ہمارا کوئی نہیں آپ کے سوا
——————————————
آواز سے تیز رفتار طیاروں کے پر کاٹ دیئے گئے۔ روشنی سے تیز رفتار گاڑیوں کے پہیے جام کر دیئے گئے۔زندگی مفلوج اور انسانیت مقید ہو گئی۔ وہ جنہیں اپنی ترقی، وسائل، مہارت اور قابلیت پر زعم تھا سب کے سب منہ کے بل اوندھے گر گئے۔ یہ کس طرح ہوا، کس کے اشارہ ابرو کے تحت ہوا۔ سب جانتے ہیں مگر مانتے نہیں حتیٰ کہ ماننے والے بھی ماننے کا حق ادا نہیں کر رہے ہیں۔ وہ ذات عظیم جو خالق کائنات اور قادر مطلق کے ساتھ ساتھ واحد ہو لا شریک ہے کی معمولی سی ناراضگی سے دنیا قید خانہ بن کر رہ گئی۔ استغفراللہ، استغفراللہ۔
کم وبیش دو ماہ سے جاری اس قیامت خیز کھیل کا ظاہری مرکزی کردار تو کورونا نام کا وائرس ہے مگر سچ یہ ہے کہ اس ان دیکھی مخلوق کا خالق وہ حتمی قوت کا حامل ہے جو جب اور جہاں چاہے کر سکتا ہے۔ ماضی میں ابرہ کے ہاتھیوں کو ننھی ابابیلوں کے ذریعہ تہس نہس کر دیا اور آج اس سے کہیں چھوٹی بلکہ نظر نہ آنے والی مخلوق سے دنیا کو روند کر رکھ دیا۔ تمام تر طاقتیں، صلاحیتیں اور ہنر مندیاں دھری کی دھری رہ گئیں۔
تاہم اس سارے مرحلے پر جو بات سامنے آئی ہے وہ نہایت حوصلہ افزاء ہے۔جو جینے کی راہ آساں کرتی ہے بتاتی ہے کہ ہم زندگی میں جب تک اپنے خالق سے رجوع نہیں کریں گے زندگی مشکل سے مشکل ترین ہوتی چلی جائے گی۔سرکار اور عوام دونوں نے توبہ استغفار کو ہی ذریعہ نجات سمجھ لیا ہے۔ ملک کے طو ل و عرض سے صدائے حق بلند ہونے لگیں، صدقہ و خیرات سے لاکھوں خاندانوں اور کروڑوں انسانوں کو مستفید کیا گیا۔ سرکار نے بے روزگار ہونے والے افراد کو بارہ ہزار روپے فی کس کے حساب سے اس قدر شفاف اور صاف طریقے سے ادا کئے جس کی مثال ماضی میں کہیں نہیں ملتی۔ یہ سب خوف خدا کی بہترین مثالیں ہیں۔ اسی وجہ سے اللہ تعالیٰ کے کرم میں اضافہ ہوا کہ ہمارے ہاں کورونا وائرس سے متاثر اور ہلاک ہونے والوں کی تعداد دیگر ممالک کے مقابلے میں بہت کم ہے۔اللہ کرے کہ یہ سلسلہ پوری دنیا میں ہمیشہ کے لئے ختم ہو جائے۔لوگ امن چین اور سکھ کی زندگی بسر کریں۔
ہمارا ایمان ہے کہ زندگی رب کا دیا ہوا ایک بہترین تحفہ اور نعمت ہے۔ اس کا جتنا بھی شکر ادا کیا جائے کم ہے۔ یہ ہماری ناشکری ہی ہے جو ہمیں اس طرح غیروں کے سامنے شرمندہ کرتی ہے ورنہ اس خالق عظیم ترین کی چوکھٹ پر سرجھکانے والوں کو تو اس نے دنیا کی شاہی عطا فرمائی ہے۔
بس! رب کریم سے التجا ہے کہ وہ ہماری تمام تر غلطیوں گناہوں اور کوتاہیوں کو نظر انداز فرماتے ہوئے اپنی شان کریمی کے مطابق کرم فرمائے۔ ہم سراپا عرض گذار ہیں کہ ہمارے پاس تمام تر وسائل، صلاحیتیں اور کوششیں بے کار ہیں جب تک رب عظیم کا کرم نہ ہو۔ مولا! ہماری جملہ خطائیں معاف فرماتے ہوئے ہمیں اپنے سایہ رحمت میں لے لیجیے۔اس جھوٹ کی دنیا کے تمام بیوپاریوں کا کاروبار ٹھپ کروا کر سچ کا بیوپار عام کر دیجئے۔ یہ آپ کر سکتے ہیں ہمیں دنیا و آخرت میں ذلیل و رسوا ہونے سے بچا لیجئے۔ آپ ہی بچا سکتے ہیں ورنہ ہمارا کوئی مددگار نہیں اور نہ کوئی مدد کرسکتا ہے۔ ہمارے جملہ گناہ بخش دیجئے اور صرف اور صرف اپنے سایہ رحمت میں لے لیجئے کہ ہمارا کوئی نہیں آپ کے سوا۔
مستقل کالم. ارداس تحریر: ریاض الحق بھٹی bhatticolumnist99@gmail.com