزوں کا قبضہ ہوا۔چیلاں دوجی میں پنجاب کے سورموں نے انگریزوں کی وہ درگت بنائی تھی کہ آج بھی انگریز اس پر ماتم کناں ہیں شائد ہم اسے بھول گئے ہیں لیکن وہ نہیں بھولے۔مسلمانوں نے ہی سکھوں کو پناہ دی تھی اور ان کے بال کاٹ کر انہیں مسلمانوں کا بھیس دیکر باہر نکالا غداروں نے جنگجوؤں کا اسلحہ انگریزوں کو دے دیا تھا۔زاہد حسن نے کہا کہ پنجاب کی تہذیب پانچ ہزار سال پرانی ہے آج کا دن بہت اہم ہے ہم ریکارڈ جلا دیتے ہیں لیکن انگریز صدیوں تک ریکارڈ محفوظ رکھتے ہیں ایک سازش کے ذریعے یہ بات پھیلائی گئی ہے کہ اردو کے علاوہ باقی ساری زبانیں غیر مسلموں کی ہیں۔ مدثر اقبال بٹ اور الیاس گھمن ہمارے آئیڈیل ہیں آب حیات انگریزوں کے جاسوس کی لکھی ہوئی کتاب ہے جس کا مصنف پاگل ہوکر مرا تھا۔دشمنوں کی صدیوں سے جاری کوششوں کے باوجود سینوں سے پنجابی نہیں نکل سکی۔ڈاکٹر کلیان سنگھ کلیان نے کہا کہ یہ بات قابل غور ہے کہ پنجابیوں کو اقتدار کیوں ملا اور وہ اس کا تحفظ کیوں نہیں کر سکے پنجاب میں 12بڑی مثلیں تھیں لاہور میں بھنگی مثل کی حکومت تھی جو مسلمانوں پر بہت مظالم ڈھا رہی تھی جس سے بچنے کے لئے لاہور کے مسلمانوں نے رنجیت سنگھ کو دعوت دی تھی کہ لاہور پر قبضہ کر لے لہذاء سکھوں کو اقتدار مسلمانوں نے دیا تھا جس کے لئے مسلمانوں نے رنجیت سنگھ سے تین شرائط منوائی تھیں رنجیت سنگھ دور اندیش تھے توانہوں نے وہ شرائط مان لی تھیں۔جن میں نظام تعلیم مسلمانوں والا ہی رہے گا عدالتی نظام وہی رہے گا جو صدیوں سے چل رہا ہے اور فارسی زبان رائج رہے گی۔اس نے سکھوں کے اقتدار کو بڑھانے کے لئے یہ شرائط مان لیں تھیں سب پنجابی کے قاعدے جلانے کی بات کرتے ہیں لیکن اس کا ثبوت کوئی نہیں ملتا ہمیں اپنی آنیوالی نسلوں کواصل تاریخ بتانی چاہیے۔سکھوں کی حکومت سکھوں کی غداری کی وجہ سے ختم ہوئی۔ بابا نجمی نے کہا کہ آج کا دن ہم یوم سیاہ کے طور پر منا رہے ہیں جن چیزوں کی ہم خواہش کر رہے ہیں ہم سے پہلے لوگ بھی کرتے رہے ہیں بڑی خوشی کی بات ہے کہ پنجاب ہاؤس میں ایسی تقریبات منعقد ہوتی ہیں جن میں پنجابی کی مختلف جہتوں پر بات ہوتی ہے آج پورے پنجاب میں یہ بات پھیل گئی ہے ہمیں اپنی نئی نسل تک یہ باتیں پہنچانی ہیں اگر ہم نے یہ کام کر لیا تو ہم کامیاب ہوجائیں گے۔سلیم چوہدری نے اس موقع پر اپنی پنجابی نظم کے شعر سنائے۔پنجابی زبان تحریک کے راہنما الیاس گھمن نے اپنے صدارتی خطاب میں کہا کہ میں جو بات سوچتا ہوں مدثراقبال بٹ اسے عملی شکل دے دیتے ہیں آج کالا دیہاڑ منانے پر مدثر اقبال بٹ مبارکباد کے مستحق ہیں ہمارے نصاب میں ہمیں پڑھایا جاتا ہے کہ رنجیت سنگھ کے دور میں مسجدوں کو اصطبل اور بارود خانوں میں تبدیل کر دیا گیا تھا لیکن تاریخی طور پر یہ درست نہیں ہے رنجیت سنگھ عوامی طبعیت کا حامل تھا وہ فصیل پر بیٹھ جاتا تھا اور لوگوں کو دیکھتا تھا متعدد مساجد آج بھی رنجیت کی بیگمات کے نام پر ہیں رنجیت سنگھ پنجاب کا وہ حکمران تھا جس نے پنجاب کو جوڑاتھا اور اسے پورا کیاتھا اس نے جمرود تک پنجاب بناکر دیا تھا۔اس نے پنجابی کے لئے بھی کام کیا تھا رانی جندہ نے جیل سے جو درد بھرا خط لکھا تھا وہ پنجابی میں لکھا تھا۔وہ ایسا عوامی راجہ تھا جس نے راجہ ہوتے ہوئے سزا بھی بھگتی تھی۔لوگ اسے سرعام روک کر بھی اپنی بات کر لیتے تھے پنجابی فوجیوں نے آخری حد تک لڑنے کا ارادہ کیا تھا لیکن غداروں نے ان کا اسلحہ ہی چرا لیاتھااور تھیلوں میں بارود کی جگہ باجرہ بھر دیا تھا اس وجہ سے انگریزوں نے انہیں بے دردی سے قتل کیا رنجیت سنگھ کے دربار میں 62شاعر تھے اور سارے کے سارے پنجابی تھے اس نے ایک عمارت حضوری باغ بنوائی وہ شاعروں کے لئے بنائی گئی تھی اس کے دور میں پنجابی شاعری کے بڑے بڑے مقابلے ہوتے تھے۔تقریب کے اختتام پر میزبان مدثر اقبال بٹ نے تقریب کے شرکاء کا شکریہ ادا کیا۔
Load/Hide Comments