“پنجرہ سازی فن اور صنعت”
خیرپور ٹامیوالی بھاولپور کی ایک ایسی تحصیل ہے کہ جو کئ حوالوں سے اپنے مقام و مرتبہ میں زبان زدِ عام رہی ہے ۔ ماضی میں ہڈی جوڑنے کے لئے تیار کردہ حکیم کی گولی کا بہت شہرہ تھا۔۔ روایات کے مطابق ایک بیل کی ٹانگ کی ہڈی ٹوٹنے پہ جب یہ دوا یا گولی اُسے کھلائی گئی تو وہ اس قدر پختہ جُڑی کہ جب بہت عرصہ بعد بیل کو ذبح کیا گیا تو قصاب بلکہ وڈ قصائی یہ منظر دیکھ کر حیران ہوگۓ کہ وہ ہڈی اُس جگہ سے لاکھ کلہاڑے اور بُگدے چلانے کے باوجود ٹوٹنے کا نام ہی نا لیتی تھی۔ اور یہ سارا کمال اُس خیرپوری گولی کا تھا ۔۔
آج وہ دوا ساز حکیم دنیا میں نہیں ہے بصورتِ دیگر اّن سے دنیا کے تمام بڑے چھوٹے آرتھو پیڈک سرجن استفادہ ضرور کرتے ۔۔ اب تو یہ روایات سنانے والے بھی معدوم ہوتے چلے جا رہے ہیں ۔۔ ان کے بعد اُسی خطہ ٹامیوالی سے ایک حکیم بھنڈی صاحب دل کے معالج کے طور پر مشہور ہوئے ۔ سنا ہے کہ اُنکی پُڑیا بڑے بڑے دل کے امراض میں مبتلا مریضوں کو شفایاب کردیتی تھی۔ لیکن طُرفہ تماشہ دیکھیے کہ حکیم صاحب خود بھی دل کے دورے سے ہی اللہ کو پیارے ہوئے ۔ ممکن ہے کہ انہیں خدمتِ خلق کے باعث خود اپنی پّڑیا کھانے کی فرصت ہی نہ ملی ہو۔ اس کے برعکس آج خیر پور ٹامیوالی میں قفس سازی کی ننھی سی گھریلو صنعت محدود پیمانے پر موجود ہے جہاں کاریگر ، دست کار نہایت متنوع اور دیدہ ذیب ہیتوں،شکلوں اور مینا کاری سے خوشنما پنجرے تیار کرتے ہیں ۔ جی چاہتا ہے کہ بندہ خود ان پنجروں میں مقید ہوجائے۔ ممکن ہے کہ پہلے پہل یہ پنجرے کسی بٹیر یا تیتر باز نے اپنے تیتر یا بٹیر کی محبت میں تیار کیے ہوں پھر دیکھا دیکھی یہ دونوں تینوں فنون ترقی پاتے چلے گئے ہوں گے۔ ویسے ظالم حسیناؤں کے بارے میں معصوم عشاق ہمیشہ سے کہتے چلے آرہے ہیں کہ وہ ان کے حسین جال میں خود پھنستے ہیں۔
حسن و جمال شۓ ہی ایسی ہے کہ بڑے بڑے خِرد مند یہاں آکر اپنے اوساں خطا کر بیٹھتے ہیں۔ اب کوئی ان بٹیروں، چکور اور چکورنیوں سے تو پوچھنے سے رہا کہ وہ ان پنجروں کی خوبصورتی کو کیسے محسوس کرتے ہیں۔۔ شکاری ہمیشے سے بڑی چالاکی، عیاری و مکاری سے اپنے جال یا پھندوں میں اپنے شکار کو پھنساتے ہیں ۔ یہ سلسلہ تاریخ سے اپنا خاص مقام و مرتبہ رکھتا ہے
محبت ، چاہت اور عشق کے قفس میں کون ذی شعور ہےکہ آیا ہو اور پھر وہ کمبخت خود ہی پچھتایا نہ ہو۔ لطف کی بات یہ ہے کہ پھر سے یہی عمل دہرانے کی سعی لا حاصل بھی کرتا رہا ہو۔
بہر حال خیر پور ٹامیوالی کے یہ شوخ و چَنچَل ، رنگین موتیوں کی مالاؤں سے پروئے ہوئے باریک رنگین تاروں سے بُنے ہوئے پنجرے روہی کی مخصوص شناخت اور رنگ و آہنگ کو نہ صرف ظاہر کرتے ہیں بلکہ انکی بُنت میں چولستان کے باسیوں کے نفیس ، پرکشش فن کی ایک منفرد جھلک دکھائی دیتی ہے۔ یہ اپنے تیار کرنے والوں کے فن کا ایسا اظہار ہے کہ جس کا ایک عالم دلدادہ ہے ۔ یہاں تلک کے بعض چاہنے والے فقط انکی دلکشی اور خوبصورتی سے متاثر ہو کر ان دیدہ زیب پنجروں کو ڈیکوریششن پیس کے طور پر اپنی بیٹھکوں اور ڈرائنگ رومز کی زینت بنانے کے لئے خرید لے جاتے ہیں۔۔
اس صنعت کو مقامی فن کاروں کی مرصع کاری کے سبب بیرون ممالک میں بھی بہت سرہایا جاتا ہے۔ مگر کیا کیجئے کہ اِسے باقاعدہ صنعت کا درجہ یا مقام حاصل نہیں ۔ ہم چاہیں گے کہ ہینڈی کرافٹس کے سرکاری ادارے اور مقتدر شخصیات اس جانب متوجہ ہوں ۔ ایسا نہ ہو کہ یہ فن اپنی موت آپ ہی مر جائے۔ اس کی مناسب سرپرستی سے روزگار کے مواقع اور اس خوبصورت صنعت و حرفت کو تقویت مل سکتی ہے ۔ جس سبب بڑھتی ہوئی بے روزگاری کے اس دور میں شاندار روزگار کے بہت سے در۔وا بھی ہو جائیں گے۔ دوسری جانب یہ فن اور صنعت اپنے پھیلاؤ سے قومی سطح پر کثیر زرِمبادلہ کا باعث بھی یقیناً بن سکتی ہے ۔۔
تحریر :
پروفیسر ڈاکٹر محمد شہزاد رانا