اسلامیہ یونیورسٹی میں آئندہ بجٹ پر انڈسٹری اور اکیڈمیا ڈائیلاگ“

اسلامیہ یونیورسٹی بہاول پور میں آئندہ بجٹ پر انڈسٹری اور اکیڈمیا ڈائیلاگ“

اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور کے ڈائریکٹوریٹ آف پبلک ریلیشنز اینڈ آؤٹ ریچ نے بہاولپور چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری، فیڈرل بورڈ آف ریونیو، پلاننگ اینڈ ڈویلپمنٹ ڈیپارٹمنٹ حکومت پنجاب، تدریسی شعبہ جات اکنامکس، بینکنگ اینڈ فنانس، پبلک ایڈمنسٹریشن اور دیگر سرکاری اور نجی اداروں کے اشتراک سے بجٹ 2024 25 پر انڈسٹری اکیڈمیا ڈائیلاگ کا انعقاد کیا۔سیمینار میں پروفیسر ڈاکٹر روبینہ بھٹی ڈین فیکلٹی آف سوشل سائنسز، پروفیسر ڈاکٹر جواد اقبال ڈین فیکلٹی آف مینجمنٹ سائنسز اینڈ کامرس، عطیہ رحمن ایڈیشنل کمشنر انکم ٹیکس، فاطمہ قیوم ڈپٹی کمشنر ایف بی ار،پروفیسر ڈاکٹر آصف نوید رانجھا ڈائریکٹر ایڈوانسڈ اسٹڈیز اینڈ ریسرچ، پروفیسر ڈاکٹر اریبہ خان چیئرپرسن ڈیپارٹمنٹ آف اسلامک اینڈ کمرشل بیکنگ،ڈاکٹر عابد رشید گل چیئرمین ڈیپارٹمنٹ آف اکنامکس، ڈاکٹرشہزاد علی گل انچارج ڈیپارٹمنٹ آف پبلک ایڈمنسٹریشن، ڈاکٹر ممتاز احمد کانجوایسو سی ایٹ پروفیسر شعبہ اکنامکس، ڈاکٹر عائشہ شوکت ایسو سی ایٹ پروفیسر شعبہ اکنامکس، ڈاکٹر مہناز علی ایسو سی ایٹ پروفیسر شعبہ اکنامکس، ڈاکٹر مریم عباس سہروردی ایسو سی ایٹ پروفیسر شعبہ اکنامکس، ڈاکٹر داؤد نواز لیکچرار شعبہ پبلک ایڈمنسٹریشن، تابندہ خان لیکچرار انسٹی ٹیوٹ آف بزنس ایڈ منسٹریٹو سائنسز، عائشہ عمر لیکچرار شعبہ اکنامکس، سمیرا عزیز الرحمن لیکچرار شعبہ پبلک ایڈمنسٹریشن، عروبہ کلانچوی لیکچرار شعبہ اکنامکس، ڈاکٹر ندا حسن لیکچرار شعبہ اکنامکس، احمد بلال لودھی لیکچرار شعبہ پبلک ایڈمنسٹریشن، عائشہ بی بی لیکچرار شعبہ پبلک ایڈمنسٹریشن،ڈاکٹر عبدالستارظہور ی خزانہ دار، محمد شجیع الرحمن رجسٹرار، ڈاکٹر شہزاد احمد خالد ڈائریکٹر میڈیا اینڈ پبلک ریلیشنز، اویس احمد ڈپٹی خزانہ دار، فاطمہ مظاہر ڈپٹی رجسٹرار پبلک ریلیشنز، چوہدری ذوالفقار علی مان صدر بہاول پور چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری، حنیف احمد سینئر نائب صدر بہاول پور چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری،عدیل خالد نائب صدر بہاول پور چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری،ملک محمد اعجاز ناظم سابق صدر بہاول پور چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری، احمد بلال سابق سینئر نائب صدر بہاول پور چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری، ملک محمد منیب ملک سابق نائب صدر بہاول پور چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری، سیفل تنویر،انیس الرحمن، خالد محمود، منصور الحق، مجید اے گل سینئر صحافی ڈان نیوز، امین عباسی جیو نیوز، امبر تنصیر سماجی رہنما، محمد خالد اقبال ڈائریکٹر ڈویلپمنٹ اینڈ فنانس، علی ضمیر سٹیشن مینجر اے پی پی، نصیر احمد ناصر سابق صدر بہاول پور پریس کلب، نین تارا اسسٹنٹ ڈائریکٹر ڈویلپمنٹ اینڈ فنانس، فیکلٹی ممبران اور طلباو طالبات شریک تھے۔

پروفیسر ڈاکٹر جواد اقبال نے سیمینار کی صدارت کی اور اپنے خطا ب میں کہا کہ پروفیسر ڈاکٹر جواد اقبال نے کہا کہ یونیورسٹی کا اصل کام کمیونٹی کو اکٹھا کرنا اور پالیسی ڈویلپمنٹ کر کے حکومت تک سفارشات بجھوائی جائیں۔ پالیسی بنانے میں لوکل گورنمنٹ کو شامل کرنا چاہیے۔اس وقت آئی ٹی سیکٹر میں بہت سرمایہ کاری کی ضرورت ہے جس میں زرمبادلہ حاصل کیا جا سکتا ہے۔ انرجی سیکٹر میں اصلاحات کی ضرورت ہے کیونکہ اس وقت ملک میں بہت زیادہ مہنگی بجلی فراہم کی جا رہی ہے جس سے انڈسٹری اور گھریلو صارف بہت پریشان ہیں۔پروفیسر ڈاکٹر روبینہ بھٹی نے خطبہ استقبالیہ پیش کیا اور تمام معزز مہمانوں کو خوش آمد ید کہا۔ انہوں نے کہا کہ جامعات ہی ایک جامع اور مفصل بجٹ کی تیاری میں مدد فراہم کر سکتی ہیں اور آج کے سیمینار کی سفارشات گورنمنٹ آف پاکستان کو بھجوائی جائے گی۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان اس وقت بہت مشکل معاشی حالات سے گزر رہا ہے ۔ تمام اسٹیک ہولڈرزکو ایک پلیٹ فارم پر جمع کر کے ایک جامع بجٹ کی تیاری میں مدد فراہم کرنی چاہیے۔ ہمارے ملک میں نالج بیسڈ اکانومی کی ضرورت ہے اور ایجوکیشن کے لیے زیادہ سے زیادہ بجٹ رکھنا چاہیے۔ گورنمنٹ کو چاہیے کہ درمیانے درجے کے کاروبار کو فروغ دے اور خواتین کو اس میں اپنا رول پلے کرنا چاہیے ۔ خواتین کو فری لانسنگ کورسز،درمیانے درجے کے کاروبار کی تربیت دی جائے تاکہ خواتین بھی ملک کی ترقی میں اپنا کردار ادا کر سکیں۔ ہائر ایجوکیشن کمیشن کو یونیورسٹیوں کے لیے زیادہ سے زیادہ فنڈز دینے چاہیے ، سکول اور کالج لیول پر گورنمنٹ کو اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔ ڈاکٹر عابد رشید گل نے اپنے خطاب میں بجٹ کی اہمیت پر تفصیلی گفتگو کی۔ انہوں نے کہا کہ یونیورسٹیاں ریسرچ اور تعلیم فراہم کرتی ہیں ۔ یونیورسٹی انڈسٹری کے ساتھ ملکر بجٹ کی سفارشات مرتب کرے۔ انہوں نے کہا کہ گزشتہ سال کے اعداو شمار بھی پیش کیے جس کے مطابق پاکستان کی بجٹ استعمال کیا گیا تھا اور آئندہ مالی سال کے لیے بھی اپنی سفارشات پیش کیں۔ پروفیسر ڈاکٹر اریبہ خان نے ریونیو کے بارے میں تفصیلی آگاہ کیا۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کو ٹیکس بڑھانے کی ضرورت ہے ۔ انکم ٹیکس سب سے زیادہ سرکاری ملازم دے رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ایف بی ار کو اس حوالے سے بہت اہم اقدمات کرنے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ فائلر کو ریلیف دیا جائے اور نان فائلر کو ٹیکس نیٹ میں لایا جائے تاکہ زیادہ سے زیادہ ٹیکس جمع کیا جا سکے۔ انہوں نے کہا کہ ایکسپورٹ کو بڑھایا جائے نئے ایکسپورٹ زون بنائے جائے تاکہ ٹیکس جمع کیا جائے۔ چوہدری ذوالفقار علی مان نے کہا کہ ملک میں آمدنی بہت کم ہے اور اخراجات بہت زیادہ ہیں ۔ گورنمنٹ کو اخراجات کم کرنے چاہیے ۔ ملک میں سیاسی استحکام نا ہونے کی وجہ سے کاروباری حضرات میں غیر یقینی صورتحال پید اہو جاتی ہے اور وہ اپنے کاروبار کو بند کر رہے ہیں۔ 3 سال قبل ملک میں ٹیکسٹائل انڈسٹری اپنے عروج پر تھی کاٹن کی پیداوار اور انڈسٹری ترقی کر رہی تھی لیکن آج انڈسٹری بند ہو رہی ہے لوگ بے روزگار ہو رہے ہیں ۔ گورنمنٹ کو چاہیے کہ ٹیکسٹائل انڈسٹری کے لیے ٹیکس فری سکیم کا اعلان کرے تاکہ ملک میں سرمایہ کاری ہو اور لوگوں کو روزگار میسر ہو۔ ملک اعجاز ناظم نے گفتگو کرتے ہوئے کہاکہ پاکستان ایک زرعی ملک ہے لیکن بدقسمتی سے کسان کے ساتھ اچھا سلوک نہیں کیا جا رہا ۔ گورنمنٹ کو چاہیے کہ زرعی ایمرجنسی نافذ کرے اور پبلک پرائیوٹ پارٹنر شپ سے زرعی سیکٹر میں بہتری لائے تاکہ زیادہ پیداوار حاصل کی جا سکے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان میں ٹیکس ریٹ نہیں بڑھانا چاہیے اس سے عام آدمی پر بوجھ بڑھتا ہے ۔ حکومت کو انڈسٹری کے ساتھ ملکر اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ ڈاکٹر شہزاد علی گل نے کہا کہ پاکستان کے پاس یوتھ اور بلیو اکانومی کا بڑا سرمایہ موجود ہے ۔ پاکستان کو اپنی نوجوان نسل کو موقع فراہم کرنا ہے تاکہ وہ ملک و قوم کی ترقی میں اپنا کردار ادا کرسکیں۔ انہوں نے کہا کہ یوتھ ڈویلپمنٹ ، سکلز، فری اکانومی، فری لانسنگ کورسز کی تربیت فراہم کرنی چاہیے تاکہ نوجوان اپنے لیے اور ملک کے لیے زرمبادلہ حاصل کر سکیں۔ عطیہ رحمن نے کہا کہ تمام شہریوں کو ٹیکس نیٹ میں لایا جانا چاہیے تاکہ زیادہ سے زیادہ ٹیکس جمع ہو سکے۔ فائل جمع کرانے کی 1000فیس ہے جو کہ عام آدمی ہر سال دینے کو تیار نہیں۔ ایف بی ار اس حوالے سے سیمینار اور ورکشاپ منعقد کرتا ہے تاکہ کسی بھی نئے ٹیکس کے بارے میں آگاہ کیا جا سکے۔محمد خالد اقبال ڈائریکٹر ڈویلپمنٹ اینڈ فنانس نے کہا کہ ہمیں ایسا سسٹم متعارف کرانا ہوگا جس میں اداروں اور عام لوگوں کے درمیان باہمی رابطہ ممکن ہو سکے۔ ہماری اکانومی ڈاکیومنٹڈ نہیں ہے جس وجہ سے ٹیکس کم جمع ہو رہا ہے۔ تمام چیزوں پر سبسڈی ختم کر نا ہو گی۔زیادہ سے زیادہ پبلک پرائیوٹ پارٹنر شپ کے منصوبے شروع کرنے چاہیے تاکہ ملک میں کاروبار کو فروغ ملے۔ انکم ٹیکس کو کم کرنا چاہیے تاکہ زیادہ سے زیادہ لوگ ٹیکس جمع کرا سکیں اور سیل ٹیکس کو بھی 10 فیصد تک ہو نا چاہیے۔ مجید اے گل نے سیمینار کے انعقاد کو سراہا اور وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر نوید اختر و انتظامیہ کی اس کوشش کی تعریف کی ۔ انہوں نے کہا کہ حکومت کو آئی ایم ایف سے نجات حاصل کرنی چاہیے ۔ ایکسپورٹ کو بڑھانا چاہیے رول آف لاء کی حکمرانی ہونی چاہیے۔ ملک میں کرپشن بہت زیادہ ہے سرحدوں پر اسمگلنگ ہور ہی ہے جس سے ملک کو بہت نقصان ہو رہا ہے۔ ہیلتھ، ایجوکیشن اور زرعی سیکٹر پر توجہ دینی چاہیے تاکہ عام لوگوں کو فائدہ ہوسکے۔ پروفیسر ڈاکٹر آصف نوید رانجھا نے کہا کہ پاکستان میں لوکل باڈی گورنمنٹ کو بہت ضرورت ہے۔ گورنمنٹ کو چاہیے کہ یونین کونسل میں لوکل لیول تک بجٹ کی تیاری میں معاونت حاصل کرے۔ یونیورسٹیوں سے بجٹ کی تیار ی کے لیے ریسرچ حاصل کی جائے ۔ نصیر احمد ناصر نےکہا کہ سودی معشیت کا خاتمہ کیے بغیر معاشی خوشحالی نہیں آسکتی۔شہزاد احمد خالد نے کہا کہ شعبہ تعلقات عامہ نے یونیورسٹی لیکچر سیریز کے بعد وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر نوید اختر کی ہدایت پر اکیڈیما اور اندسٹری ڈائیلاگ کا سلسلہ شروع کیا۔ اسی طرح دوسرے شعبہ جات و مکاتب فکر کے اداروں اور افرادکواپنی تجاویز پالیسی ساز اداوں تک پہنچانی چاہیے ۔ ماہرین نے موجودہ معاشی بحران سے نمٹنے اور پاکستان کی ترقی کے لیے حکومت، صنعت اور تعلیمی اداروں کے درمیان تعاون کی ضرورت پر زور دیا۔ قومی ترقی کے لیے اکیڈمیا، انڈسٹری اور پبلک سیکٹر کے درمیان تعاون کی ضرورت ہے۔ ماہرین نے تعلیمی اقدامات اور صنعت کی ضروریات کے درمیان صف بندی کی ضرورت پر زور دیا۔ قومی اور بین الاقوامی تعاون، تعلیمی، تحقیق اور ٹیکنالوجی کی صنعت کے ذریعے پاکستان کی خلائی صنعت جیسے اقدامات کا بھی ذکر کیا۔شرکاء کا کہنا تھا کہ حکومت کو نہ صرف اداروں کے لئے بجٹ مختص کرنا چاہئے بلکہ اسے ملک میں اداروں کی صلاحیت میں اضافے پر بھی کام کرنا چاہئے۔ اداروں کو مختص بجٹ کو موثر انداز میں خرچ کرنے کے قابل بنانا ہوگا۔ اس مقصد کے لئے حکومت کو پاکستان کی معاشی ترقی میں اکیڈمیا کے کردار میں اضافہ کرنا چاہئے۔ اعلی تعلیمی اداروں کو زیادہ بجٹ مختص کیا جانا چاہئے اور ملک کے لئے پالیسی سازی میں شامل ہونا چاہئے۔ حکومت تعلیم، سائنس اور ٹیکنالوجی پر زیادہ خرچ کرکے پاکستان کو علم کی معیشت بنانے کی طرف اپنی توجہ مبذول کرائے۔ ٹیکس کی شرح میں اضافہ کوئی حل نہیں ہے لیکن حکومت کو ان کی تعداد میں اضافہ کرنا ہوگا۔


تحریر:محمد اقبال
شعبہ تعلقات عامہ
اسلامیہ یونیورسٹی بہاول پور

اپنا تبصرہ بھیجیں