بہاول پور براستہ گورکھ پور”

بہاول پور براستہ گورکھ پور”

پروفیسر ڈاکٹر شہزاد رانا اسلامیہ یونیورسٹی بہاول پور میں میڈیا اینڈ کمیونیکیشن سٹڈیز ڈیپارٹمنٹ کے چئیرمین ہیں۔ ہزاروں طالب علموں۔ سینکڑوں عامل صحافیوں کے استاد ہیں۔ شہزاد رانا بہاول پور جیسے پسماندہ اور دور دراز علاقے کی یونیورسٹی کے پروفیسر کی بجائے اگر لاہور کی کسی یونیورسٹی میں ہوتے تو قومی اخبارات کے صفحوں اور ٹی وی کی سکرینوں پر چھائے ہوتے۔ یہ اور بات کہ رانا صاحب اب بھی پنجاب کی دیگر یونیورسٹیز کے سینکڑوں اساتذہ کی طرح “گم نامی” میں زندگی نہیں گزار رہے۔ وہ لکھ رہے ہیں پڑھ رہے ہیں اور پڑھا رہے ہیں ۔ وہ میڈیا کی زینت بھی بنتے رہتے ہیں ان دنوں وہ پھر سے خبروں ۔ تبصروں اور تجزیوں کا موضوع بنے ہوئے ہیں۔ اس کی وجہ ان کی وہ تحقیقاتی کتاب ہے جسے “جہد مسلسل” کے نام سے ملتان کے کتاب نگر نے شائع کیا ہے۔ یہ کتاب کہنے کو تو وائس چانسلر اسلامیہ یونیورسٹی بہاول پور کی سوانح عمری دراصل یہ برصغیر پاک و ہند کے ان دو گھرانوں کی داستان ہے جو اپنا سب کچھ اس وطن پر قربان کرکے یہاں پہنچے۔ بہاول پور براستہ گورکھ پور کے دکھوں کو اس خوبصورتی سے کوئی ایسا انسان ہی بیان کرسکتا تھا جو خود یا جس کے آباء و اجداد اس قرب سے گزرے ہوں۔

ڈاکٹر اطہر محبوب 1971 میں قاضی محبوب الحق کے گھر پیدا ہوئے ان کے والد گرامی پاک فضائیہ کے بہترین پائلٹس میں شامل اور ان دنوں پی اے ایف بیس کورنگی کریک میں تعینات تھے۔ وہ پاک فضائیہ کے ان اولین ہوا بازوں میں شمار ہوتے ہیں جو امریکہ سے تربیت حاصل کرچکے تھے۔ 1965 کی جنگ میں ایسے ہی تربیت یافتہ پائلٹس نے ازلی دشمن بھارت کے دانت کھٹے کئے تھے۔ اس معرکے کے بعد پاکستان نے اپنی فضاؤں کو مزید محفوظ بنانے کے لئے ہوا بازی کے شعبے کو جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کیا اور اپنے جہازوں کو مسلسل فضاء میں بلند رکھنے کا ریکارڈ بنایا۔ 1969 میں ایسے ہی مشن سے کامیاب واپسی پر ان کا طیارہ کراچی کی فضاء میں واپس لوٹا تو فنی خرابی کا شکار ہوگیا ۔ قاضی محبوب الحق اپنے کو پائلٹ سکواڈن لیڈر اختر کے ساتھ محو پرواز تھے چاہتے تو دونوں پیراشوٹ کے ذریعے باہر نکل جاتے مگر انہوں نے نیچے آباد سینکڑوں انسانوں پر قہر بن کر گرنے کی بجائے اپنی جان پر کھیلنا بہتر سمجھا اور جب طیارہ آبادی سے نکل گیا تب بہت دیر ہوچکی تھی ۔ قاضی محبوب تو جمپ کرنے میں کامیاب ہوئے لیکن اونچائی کم ہونے کی وجہ سے پیرا شوٹ نہ کھل سکا وہ کسی پتھر کی طرح زمین سے ٹکرائے اور شدید زخمی ہوگئے کئی روز موت و حیات کی کشمکش میں رہنے کے بعد موت کو شکست دینے میں کامیاب رہے اور غازی ٹھہرے البتہ ان کا کو پائلٹ شہید ہوگیا۔ انجینئر اطہر محبوب کے والد قاضی محبوب الحق اپنی جگہ بہت نامور ہیں ان کے والد قاضی منظور الحق یعنی اطہر محبوب کے دادا بھی تحریک پاکستان میں نام کما چکے ہیں۔ قاضی منظور الحق نے جہاں اپنے خاندان کے ساتھ پاکستان ہجرت کی وہاں اپنے عزیز ترین دوست مولوی سبحان اللہ کے صاحبزادے سید رضوان اللہ کو باپ کی شفقت سے محرومی کا احساس تک نہ ہونے دیا اور اس تعلق کو رشتے داری میں بدل دیا ان کی بیٹی کو اپنی بہو بناکر یہ رشتہ امر کردیا۔ یوں وہ تعلق جو گورکھ پور سے چلا تھا وہ پاکستان پہنچ کر اٹوٹ انگ میں بدل گیا۔ مولوی سبحان اللہ اور ان کے فرزند مولوی رضوان اللہ کو آپ سر سید احمد خان۔ مولانا الطاف حسین حالی۔ چراغ حسن حسرت ۔ پیر جماعت علی شاہ۔ جوہر برادران۔ علامہ اقبال ۔ رائے احمد نواز کھرل۔ نظام لوہار جیسے مشاہیر کی سطح پر پرکھ سکتے ہیں ۔ مولوی رضوان اللہ قائد اعظم محمد علی جناح کے قریبی ساتھی تھے ۔ یو پی صوبائی مسلم لیگ کے سیکرٹری۔ صوبائی مجلس قانون ساز کے نمائندے اور مرکزی دستور ساز اسمبلی کے رکن تھے۔ وہ ورکنگ باؤنڈری کمیشن جسے ریڈ کلف کمشن کے نام سے بھی جانا جاتا ہے اس کے رکن تھے۔ وہ ان زعماء میں شامل تھے جو غیر منصفانہ تقسیم پر سخت تنقید کرتے رہے۔ وہ بنگال کی شمالی پٹی کو پاکستان کا حصہ بنانا چاہتے تھے تاکہ مشرقی پاکستان خشکی کے راستے بھی پاکستان سے جڑ جائے۔ وہ گورداس پور اور فیروز پور جیسی مسلم آبادیوں کو بھی پاکستان کا حصہ دیکھنے کے خواہش مند تھے ۔ ان کی بات رد کیے جانے کی وجہ سے انہوں نے ریڈ کلف کمشن کے رکن کی حیثیت سے ملنے والا چالیس ہزار کا خطیر مشاہرہ بھی لینے سے انکار کر دیا تھا۔ پاکستان کے لئے اپنا سب کچھ قربان کرنے والے خاندانوں کے چشم و چراغ انجینئر اطہر محبوب نے ان علم دوست عباسی نوابوں کی سرزمین پر قدم رکھا جن سے ان کے ددھیال کی نسبت ہے ۔ کتاب پڑھنے سے تعلق رکھتی ہے مصنف نے دریا کو کوزے میں بند کرنے کی کامیاب کوشش کی ہے ۔ یہ کتاب ہماری نوجوان اور آئندہ آنے والی نسل کو اپنے ماضی اور حال سے ہمیشہ جوڑے رکھے گی۔ ڈاکٹر شہزاد رانا۔ ڈاکٹر آصف ندیم ۔ بہاول پور کے سینئر صحافی زاہد علی خان ۔ اسامہ شہزاد ۔ احمد ندیم اور ان کے علاوہ جس نے بھی اس کتاب کو ہم تک پہنچانے میں اپنا حصہ ڈالا ہے وہ لائق تحسین ہیں۔ ہم امید کرتے ہیں کہ ڈاکٹر شہزاد رانا اور انجینئر ڈاکٹر اطہر محبوب اسلامیہ یونیورسٹی کا نام روشن اور ہمارے جیسے علم کے پیاسوں کی پیاس بجھانے کا اہتمام کرتے رہیں گے ۔

تحریر:
رنگ صحراء / رانا خالد قمر

اپنا تبصرہ بھیجیں