”کتابوں سے عشق سلامت“

*کتابوں سے عشق سلامت*

گزشتہ کچھ عرصے سے یہ بات بہت کہی جا رہی تھی کہ “یہ آخری صدی ہے کتابوں سے عشق کا” ، مگر مجھے خوش فہمی ہے کہ ایسا نہیں ہے۔ یہ خوش فہمی ویسے تو ہمیشہ سے تھی، مگر پچھلے دنوں ایک خبر اور ایک مشاہدہ ، اس میں مزید اضافے کا باعث بنے۔ جو خبر نظر سے گزری، وہ یہ تھی کہ تربت میں عطاشاد فیسٹیول میں 35 لاکھ کی کتابیں سیل ہوئیں اور گوادر کتب میلے میں تقریباً 20 لاکھ کی۔ یہ پڑھ کر ایک خوبصورت سا إحساس ہوا۔

اس کے چند دن بعد اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور کے ایک تقریب میں براہ راست مشاہدہ ہوا۔ تیسرا بہاولپور ادبی اور ثقافتی میلہ چار دن تک بہاولپور کی اسلامیہ یونیورسٹی میں منعقد کیا گیا جس میں کتابوں کی تقریب رونمائی ہوئی، بک سٹال لگائے گئے، ادب ، میڈیا ، فلم اور ثقافت پر بات کی گئی۔ مشاعرے کے ساتھ ساتھ، علاقائی ثقافتوں کو اجاگر کرنے کے لیے ایک شام منائی گئی جس میں سرائیکی، سندھی ، بلوچی ، پنجابی، اور بلتی طلبا اور وہاں کے فنکاروں نے بھی شرکت کی۔ پاکستان کے ہر صوبے کی ثقافت کے اظہار کے لیے نوجوان طالب علم اپنے علاقائی لباس میں اور اپنی زبان کے گانوں کی دھن میں یونیورسٹی کے آڈیٹوریم میں ترتیب سے نمودار ہوتے رہے۔ ہر گروہ نے اپنے حصے کے اظہار کے آخر میں وائس چانسلر اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور انجینئر پروفیسر ڈاکٹر اطہر محبوب اور کمشنر بہاولپور کو اپنے علاقے کی پہچان والی چیز پیش کی یا پہنائی۔ پختون طلبا نے اپنی روایتی پگڑیاں، سندھی طلبا نے سندھی ٹوپی، گلگت کے گروپ نے بلتستان کی روایتی پر والی ٹوپی پہنائی۔ اسی طرح پنجابی اور سرائیکی زبان کی بھی نمائندگی کی گئی۔ سرائیکی طلبا کی طرف سے روایتی نیلے رنگ کی اجرک مہمانوں کو پیش کیے گئے۔ سب سے خوشگوار حیرت اس وقت ہوئی جب بلوچستان کے بلوچ طلبا و طالبات نے ، اپنے کیٹ واک کے آخر میں، وائس چانسلر اور کمشنر صاحب کو ، کسی پوشاک کی بجائے، کتابیں پیش کی۔ اس پر ہال میں بہت تالیاں بجائی گئیں۔ یہ ایک نہایت مثبت تبدیلی ہے ، اگر آج یونیورسٹی کا نوجوان کتاب کو اہمیت دینے لگا ہے۔ خاص طور پر بلوچستان جیسے خطے میں،جہاں ویسے ہی معاشی بد حالی ہے، مگر کتاب کی محبت بڑھ رہی ہے۔ یہ تمام نوجوانوں کے لیے ایک حوصلہ افزا بات ہے۔ ایک نیا راستہ دکھا دیا گیا ہے۔ خوش آئند بات یہ ہے ، کہ پاکستان میں کتابیں چھپ رہی ہیں، کالم لکھے جا رہے ہیں۔ ادبی محفلیں آباد ہیں۔ یہ روشنی کی کرن ہے۔ خواہش یہ ہے کہ کبھی ہمیں یہاں بھی آکسفورڈ اور کیمبرج پرنٹنگ پریس کی سطح کے پریس ملیں اور ہماری لائبریریاں برٹش لائبریری کے مقام تک پہنچیں۔ یہ ہوگا یا نہیں، میں نہیں جانتا ، مگر آج اس بات پہ خوش کہ کتابوں سے عشق سلامت ہے۔ اور یہ کتابوں سے محبت کی آخری صدی بالکل نہیں۔

تحریر:
پروفیسر ڈاکٹر سعید احمد بزدار

اپنا تبصرہ بھیجیں