خواجہ فرید یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ انفارمیشن ٹیکنالوجی رحیم یار خان کا فیز -2 کرپشن کے باعث ریجکٹ!
“خواجہ فرید یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی رحیم یارخان کا فیز -2 کرپشن کی نظر”
خواجہ فرید یونیورسٹی فیز -2 کا منصوبہ ہائر ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ نے اکتوبر 2019 میں منظور کیا جس کی کل لاگت 1904 ملین روپے تھی اور اس منصوبے کے تحت سٹوڈنٹ ہاسٹلز ، کمیونٹی سنٹر وغیرہ بننے تھے ۔ لیکن بد قسمتی سے نومبر 2019 میں ڈاکٹر سلیمان طاہر کو باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت اس یونیورسٹی پر گجرات سے مسلط کیا گیا تا کہ شھباز شریف کے منصوبے کو ناکام کیا جائے ۔ اس پروجیکٹ کو وائس چانسلر ڈاکٹر سلیمان طاہر نے پوری منصوبہ بندی کے ساتھ لوٹنے کا پلان بنایا۔
یونیورسٹی آف گجرات سے آڈیٹر عارف علی کو خواجہ فرید یونیورسٹی کے آئین کے خلاف تقرری کی جس میں پی ٹی آئی گورنمنٹ نے اس غیر آئینی کام کی سپورٹ کی ۔ تاکہ بوگس پیمنٹ آڈیٹر کی مرضی اور ملی بھگت کے بغیر نہیں ھو سکتیں ۔ اس کے بعد عارف علی( آڈیٹر) کی سفارش پر بوگس کنسلٹینٹ کمپنی غیر قانونی طریقے سے ہائر کی گئی جس کا کام صرف کنٹریکٹر کے بلز پر سٹیمپس لگا کر دینا تھا تاکہ فائلز کا پیٹ بھر جائے اور کسی بھی آڈٹ میں پتا نہ چلے کہ یہ پیمنٹ بوگس ہے ۔ یہ سب خبریں چولستان ٹائمز نے چھاپی لیکن ارباب اختیار نے نوٹس نہیں لیا جس کی ایک وجہ گجرات کے چوہدری بھی ھیں۔ کنسلٹینٹ کے بعد کنسٹریکشن پر آتے ہیں جس کے لیے یہ سارا کھیل کھیلا گیا ۔
سارے اچھے کنٹریکٹرز کو غیر قانونی طریقے سے نا اہل قرار دے کر ٹھیکے عارف علی کی سفارش کردہ کمپنیوں کو دے جن کے ساتھ کمیشن طے تھا ۔ تفصیل میں اس لیے نہیں جا رہے کیونکہ یہ سب خبریں چولستان ٹائمز نے قسط وار شائع کی ہوئی ہیں ۔
اس کے بعد پروجیکٹ ڈپارٹمینٹ کے تمام سٹاف کو نوکری سے فارغ کر کے عارف علی کے سالے کو پروجیکٹ کی ذمے داری سونپ دی جو کہ ایک ڈپلومہ ہولڈر ہے ۔ بوگس بلز اور ایم بی یہ تیار کرتا ہے ۔ عرض یہ کہ جنگل کا قانون بھی خواجہ فرید یونیورسٹی کے سسٹم سے ہزاروں درجے بہتر ہو گا ۔ ڈاکٹر سلیمان طاہر اینڈ کمپنی نے خود ہی پروجیکٹ کا تخمینہ لگایا جو کہ منظور شدہ تخمینہ سے کافی زیادہ تھا اور پھر من پسند کنٹریکٹرز کواپنے ہی تیار کردہ تخمینہ سے 4 فیصد اوپر کام ایوارڈ کر دیئے جس کی وجہ سے پروجیکٹ کی لاگت 1904 ملین روپے سے بڑھ کر 2500 ملین روپے ہو گئی جس کی منظوری پلاننگ اینڈ ڈویلپمنٹ ڈپارٹمینٹ پنجاب نے دینی تھی۔ سب کام ڈاکٹر سلیمان طاہر کے پلان کے مطابق چل رہے تھے لیکن اس سارے عمل میں یہ بات بھول چکے تھے کہ چوہدری ان کو خدا سے نہیں بچا سکتے اور نا ادھر رشوت چلتی ہے ۔ 9 اپریل 2022 کو اسی پروجیکٹ کے تحت بننے والی کمیونٹی سنٹر کی بلڈنگ زمین بوس ہو جاتی ہے جس کی وجہ سے تقریباً 10کروڑ کا ٹیکہ قومی خزانے کو لگتا ہے ۔
بات ادھر ہی ختم نہیں ہوتی ساتھ ہی بارشوں کی وجہ سے اور بھی پروجیکٹ ایکسپوز ھو جاتے ہیں اور اوپر سے ہی ٹی آئی گورنمنٹ بھی تبدیل ہو چکی ہوتی ہے ۔ میڈیا پر ڈاکٹر سلیمان طاہر اینڈ کمپنی کی بد انتظامی اور نا اہلی ایکسپوز ہونے کے بعد پلاننگ اینڈ ڈویلپمنٹ ڈپارٹمینٹ پنجاب نے خواجہ فرید یونیورسٹی فیز -2 کے Revised PC-1 کو یہ اعتراض لگا کے واپس ہائر ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ پنجاب کو بھجوا دیا کہ پہلے اس پروجیکٹ میں ہونے والی بدعنوانی کی انکوائری کرائی جائے اس کے بعد اس پروجیکٹ کو منظوری کے لیے کمیٹی کے سامنے پیش کیا جائے گا انکوائری کمیٹی کی سفارشات کے ساتھ ۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ چوہدری اس بار وائس چانسلر کو بچا پائیں گے یا نہیں ۔