آرٹیکل 128کے تحت آرڈینس
جب صوبائی اسمبلی کا اجلاس ممکن نہ ہو اور ایمرجنسی حالات ہوں تو صوبہ کاگورنر آئین پاکستان کے آرٹیکل128 کے تحت آرڈیننس جاری کر سکتا ہے جس کی معیاد نوے یوم تک ہوتی ہے۔ صوبائی اسمبلی چاہے تو اجلاس میں آرڈیننس کی
معیاد میں توسیع کرسکتی ہے۔ اسی طرح صدر پاکستان بھی آئین پاکستان کےآرٹیکل89 کے تحت آرڈیننس جاری کر سکتا ہے جس کی معیاد ایک سو بیس یوم تک ہوتی ہے۔آرڈیننس کو قانون کا درجہ حاصل ہوتاہے۔اسلام میں ذخیرہ اندوزی کرکےمصنوعی طور پر قلت پیدا کر کے پھر دوگنے دام پرمال بیچنے کی سخت ممانعت کی گئی ہے۔
حضرت عمررضی اللہ تعالیٰ عنہا سےروایت ہے کہ جناب نبی کریمﷺنے فرمایا: جو شخص کھانے پینے کی چیزوں میں ذخیرہ اندوزی کرکے مسلمانوں پر مہنگائی کرتا ہے تو ا?تعالیٰ اسے کوڑھ کےمرض میں مبتلاءکر دیتے ہیں (رواہ ابن ماجہ) جبکہ دوسری حدیث میں حضرت
امامہ ؒ سے روایت ہے کہ جناب نبی کریم ﷺنے فرمایا:جو شخص چالیس دن تک غلہ مہنگائی کے لحاظ سے ذخیرہ کرے پھر غلطی کا احساس ہونے پر وہ تمام غلہ صدقہ کر دے پھر بھی اس کی غلطی کا کفارہ ادا نہیں ہوتا۔
گورنر پنجاب نے کرونا وباءکی وجہ سے لاک ڈاﺅن کے دوران شیڈولڈضروری اشیاءچائے،سفید چینی ،دودھ، پاوڈر دودھ، بچوں کے لئے دودھ کا کھانا،
خوردنی تیل ، سوڈا ، پھلوں کے جوس ،اسکواش، نمک ،آلو، پیاز، ہر طرح کی دالیں، ہر طرح کی مچھلی، گائے کا گوشت ،مٹن ،انڈے،گڑ،مصالحے اور سبزیاں،سرخ مرچ ،دوائیاں،مٹی
کاتیل،ماچس،کوئلہ، ہر طرح کی کیمیائی کھاد،پولٹری فوڈ،سیمنٹ،پھٹی (بیج کاٹن)،کاٹن (لنٹ)، ہر طرح کے کپاس کےبیج،اون ،کاسٹک سوڈا،سوڈا ایش،چاول،کیڑے مار دوا،کھڑوڑے پائے گوشت، ہرطرح کا گندم کا آٹا ،سرجیکل دستانے،چہرے کے ماسک،این 95 ماسک،حفظان صحت سے متعلق سینیٹائز،سطح کی صفائی ستھرائی کی مصنوعات، آئسوپروپل الکوحل
ذخیرہ کرنے والوں کے لیے ترہ دفعات اور ایک شیڈول پر مشتمل انسداد ذخیرہ اندوزی آرڈیننس2020 جاری کیا ہے۔ذخیرہ اندوزی کرنے والے کے خلاف مقدمہ درج کیا جائے گااوراسکو گرفتارکرکےسپیشل مجسٹریٹ کے روبرو پیش کیا جائے گا۔جرائم ذخیرہ اندوزی قابل دست اندازی اور ناقابل ضمانت ہونگے۔ڈپٹی کمشنر یا اسکا مجاز افسرگودام کی تلاشی لیکر مال ضبط کرکے نیلام کردےگا۔زر نیلام کو نیشنل بنک آف پاکستان
کی کسی منافع والی سکیم میں جمع کرایا جائے گا۔ذخیرہ اندوزکو گرفتار کرنےکے لیے یا ذخیرہ اندوزی کے مقام کی تلاشی کے لیے کسی اجازت نامہ یا وارنٹ کی ضرورت نہ ہےبلکہصرف معتبر اطلاع کا ہونا ضروری ہے۔
سپیشل مجسٹریٹ سمری ٹرائل کرتے ہوئے تیس یوم میں مقدمہ کا فیصلہ کرےگا۔اگر ملزم بری ہوجاتا ہے تو نیشنل بنک آف پاکستان میں جمع شدہ رقم مع منافع بری ہونے والے شخص کو دےدی جائے گی۔ ذخیرہ اندوزی کا جرم ثابت
ہونے پر مجرم کو دفعہ تین کےتحت تین سال تک قیدمحض اور ذخیرہ شدہ مال کی نصف قیمت کے برابر جرمانہ کی سزا دی جاسکتی ہے۔اس کے علاوہ مجرم کی نیشنل بنک آف پاکستان میں جمع شدہ رقم مع منافع خزانہ سرکار میں منتقل کردی
جائےگی۔ ڈپٹی کمشنر یا اس کے مجاز افسر کو ذخیرہ اندوزی کی اطلاع دینےوالے کو بطور انعام دس فیصد رقم دی جائے گی۔ اگر اس آرڈیننس کے تحت کوئی کمپنی یا باڈی کارپوریٹ یا پارٹنرشپ فرم یا دیگر ایسوسی ایشن جرم کرتی ہے
تو ہر ڈائریکٹر ، پارٹنر ، منیجر ، سیکریٹری ،ممبر یا آفیسر ، پرنسپل ،بنیادی یا فائدہ مند مالک یا اس کا ایجنٹ، جب تک کہ وہ ثابت نہ کرے کہ
خلاف ورزی اس کے علم کے بغیر ہوئی ہے یاکہ اس نے ذخیرہ اندوزی کو روکنےکے لئے پوری مستعدی سے کوشش کی ہےاس طرح کی خلاف ورزی کا مرتکب اور اس آرڈیننس کے تحت سزا کے لئے ذمہ دار ہوگا۔ سزا کے حکم سے متاثرہ مجرم اندر تیس یوم سیشن جج کی عدالت میں اپیل دائر
کرسکتا ہے۔ٹرائل کی طرح اپیل کا فیصلہ بھی تیس یوم میں کیا جائے گا۔ہر ڈیلر قانونی طور پر اپنے مال و اسباب کی تفصیل متعلقہ افسر کو دینے کا پابند ہوگا۔غلط تفصیل دینےوالے کو دفعہ بارہ کےتحت تین سال تک قید محض اور دس لاکھ روپے جرمانہ کی سزا دی جاسکتی ہے۔
تحریر۔
ندیم اصغر ندیم سول جج رحیم یار خان