رحیم یارخان (سندھ پنجاب کے سنگم سے )
سندھ پنجاب کے سرحد ی علاقے میں 184 سے زاید یرغمال مغویوں کا انکشاف علاقہ نو گو ایریا بن گیا پولیس حکام کو سکھر ڈویزن گھوٹکی اور رحیم یارخان کے افسران تبدیل کرنے پڑگئے سکھر بیراج سے ملنی والی 12 لاشوں میں 10 تاوان ادا نہ کرنے والے مغویوں کی ہوسکتی ہیں،
آئی جی سندھ کی جانب سے نئے ، ڈی آئی جی سکھر اور ایس ایس پی گھوٹکی کی تعیناتی کے بعد ڈاکوؤں کے گروہ میں کھلبلی مچ گئی ڈاکوؤں نے پولیس کو سرعام سوشل میڈیا پر دھمکیاں دینی شروع کر دی ہیں یہی نہیں بلکہ ڈاکؤں کے گروہ کے ایک گینگ نے تو یرغمال مغوی کو برہنہ کرکے اسے زیادتی کا نشانہ بنایا اور غیر اخلاقی ویڈیو بنا کر سوشل میڈیا پر وائرل کردی جوکہ پولیس کے لئے کھلا چیلنج بن گئی ہے
ل 56 لاکھ سے زائد کی آبادی پر مشتمل سندھ پنجاب کے سنگم پر واقع جنوبی پنجاب کا ضلعُ رحیم یارخان صنعتی علاقہ ہونے کے ساتھ ساتھ زرعی علاقہ بھی ہے مگر اس ضلع میں بد قسمتی سے امن و امان کی صورتحال مستقل طور پر قابل رشک نہیں رہی ہے اور ڈاکؤوں نے بھی بدلتے حالات و واقعات کے مطابق اپنا طریقہ واردات تبدیل کرلیا ہے اور جدید طریقے استعمال کرنا شروع کردئیے ہیں اس وقت رحیم یارخان، گھوٹکی ، کشمور ، راجن پور کا دریائی درمیانی علاقہ ڈاکوؤں کی مستقل آماجگاہ اور نو گو ایریا بن گیا ہے پچاس کلو میٹر چوڑا اور سینکڑوں میٹر لمبا دریائی علاقہ میں گھنا جنگل بہتا پانی گنے کی فصلیں ڈاکوؤں کی ڈھال سمجھی جاتی ہے انڈھر ، لونڈ، شر، بکھرانی، کوش لٹھیانی سکھیانی گینگ جدید اسلحے سے لیس ہیں جس میں راکٹ لانچر ، اینٹی ایئر گرافٹ گن اور دور تک مار کرنے والا جدید اسلحہ گولہ بارود بھاری مقدار میں موجود ہے ان گروہوں نے لوگوں کی زندگی اجیرن اور شہریوں پر عرصہ حیات تنگ کر دیا ہے ڈاکو اغوا برائے تاوان کی وارداتیں سرئے عام دن دیہاڑے اور رات کے اوقات میں آئے روز کرنے کے بعد کچے میں با آسانی فرار ہو جاتے ہیں اور پولیس ایڑی چھوٹی کا زور لگانے کے باوجود انہیں اپنی گرفت میں لینے میں ناکام ہے ضلع رحیم یارخان میں ڈاکوؤں نے اب تک 19 سے زاید شہریوں کو ڈکیتی اور اغوا کے دوران سرعام قتل کیااور 40 سے زائد افراد کو تاوان کیلئے اغوا کیا جس میں 27 افراد کو بھاری تاوان لیکر رہا کیا گیا متعدد ڈسٹرکٹ پولیس افسران کے تبادلہ کئے جانے کے باوجود امن و امان ابھی تک قائم نہیں کیا جا سکا ہے اور اس وقت بھی ضلع رحیم یارخان + گھوٹکی + کشمور کے دریائی سرحدی پٹی میں 184 سے زائد مختلف علاقوں ساہیوال لیہ سیالکوٹ کراچی اسلامُآباد لاھور مرید گے پنڈی جھنگ کے شہری ڈاکوؤں کے پاس یرغمال ہیں اور مویشی منڈیوں کی طرح سرئے عام تاوان طلب کررہے ہیں جنہیں رہائی کے لئے ایک کروڑ روپے فی کس طلب کیا جاتا ہے اور 15 سے 20 لاکھ تک کی ڈیل کے بعد تاوان لیکر رہا کر دیا جاتا ہے ۔ سب سے زیادہ اغوا کی واردات ہنی ٹریپ کے ذریعے کی جار ہی ہیں یعنی کے بعض مرد ڈاکو خواتین کی آواز میں جذباتی کر کے اور شادی کا جھانسہ دیکر بلاتے ہیں اور اغوا کر لیتے ہیں جبکہ بعض ڈاکوؤں کے گروپ نے خوبصورت لڑکیوں کو بھی اپنے ساتھ ملایا ہوا ہے جو موبائل فون کے ذریعے اچھے خاصے لوگوں کو اپنے جال میں پھنسا کر بھاری جائیداد شادی کو جھانسہ دیتے ہیں اور رومینس کی باتیں کر کے جال میں پھنسا کر بلاتے ہیں اور اکثر لوگ خوشی خوشی تحائف کے ساتھ ڈاکوؤں کے چنگل میں مکڑی کے جال کی طرح پھنستے چلے جاتے ہیں دوسرا طریقہ واردات سوشل میڈیا پر ٹریکٹر ٹرالی کی فروخت کا اشتہار دیکر کاروباری لوگوں کو بلا کر اغوا کرلیتے ہیں,
یہی نہیں بلکہ کچے میں موجود ان پڑھ ڈاکوؤں نے حکومتی پالیسیوں کا بھی خوب استعمال کر کے لوگوں کو بیوقوف بناُکر اغوا کی وارداتیں کی ہیں جیسا کہ عمران خان کی حکومت نے اقتدار کے دوران مویشی پالنے کا شعور اجاگر کیا تھا اور ساتھ میں حکومت نے پنجاب بھر کے وٹنری ڈاکٹروں کی فہرست جاری کی گئی تھی جس میں انکے موبائل نمبر بھی شائع کرائے تھے اور ہدایت کی گئی تھی کہ وٹنری ڈاکٹر کسانوں کی کال پر گھر گھر جاکر جانوروں کا اعلاج کریں اسکی بدولت ڈاکوؤں نے اس کا ٹیکنیک کا خوب استعمال کیا اور ایسے 14 وٹنری ڈاکٹروں کو بلا کر اغوا کر لیا اور تاوان لیکر رہا کیا اسی طرح حکومتی پالیسی کے تحت حکومت نے محکمہ زراعت کے اہلکاروں کی فہرست بھی جاری کی تھی تاکہ کسان رابطہ کر کے مفید مشاورت حاصل کریں اور فصلوں کی زیادہ پیداوار حاصل کریں اسطرح کسانوں کی بجائے ڈاکوؤں نے 4 ذرعی ماہرین کو بلا کر اغوا کیا اس کے علاوہ بھونگ کے علاقے سے اسلحہ کے زور پر ایک درجن ڈاکوؤں نے کلینک پر سوئے ہوئے ڈاکٹر کو اغوا کیا اور کچے لے گئے موٹر وے 5 کے قریب سے فیڈر کھول کر واپس آنے والے میپکو کے دو لائن سپریڈنٹوں کو اغوا کرلیا صادق آباد کے ڈسپینسر کو اسکی نواحی علاقے کی کلینک سے اغوا کرلیا جمالدین والی کے قریب سے دو لڑکوں کو سرائے عام اغوا لیا جس میں ایک کو رہا کردیا اور کچے کی مصدقہ اطلاعات معلومات کے مطابق اس وقت کچے کے علاقے میں 184 سے زائد شہری اغوا کاروں کے پاس یرغمال ہیں جنکا تعلق رحیم یارخان سیالکوٹ ، اسلام آباد، کراچی ، لاہور، ساہیوال لیہ پنڈی کراچی و دیگر علاقوں سے بتایا جاتا ہے جو اپنے پیاروں کو ملنے کے لئے بے تاب ہیں ۔ جبکہ کچے سے ملنے والی معلومات کے مطابق ایک بھیانک بات یہ بھی سامنے آئی ہے کہ سکھر بیراج سے ملنے والی 12 لاشوں میں 10 ان مغویوں کی بتائی جاتی ہیں جو ڈاکوؤں کو تاوان نہیں دے سکے یا پھر دل کا دورہ پڑنے یا مشکلات جھیلتے وقت یا پھر دریا کی بے رحم موجوں کی زد میں آکر انتقال کر گئے تھے ۔
حال ہی میں ڈاکوؤں کے چنگل سے بازیابی پانے والے ساہیوال کے نوجوان مغوی نے بتایا کہ وہ لڑکی کی آواز میں باتیں کرنے والے اغوا کار کی جھانسے میں پھنس کر یہاں پہنچا تھا اسے دریائی جزیرے میں رکھا گیا اور اسے زنجیروں سے باندھ کر رکھتے تھے تشدد کرتے تھے سخت ذہنی اذیت سے دوچار رہا اور 15 لاکھ تاوان دیکر آیا ہوں انہوں نے بتایا وہ ہنی ٹریپ ہوئے یعنی رومنس میں پھس گیا صادق آباد بلایا اس کے بعد کچے کے قریب بلا کر اغوا کر کیا اور آج 43 دن بعد رہائی نصیب ہوئ ہے۔ اسی طرح صادق آباد کے ٹریکٹروں کے بیوپاری شہری شیر محمد کو اغوا کاروں نے ٹریکٹر برائے فروخت کا سوشل میڈیا پر اشتہار دیا رابطہ کیا اور گڈو بیراج پر بلا کر موٹر سائیکل پر اغوا کر کے لے گئے مغوی کی کار لنک روڈ سے برآمد ہوئی جسے 40 لاکھ روپے تاوان دیکر بازیاب کرایا کئی روز تک مغوی کو گھنے جنگل دریا کے کنارے رکھتے تھے اور ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کرتے رہتے تھے تاوان کی رقم لینے کے بعد مغوی کو اوباڑو موٹر وے کےقریب چھوڑ دیا گیا یہی نہیں ڈاکو اس قدر بے قابو اور بےگام ہو چکے ہیں کہ پولیس کو کسی بھی
خاطر میں لائے بغیر واردات کرتے ہیں بھونگ کے علاقے سے بھونڈی اڈے کے ایک ڈاکٹر کو رات اسکی کلینک سے اسلحہ کے زور پر اغوا کیا جسے اس کے بھائی نے ہمت کر کے کچے جا کر تاوان دیکر بازیاب کرایا مغوی کے بھائی نے آنکھوں دیکھا حال بتایا کہ کچے میں درختوں پر کلشنکوف اسطرح لٹکائی ہوئی تھی جیسے گویا کہ پھل لگے ہوں یہی نہیں ڈاکووں کے پاس راکٹ لانچر، اینٹی ایئر گرافٹ گنیں بھی ہیں اور دور تک مار کرنے والا جدید اسلحہ موجود یے اور تیز رفتار چلنے والی کشتیاں جنہیں زبان عام میں بیٹرے بولتے ہیں
مگر آئی جی سندھ غلام نبی میمن ، ڈی آئی جی سکھر جاوید جسکانی، ایس ایس پی گھوٹکی تنویر تنیو کی حال ہی میں تعیناتی کے بعد سندھ پنجاب کے کچے کے سرحدی علاقے میں ڈاکوؤں کے گروہوں میں کھلبلی مچ گئی ہے ڈی آئی جی سکھر جاوید جسکانی کی ہدایت پر ایس ایس پی گھوٹکی تنویر تنیو نے پولیس میں موجود کالی بھیڑوں کو نہ صرف معطل کیا بلکہ انہیں ملازمت سے بھی برطرف کردیا ہے جن میں ایس ایچ اوز اور پولیس اہلکار شامل ہیں جنکے ڈاکوؤں کے ساتھ تعلقات تھے اور اغوا برائے تاوان میں ملوث تھے اور جو منشیات فروش۔ جوا بکی تاش کے جواری پان پراگ آکڑا پرچی اور دیگر سماجی برایئوں میں مبتلا افراد اور تھانے کے چٹی دلالوں اور تھانہ گھوٹکی سے ماہانہ دس سے بارہ لاکھ روپیہ اسی طرح تھانہ ڈہرکی سے 5 سے 8 لاکھ رویہ تھانہ میرپور ماتھیلو سے 4 سے 6 لاکھ رویپہ تھانہ اوباڑو 2 سے 4 لاکھ روپیہ تھانہ کھمبڑا ڈیڑھ سے 2 لاکھ روپیہ تھانہ خانپور 1 سے 2 لاکھ روپیہ ماہانہ پولیس کے بالا افسران تک کچن خرچ کے نام پہنچائے جاتے تھے جسے فوری طور پر بند کر کے جوا بکی آکڑا پرچی تاش کے جواریوں ڈیوائس سے بے نظیر اِنکم سپورٹ پروگرام کے تحت غریب خواتین سے کٹوتی کرنے والوں۔ پان پراگ شراب فروش وں کے خلاف کریک ڈاؤن کرکے اغوا برائے تاوان ایس ایچ او کے قتل ڈکیٹئ لوٹ مار زیادتی کے 30 مقدمات میں سندھ پنجاب کا بدنام زمانہ ڈاکو بنی بنگوار اور اغوا ڈکیٹئ سمیت سنگین مقامات میں مطلوب عبدالمجید شر کو پولیس مقابلہ میں ہلاک گیا ہے اور 8 زخمی ڈاکؤں کو اسلحہ سمیت گرفتار کیا اس دوران180 روپوش 190 جواری 90 منشیات فروش کو گرفتار کرکے مقدما ت قائم کردئیے گئے ہیں ملزمان سے19 پسٹل 3 کلئشن کوف 6 بندو ق اور 30 مسروقہ موٹر سائیکلیں برآمد کی گئی ہیں
بدنام زمانہ دو ڈاکؤوں کی ہلاکت کے بعد سنگین ردعمل ظاہر کیا ہے ڈاکوؤں نے کچے کے علاقے میں یرغمال مغویوں پر تشدد کرکے ویڈیو وائرل کرنا شروع کردیا ہے اور ایک مغوی کو زیادتی کا نشانہ بنا کر اس کی ویڈیو بناُکر سوشل میڈیا پر وائرل کی ہے تاہم اچھی شہرت کے حامل ڈی آئی جی سکھر جاوید جسکانی اور ایس ایس پی تنویر تنیو کی تعیناتی کے بعد نہ صرف ضلع گھوٹکی بلکہ ضلع رحیم یارخان کی عوام میں امید کی ایک کرن پیدا ہوگئی ہے کہ اب ڈاکؤوں کا قلع قلع ہوسکے گا ڈاکؤں کے خلاف گھیرا تنگ کرنے کیلئے حکمت عملی بھی تیار کرلی گئی ہے اور بڑے آپریشن کی تیاریاں شروع کی جاچکی ہیں ڈی پی او رحیم یارخان آر پی او بہاولپور کو چاہئے ڈاکوؤں کی سرکوبی اور شہریوں کی حفاظت کیلئے انتہائی اقدامات کرے کیونکہ چالیس سے زاید کچے کے علاقوں کے قریب پولیس چوکیوں کے باوجود حال ہی میں چھ افراد کے اغوا نے پولیس کی کارکردگی پر سوال کھڑے کردئیے ہیں اور پولیس کو مغوی شہریوں کے بدلے چھ ملزمان کو رہا کرنا پڑا جبکہ رحیم یارخان پولیس کے تینتیس سو اہلکاروں کی تنخواہوں اور دیگر اخراجات سمیت ماہانہ 19 کروڑ روپے اخراجات کے باوجود امن و امان قائم نہیں ہوسکا ہے اور ڈاکو دندناتے گھوم رہے ہیں,
تحریر : ملک محمد اسلم